• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچوں کی تربیت: عبادات اور اخلاق میں

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک اپنے خالق سے تعلق اور دوسرا اس کی مخلوق سے۔ پہلے کو ہم اصطلاحا حقوق اللہ کہتے ہیں اور دوسرے کو حقوق العباد۔ اللہ کے حقوق اچھی طرح ادا کرنے سے اچھا مسلمان بنتا ہے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے سے اچھا انسان وجود میں آتا ہے۔ خالق کے حقوق کو ایک لفظ میں بیان کریں تو وہ عبادت ہے اور بندوں کے حقوق کو ایک لفظ میں جمع کرنا چاہیں تو وہ اخلاق ہیں۔

اپنے بچوں کی اگر ہم عبادت اور اخلاق درست کر دیں تو ان کا اپنے رب اور انسانوں دونوں سے تعلق اچھا ہو جائے گا اور وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کامیاب زندگی گزاریں گے۔ عبادت چونکہ خالق کا حق ہے اور عبادت میں سب سے اہم نماز ہے لہذا بچے کی عبادت درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی نماز درست کر دی جائے۔ اپنے بچوں کو اگر ہم اللہ کا اچھا بندہ بنانا چاہتے ہیں تو ان کی نماز پر خصوصی توجہ دیں۔ نماز کے اچھا کیے بغیر کسی کا اللہ کا اچھا بندہ بن جانا مشکوک امر ہے۔

اگر بچے کی نماز صحیح ہو جائے گی تو اس کی جملہ زندگی میں اللہ کی بندگی کے جمیع پہلو بھی ان شاء اللہ سنور جائیں گے۔ لیکن اگر اس کی نماز خراب رہ گئی تو زندگی کے دیگر شعبوں میں اس کا اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته، فإن صلحت فقد أفلح وأنجح، وإن فسدت فقد خاب وخسر (الترمذي)
قیامت والے دن سب سے پہلے انسان کے اعمال میں سے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا۔ پس اگر نماز درست نکلی تو وہ فلاح پا جائے گام کامیاب ہو جائے گا اور اگر نماز خراب نکلی تو ناکام ہو جائے گا، نقصان میں رہ جائے گا۔

اور جہاں تک اخلاق کا معاملہ ہے کہ بچے کے رویے درست ہو جائیں تو اس میں جو ایک چیز کہ جسے فوکس کرنے سے ان شاء اللہ بچے کے تمام رویے درست ہوتے چلیں جائیں گے، اخلاص ہے۔ جس طرح نماز کے درست ہونے سے جملہ عبادات درست ہو جائیں گی ان شاء اللہ، اسی طرح بچے میں اخلاص کا جذبہ پیدا ہو جانے سے اس کے تمام رویے اور اخلاق درست ہوتے چلے جائیں گے۔ اخلاص سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں میں یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ وہ ہر کسی کی خیر خواہی چاہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
((الدين النصيحة، قلنا: لمن يا رسول الله؟ قال: لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم)) (مسلم)
دین تو نام ہی اخلاص کا ہے۔ ہم نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کس کے لیے اخلاص؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے، اللہ کی کتاب کے لیے، مسلمان حکمرانوں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب کے لیے اخلاص یعنی تعلق میں خالص ہونا تو واضح ہے۔ عام لوگوں کے لیے اخلاص سے مراد ان کے ساتھ خالص اور کھرا تعلق رکھنا کہ جس میں کوئی کھوٹ، ملاوٹ، دھوکہ، فریب اور جھوٹ نہ ہو۔ اسے ہم آسان الفاظ میں خیر خواہی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی کسی کا برا کرنا تو دور کی بات کسی کا برا سوچنا یا چاہنا بھی نہ ہو۔ ہر ایک کی بھلائی مقصود ہو۔ بچوں میں اگر دوسروں کی خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہو جائے تو وہ کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔

بچے جس فطرت پر پیدا ہوتے ہیں اس میں اپنی ذات کے ساتھ تو اخلاص اور خیر خواہی کا جذبہ موجود ہوتا ہی ہے کہ بچہ اپنی ذات کی ہمیشہ خیر خواہی ہی چاہتا ہے لیکن دوسروں کے ساتھ صرف اتنا ہی اخلاص رکھتا ہے کہ وہ اس کی ذات کے ساتھ خیر خواہی سے ٹکراتا نہ ہو۔ شعوری عمر سے پہلے بچے اپنی ذات کو اپنے بہن بھائیوں پر ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ہی سے والدین نے ان کی تربیت کا عمل شروع کرنا ہے۔ مثلا گھر میں کوئی کھلونا آئے تو ہر بچے کی یہ خواہش ہو گی کہ یہ اسے ملے نہ کہ اس کے بہن یا بھائی کو۔ ہر بچہ اپنے مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور اسے دینی بھی چاہیے کیونکہ وہ اسی فطرت پر پیدا ہوا ہے لیکن تربیت کرنے کا میدان یہ ہے کہ بچے میں ایک تو اخلاص کا جذبہ پیدا کیا جائے کہ کسی کے نقصان کے بدلے میں اپنا مفاد حاصل کرنے سے اسے ہرگز خوشی نہ ہو اور دوسرا ایثار کا مادہ کہ وہ کبھی کبھار اپنا مفاد دوسرے کو ہبہ یا گفٹ بھی کر دیا کرے۔ یہی عام لوگوں سے اخلاص یا خیر خواہی کہلاتا ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ اخلاق دو قسم کے ہیں۔ ایک فطری یعنی پیدائشی جو بچہ اپنے ساتھ لے کر اس دنیا میں آتا ہے اور دوسرا دینی یعنی جن کی تعلیم دین نے دی ہے۔ جمیع فطری اخلاق کا مادہ یا جوہر حیا ہے۔ جس میں حیا نہ ہو اس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ ہم نے فطری اخلاق کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ تو بچہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے الا یہ کہ اس کا معاشرہ اس قدر بگڑا ہوا ہو کہ اسے فطرت سے بھی ہٹا دے۔ یہاں ہم نے دینی اخلاق کا ذکر کیا ہے جو کہ کسبی ہوتے ہیں یعنی جنہیں حاصل کرنے کے لیے کسی قدر محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور جملہ دینی اخلاق کی بنیاد اخلاص یعنی تعلقات میں خالص ہونے پر ہے۔
 
Top