محمود حمید
رکن
- شمولیت
- جنوری 17، 2018
- پیغامات
- 26
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 36
بچو ! تم اللہ تعالی سے شرم و حیا کرو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر : محمود حمید پاکوڑی
فن حدیث کے استاد کلاس روم میں داخل ہوتے ہی گویا ہوئے : بچو ! آج میں آپ کے سامنے ایک حدیث نبوی کی تشریح کروں گا ۔ کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں ؟
تمام طلبہ نے طوعاً و کرہاً بیک زبان استاد کی رائے پر لبیک کہا ۔
استاد نے ایک طالب علم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : احمد ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ شرم و حیا کسے کہتے ہیں؟
احمد : جی استاد محترم ! اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیاء سے مراد وہ ''شرم'' ہے جو انسان کو فحشاء اور منکر کا اقدام کرنے سے روکتی ہے اور اگر وہ جبلتِ حیوانی کے غلبے کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتا ہے تو یہی چیز اس کے دل میں کھٹکتی رہتی ہے ۔
استاد : ما شاء اللہ ! آپ نے حیا کی جامع و مانع تعریف کی ہے ۔اب استاد نے حماد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : تم شرم و حیا کی فضیلت پر کوئی حدیث رسول پیش کرو ۔
حماد : اسلام کے بے شمار محاسن میں سے ایک حیا بھی ہے ، جس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے :{ الحياءُ كلُّهُ خيرٌ} [رواه مسلم ] حیا مکمل طور پر باعث خیر ہے “ ۔
اب استاد صاحب طلبہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے فرمانے لگے : حیا کا حکم یوں تو عام ہے لیکن اللہ تعالی سے حیا کرنے کا خاص حکم ہوا ہے ۔ چنانچہ صحابی رسول اِبن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:{ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اِسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ : لَيْسَ ذَاكَ، وَلَكِنَّ الاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ: أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَ تَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْتَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبِلَى وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ }[( صحيح سنن الترمذي : ٢٠٠٠]
بچو ! اس حدیث کا ترجمہ کچھ یوں ہے ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے - ہم (صحابہ )نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں - آپ نے فرمایا: حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے - پس جس نے اسے پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالی سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے ۔“
بچو ! اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اللہ تعالی سے حیا کرنے کا طریقہ سکھایا ہے کہ صحیح معنوں میں اللہ سے حیا اس وقت ہو گی جب(١) سر اور اس سے جڑے ہوۓ اعضاء کی حفاظت کی جائے(٢) پیٹ اور اس سے متصل تمام اعضاء وجوارح کی حفاظت کی جائے(٣) قبر کو یاد کیا جائے اور(٤) دنیا کی زیبائش و آرائش کو ترک کیا جائے ۔
*سر اور اس سے متصل اعضاء کی حفاظت*
سر کی حفاظت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم غیر اللہ کے آگے اپنا سر جھکائیں نہ انہیں سجدہ کریں بلکہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہ کو سجدہ کریں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ ﴾ [حم : ٣٧ ] یعنی نہ تم سورج کو سجدہ کرو اور نہ ہی چاند کو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ “
اسی طرح سر کو متکبرانہ انداز سے اونچا نہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ﴿وَلاَ تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ ﴾ [لقمان : ١٨ ]اور اپنے گال کو لوگوں کے سامنے پھلا کر مت چلو ۔“
اسی طرح سر سے جڑے اعضاء مثلاً آنکھ ، کان اور زبان کی حفاظت کی جائے ۔ آنکھوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ حرام کردہ اشیاء کی طرف نظر نہ اٹھائی جائے۔ اللہ تعالی نے فرمایا :﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ ﴾ [النور : ٣٠]اور آپ مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔“
اور کان کی حفاظت اس طرح کی جائے کہ حرام چیزوں کو پردہ سماعت سے ٹکرانے نہ دی جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴾ [لقمان : ٦] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو لہو الحدیث خریدتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کردیں بغیر علم کے اور اسے مزاق بنا لیتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسواکن عذاب ہے۔ “
اسی طرح زبان کی حفاظت بھی ضروری ہے ۔ جسم کا یہ ٹکڑا تمام اعضائے جسمانی سے زیادہ خطرناک اور مضر ہے کیونکہ غیبت ، چغل خوری ، جھوٹ ، تہمت اور گالی گلوچ بلکہ اکثر برائیاں اسی سے صادر ہوتی ہیں ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ }[متفق عليه ] جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔“ اور اس کی حفاظت کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :{ مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّةَ }[صحیح البخاري] جو شخص اپنے دو جبڑوں کے مابین اور اپنے دو پیر کے مابین والی چیز کی ضمانت دے گا میں اسے جنت کی ضمانت دونگا ۔“
*پیٹ اور اس سے متصل اعضاء کی حفاظت*
پیٹ کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ حرام کھانے سے اجتناب کیا جائے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ﴿ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ﴾[البقرة :١٨٨ ]اور تم اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھایا کرو ۔“ اسی طرح اکل حلال کو اپنا معمول بنایا جائے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴾ [البقرة : ١٧٢]اے ایمان والو ! اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو ہماری عطا کردہ پاک روزی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو ۔“
اور پیٹ سے منسلک اعضاء مثلاً دل ، شرمگاہ ، ہاتھ اور پیر کی حفاظت کی جائے ۔ دل کی حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ یہ کافی حساس اور نازک عضو ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : {أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ} [متفق عليه] خبردار سن لو ! بے شک جسم کے اندر ایک ٹکڑا ہے کہ جب وہ درست رہتا ہے تو مکمل جسم درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو پورا بدن خراب ہوجاتا ہے اور یقینا وہ ٹکڑا دل ہے ۔“
اور شرمگاہ کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ زناکاری اور بدفعلی سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ﴿ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾ [بنی اسرائیل :٣٢ ]اور تم زنا کے قریب بھی مت جاؤ ، یقیناً وہ بڑی بے حیائ ہے اور بہت ہی بری راہ ہے “۔
اور ہاتھ کی حفاظت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اس سے معاصی اور گناہوں کے کاموں کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : {اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ }[ متفق علیه ] حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے ۔“ لہذا ضروری ہے کہ معروف کاموں میں ہاتھ کا استعمال کیا جائے ۔ رسول اللہ سلم نے فرمایا :{مَنْ رَأيٰ مِنْكُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِہِ } [صحيح مسلم] تم میں سے جو شخص منکر چیز کو دیکھے تو چاہئے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے ۔“ اور پیر کی نگرانی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منکرات و محرمات کی نیت سے جایا جائے نہ اس کے ذریعے کسی کو تکلیف پہنچائی جائے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ﴾ [سورة لقمان : ١٨] اور زمین پر اکڑ کر نہ چل ۔“
بچو ! پروردگار سے حیا کرنے کے آداب میں سے ایک موت اور سڑ جانے والی ہڈیوں کو یاد کرنا بھی ہے ، کیونکہ اس سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان اعمال صالحہ کی طرف راغب ہوتا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو یاد کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا :{أَكْثِرُوْا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ ، يَعْنِي الْمَوْتَ } [الجامع الصحيح : ١٢١٠] لذتوں کو کاٹ دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو ۔ “
اللہ رب العالمین سے شرم و حیا کرنے کی آخری کڑی یہ ہے کہ انسان دنیا کی زیب و زینت اور اس کی خوبصورتی سے دور رہے ۔ اللہ رب العالمین نے فرمایا :﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ﴾ [ سورة هود : ١٥] جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو، ہم ایسوں کو انکے کل اعمال یہیں بھر پور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔“
بچو ! جب ہم مذکورہ احکام و آداب کے پابند ہونگے تو صحیح معنوں میں ہم اللہ تعالی سے حیا کرنے والے بنیں گے اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ، آمین یا رب العالمین ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر : محمود حمید پاکوڑی
فن حدیث کے استاد کلاس روم میں داخل ہوتے ہی گویا ہوئے : بچو ! آج میں آپ کے سامنے ایک حدیث نبوی کی تشریح کروں گا ۔ کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں ؟
تمام طلبہ نے طوعاً و کرہاً بیک زبان استاد کی رائے پر لبیک کہا ۔
استاد نے ایک طالب علم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : احمد ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ شرم و حیا کسے کہتے ہیں؟
احمد : جی استاد محترم ! اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیاء سے مراد وہ ''شرم'' ہے جو انسان کو فحشاء اور منکر کا اقدام کرنے سے روکتی ہے اور اگر وہ جبلتِ حیوانی کے غلبے کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتا ہے تو یہی چیز اس کے دل میں کھٹکتی رہتی ہے ۔
استاد : ما شاء اللہ ! آپ نے حیا کی جامع و مانع تعریف کی ہے ۔اب استاد نے حماد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : تم شرم و حیا کی فضیلت پر کوئی حدیث رسول پیش کرو ۔
حماد : اسلام کے بے شمار محاسن میں سے ایک حیا بھی ہے ، جس کے بارے میں ارشاد نبوی ہے :{ الحياءُ كلُّهُ خيرٌ} [رواه مسلم ] حیا مکمل طور پر باعث خیر ہے “ ۔
اب استاد صاحب طلبہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے فرمانے لگے : حیا کا حکم یوں تو عام ہے لیکن اللہ تعالی سے حیا کرنے کا خاص حکم ہوا ہے ۔ چنانچہ صحابی رسول اِبن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ:{ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اِسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ : لَيْسَ ذَاكَ، وَلَكِنَّ الاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ: أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَ تَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْتَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبِلَى وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ }[( صحيح سنن الترمذي : ٢٠٠٠]
بچو ! اس حدیث کا ترجمہ کچھ یوں ہے ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے - ہم (صحابہ )نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں - آپ نے فرمایا: حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے - پس جس نے اسے پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالی سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے ۔“
بچو ! اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اللہ تعالی سے حیا کرنے کا طریقہ سکھایا ہے کہ صحیح معنوں میں اللہ سے حیا اس وقت ہو گی جب(١) سر اور اس سے جڑے ہوۓ اعضاء کی حفاظت کی جائے(٢) پیٹ اور اس سے متصل تمام اعضاء وجوارح کی حفاظت کی جائے(٣) قبر کو یاد کیا جائے اور(٤) دنیا کی زیبائش و آرائش کو ترک کیا جائے ۔
*سر اور اس سے متصل اعضاء کی حفاظت*
سر کی حفاظت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم غیر اللہ کے آگے اپنا سر جھکائیں نہ انہیں سجدہ کریں بلکہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہ کو سجدہ کریں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ ﴾ [حم : ٣٧ ] یعنی نہ تم سورج کو سجدہ کرو اور نہ ہی چاند کو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے ۔ “
اسی طرح سر کو متکبرانہ انداز سے اونچا نہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ﴿وَلاَ تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ ﴾ [لقمان : ١٨ ]اور اپنے گال کو لوگوں کے سامنے پھلا کر مت چلو ۔“
اسی طرح سر سے جڑے اعضاء مثلاً آنکھ ، کان اور زبان کی حفاظت کی جائے ۔ آنکھوں کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ حرام کردہ اشیاء کی طرف نظر نہ اٹھائی جائے۔ اللہ تعالی نے فرمایا :﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ ﴾ [النور : ٣٠]اور آپ مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔“
اور کان کی حفاظت اس طرح کی جائے کہ حرام چیزوں کو پردہ سماعت سے ٹکرانے نہ دی جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴾ [لقمان : ٦] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو لہو الحدیث خریدتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کردیں بغیر علم کے اور اسے مزاق بنا لیتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسواکن عذاب ہے۔ “
اسی طرح زبان کی حفاظت بھی ضروری ہے ۔ جسم کا یہ ٹکڑا تمام اعضائے جسمانی سے زیادہ خطرناک اور مضر ہے کیونکہ غیبت ، چغل خوری ، جھوٹ ، تہمت اور گالی گلوچ بلکہ اکثر برائیاں اسی سے صادر ہوتی ہیں ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ }[متفق عليه ] جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔“ اور اس کی حفاظت کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :{ مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّةَ }[صحیح البخاري] جو شخص اپنے دو جبڑوں کے مابین اور اپنے دو پیر کے مابین والی چیز کی ضمانت دے گا میں اسے جنت کی ضمانت دونگا ۔“
*پیٹ اور اس سے متصل اعضاء کی حفاظت*
پیٹ کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ حرام کھانے سے اجتناب کیا جائے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ﴿ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ﴾[البقرة :١٨٨ ]اور تم اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھایا کرو ۔“ اسی طرح اکل حلال کو اپنا معمول بنایا جائے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴾ [البقرة : ١٧٢]اے ایمان والو ! اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو ہماری عطا کردہ پاک روزی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو ۔“
اور پیٹ سے منسلک اعضاء مثلاً دل ، شرمگاہ ، ہاتھ اور پیر کی حفاظت کی جائے ۔ دل کی حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ یہ کافی حساس اور نازک عضو ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : {أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ} [متفق عليه] خبردار سن لو ! بے شک جسم کے اندر ایک ٹکڑا ہے کہ جب وہ درست رہتا ہے تو مکمل جسم درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو پورا بدن خراب ہوجاتا ہے اور یقینا وہ ٹکڑا دل ہے ۔“
اور شرمگاہ کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ زناکاری اور بدفعلی سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : ﴿ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾ [بنی اسرائیل :٣٢ ]اور تم زنا کے قریب بھی مت جاؤ ، یقیناً وہ بڑی بے حیائ ہے اور بہت ہی بری راہ ہے “۔
اور ہاتھ کی حفاظت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اس سے معاصی اور گناہوں کے کاموں کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : {اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ }[ متفق علیه ] حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے ۔“ لہذا ضروری ہے کہ معروف کاموں میں ہاتھ کا استعمال کیا جائے ۔ رسول اللہ سلم نے فرمایا :{مَنْ رَأيٰ مِنْكُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِہِ } [صحيح مسلم] تم میں سے جو شخص منکر چیز کو دیکھے تو چاہئے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے ۔“ اور پیر کی نگرانی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منکرات و محرمات کی نیت سے جایا جائے نہ اس کے ذریعے کسی کو تکلیف پہنچائی جائے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :﴿وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ﴾ [سورة لقمان : ١٨] اور زمین پر اکڑ کر نہ چل ۔“
بچو ! پروردگار سے حیا کرنے کے آداب میں سے ایک موت اور سڑ جانے والی ہڈیوں کو یاد کرنا بھی ہے ، کیونکہ اس سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان اعمال صالحہ کی طرف راغب ہوتا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو یاد کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا :{أَكْثِرُوْا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ ، يَعْنِي الْمَوْتَ } [الجامع الصحيح : ١٢١٠] لذتوں کو کاٹ دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو ۔ “
اللہ رب العالمین سے شرم و حیا کرنے کی آخری کڑی یہ ہے کہ انسان دنیا کی زیب و زینت اور اس کی خوبصورتی سے دور رہے ۔ اللہ رب العالمین نے فرمایا :﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ﴾ [ سورة هود : ١٥] جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو، ہم ایسوں کو انکے کل اعمال یہیں بھر پور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔“
بچو ! جب ہم مذکورہ احکام و آداب کے پابند ہونگے تو صحیح معنوں میں ہم اللہ تعالی سے حیا کرنے والے بنیں گے اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ، آمین یا رب العالمین ۔