ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
اذا قال لك طفل صغير معي مبلغ كبير
فأنت تتوقع ان معه 100“ دينار
على قدر حجمه وقدرته ..
اگر ایک بچہ آپ سے کہے کہ میرے پاس بڑی رقم ہے
آپ اُس کی عمر دیکھتے ہوئے یہی اندزاہ
لگائیں گے کہ اُس کے پاس 100 روپے ہیں
فإذا قال لك مدير بنك عندي لك مبلغ كبير ،
فأنت تتوقع مثلا” مليون “ دينار
على قدر حجمه وقدرته
اگر بینک مینیجر آپ سے کہے کہ آپ کے لیے میرے پاس بڑی رقم ہے
تو آپ اُس کے عہدے کو دیکھتے ہوئے سوچیں گے کہ
دس لاکھ تو ہوں گے
فإذا قال ملك أو رئيس عندي لك مبلغ كبير ،
فأنت تتوقع مثلاً ”مليار“دينار
على قدر حجمه وقدرته ..
اگر بادشاہ یا صدر کہے کہ میرے پاس آپ کے لیے بڑی رقم ہے
تو آپ سوچیں گے کہ کم از کم ایک ملین روپے تو ہوں گے
فما بالك إذا قال ملك الملوك الله عز وجل عن الجنة
"أعددت لعبادي الصالحين
تو جنت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کے بارے میں اللہ مالک الملک
کا کہنا ہے کہ یہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے بنائی ہے
ما لا عين رأت
ایسی جنت کی جس کی نعمتیں کسی آنکھ نے دیکھی نہیں
ولا أذن سمعت
نہ کسی کان نے سنی
ولا خطر على قلب بشر
نہ کسی بندہ بشر کے دل میں خیال آسکتا ہے کہ جنت میں کیسی کیسی نعمتیں ہوں گی
تو آئیے رب العزت کے فرمان پر عمل کریں
اللہ فرماتے ہیں :
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾
اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے (133)
یاد رکھیے جنت کا راستہ کٹھن ہے
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ نے جنت کو پیدا کیا تو حضرت جبرائیل سے فرمایا کہ جاؤ اسے دیکھو وہ گئے اور جنت کو ایک نظر دیکھا پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ اے میرے رب آپ کی عزت کی قسم۔ کوئی شخص ایسا نہیں جو جنت کے بارے میں سنے (وہاں کے عیش وآرام کے بارے میں) مگر یہ کہ اس میں داخل ہو جائے۔ پھر اللہ نے جنت کو مکروہات سے ڈھانپ دیا اور جبرائیل سے فرمایا جاوء اور اسے دیکھو۔ وہ گئے اور اسے نظر دیکھا پھر تشریف لائے تو فرمایا کہ اے میرے رب آپ کی عزت کی قسم مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ پھر حضور اکرم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا تو فرمایا کہ اے جبرائیل۔ جاؤ اور سے دیکھو وہ گئے اور اسے ایک نظر دیکھ کر آئے اور فرمایا کہ اے میرے پروردگار آپ کی عزت کی قسم! کوئی ایسا نہیں کہ جہنم (کے احوال سنے) اور اس میں داخل ہوجائے۔ پھر اللہ نے اسے شہوات سے بھر دیا پھر فرمایا کہ اے جبرائیل! جاؤ اور سے دیکھو وہ گئے اور اسے ایک نظر دیکھا پھر آئے تو عرض کیا اے میرے پروردگار آپ کی عزت اور بزرگی کی قسم۔ مجھے ڈر ہے کہ کوئی اس میں داخل ہونے سے باقی نہ رہے گا۔
سنن ابوداؤد: سنت کا بیان
کوئی بھی کام کرنے اور بات منہ سے نکالنے سے پہلے سوچیے
کیا ہمارا یہ قول اور فعل ہمیں جنت سے دور تو نہیں کر رہا
رسول مقبول علیہ الصلاة والسلام کا فرمان ہے :
زید بن وہب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 451 مخلوقات کی ابتداء کا بیان
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گارنٹی :
سیدناسہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔
صحیح بخاری:جلد سوم: دلوں کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
اور یہ سب کچھ اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال میں میانہ روی اختیار کرو، اور اللہ کی قربت اختیار کرو اور تمہیں خوشخبری ہو کہ کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ بخشش اور مہربانی (کے سایہ میں) ڈھانپ لے۔
صحیح بخاری:جلد سوم: دلوں کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
فأنت تتوقع ان معه 100“ دينار
على قدر حجمه وقدرته ..
اگر ایک بچہ آپ سے کہے کہ میرے پاس بڑی رقم ہے
آپ اُس کی عمر دیکھتے ہوئے یہی اندزاہ
لگائیں گے کہ اُس کے پاس 100 روپے ہیں
فإذا قال لك مدير بنك عندي لك مبلغ كبير ،
فأنت تتوقع مثلا” مليون “ دينار
على قدر حجمه وقدرته
اگر بینک مینیجر آپ سے کہے کہ آپ کے لیے میرے پاس بڑی رقم ہے
تو آپ اُس کے عہدے کو دیکھتے ہوئے سوچیں گے کہ
دس لاکھ تو ہوں گے
فإذا قال ملك أو رئيس عندي لك مبلغ كبير ،
فأنت تتوقع مثلاً ”مليار“دينار
على قدر حجمه وقدرته ..
اگر بادشاہ یا صدر کہے کہ میرے پاس آپ کے لیے بڑی رقم ہے
تو آپ سوچیں گے کہ کم از کم ایک ملین روپے تو ہوں گے
فما بالك إذا قال ملك الملوك الله عز وجل عن الجنة
"أعددت لعبادي الصالحين
تو جنت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کے بارے میں اللہ مالک الملک
کا کہنا ہے کہ یہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے بنائی ہے
ما لا عين رأت
ایسی جنت کی جس کی نعمتیں کسی آنکھ نے دیکھی نہیں
ولا أذن سمعت
نہ کسی کان نے سنی
ولا خطر على قلب بشر
نہ کسی بندہ بشر کے دل میں خیال آسکتا ہے کہ جنت میں کیسی کیسی نعمتیں ہوں گی
تو آئیے رب العزت کے فرمان پر عمل کریں
اللہ فرماتے ہیں :
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾
اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے (133)
یاد رکھیے جنت کا راستہ کٹھن ہے
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ نے جنت کو پیدا کیا تو حضرت جبرائیل سے فرمایا کہ جاؤ اسے دیکھو وہ گئے اور جنت کو ایک نظر دیکھا پھر تشریف لائے اور فرمایا کہ اے میرے رب آپ کی عزت کی قسم۔ کوئی شخص ایسا نہیں جو جنت کے بارے میں سنے (وہاں کے عیش وآرام کے بارے میں) مگر یہ کہ اس میں داخل ہو جائے۔ پھر اللہ نے جنت کو مکروہات سے ڈھانپ دیا اور جبرائیل سے فرمایا جاوء اور اسے دیکھو۔ وہ گئے اور اسے نظر دیکھا پھر تشریف لائے تو فرمایا کہ اے میرے رب آپ کی عزت کی قسم مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ پھر حضور اکرم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے جہنم کو پیدا فرمایا تو فرمایا کہ اے جبرائیل۔ جاؤ اور سے دیکھو وہ گئے اور اسے ایک نظر دیکھ کر آئے اور فرمایا کہ اے میرے پروردگار آپ کی عزت کی قسم! کوئی ایسا نہیں کہ جہنم (کے احوال سنے) اور اس میں داخل ہوجائے۔ پھر اللہ نے اسے شہوات سے بھر دیا پھر فرمایا کہ اے جبرائیل! جاؤ اور سے دیکھو وہ گئے اور اسے ایک نظر دیکھا پھر آئے تو عرض کیا اے میرے پروردگار آپ کی عزت اور بزرگی کی قسم۔ مجھے ڈر ہے کہ کوئی اس میں داخل ہونے سے باقی نہ رہے گا۔
سنن ابوداؤد: سنت کا بیان
کوئی بھی کام کرنے اور بات منہ سے نکالنے سے پہلے سوچیے
کیا ہمارا یہ قول اور فعل ہمیں جنت سے دور تو نہیں کر رہا
رسول مقبول علیہ الصلاة والسلام کا فرمان ہے :
زید بن وہب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 451 مخلوقات کی ابتداء کا بیان
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گارنٹی :
سیدناسہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (یعنی شرمگاہ) کا ضامن ہو تو اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔
صحیح بخاری:جلد سوم: دلوں کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
اور یہ سب کچھ اللہ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال میں میانہ روی اختیار کرو، اور اللہ کی قربت اختیار کرو اور تمہیں خوشخبری ہو کہ کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ بخشش اور مہربانی (کے سایہ میں) ڈھانپ لے۔
صحیح بخاری:جلد سوم: دلوں کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان