گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
بڑی جماعت کی پیروی کا حکم
قارئین کرام السلام علیکم
کچھ سال پہلے دیوبندی عالم ابو سجاد جھنگوی صاحب نے اپنی ایک کتاب تحفہ اہل حدیث ص ۷۶ پر لکھا ہیں چاروں اماموں کو چھوڑنا تو سوادِ اعظم کو چھوڑنا ہیں ۔ شاہ رحمہ اللہ تقلید کا حکم دیتے ہیں ۔ تقلید نہ کرنے والوں کو خارج از سواد اعظم اور فسادی فرماتے ہیں۔
( اتبعوا بالسواد الاعظم ) جب اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم کو لازم پکڑو ۔ امام ابوالحسن سندھی لکھتے ہیں یہ حدیث اور بھی طریقے سے مروی ہیں لیکن سب میں ضعف ہے لہٰذا حجت نہیں ۔ ( حاشیہ ابن ماجہ ابواب الفتن جلد دوم صفحہ ۴۶۴)
اس حدیث کا تعلق قطعا دینی امور سے نہیں ہے ۔ اگر دینی امور سے ہو تو پھر ہر مسئلہ جس کو سوادِ اعظم صادر کرے دینی مسئلہ بن جائے گا اور یہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم کے قطا منافی ہیں اس زمانے میں بریلویوں کی اکثریت ہیں پھر دیوبندیوں کو چاہیئے کہ بریلویوں میں شامل ہوجائے ۔
خیرالقرون کے صدیوں بعد تقریبا ہر زمانے میں حنفی اکثریت میں رہے ہے تو پھر یہ لوگ مالکیوں ، شافعیوں ، حنبلیوں کو دعوت کیوں نہیں دیتے کہ اس حدیث کی روشنی میں حنفی ہوجاؤ ۔ کیونکہ وہ تینو فرقے کبھی اس حدیث پر عمل کرنے کے لئے نہ تیار تھے اور نہ اب ہیں تو پھر وہ گمراہ کیوں نہیں ۔ سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ یہ تو ظاہر ہیں مقلدین عہدِ رسالت میں نہیں تھے عہدِ صحابہؓ ، عہدِ تابعین میں بھی نہیں تھے ۔ ہر فرقے کی جب ابتداء ہوتی ہے تو وہ فرقہ اقلیت میں ہوتا ہیں پہلے فرقے کا بانی اکیلا ہوتا ہیں پھر دوہوتے ہے پھر تین ہوتے ہیں اسی طرح فرقہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے مقلدین کے فرقے کی بھی آخر کوئی ابتداء ہے ۔ جو بقول شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے چوتھی صدی ہے ۔ تو پھر وہ اس ابتداعی دور میں یقینا وہ اقلیت میں ہوں گے اور غیر مقلدین کی اکثریت مقلدین کی اقلیت اس حدیث کی مخاطب ہوگی ۔ یہ حدیث پکار پکار کر کہہ رہی ہوگی کہ اے مقلدین کی اقلیت اکثریت میں گم ہوجاؤ اگر وہ گم ہوجاتے تو آج ان کا وجود نہ ہوتا یہ ہیں موجودہ دور کے مقلدین کے پیشرو ۔ انہونے باطل پر رہ کر اپنے فرقے کو باقی رکھا ۔ یہی اقلیتی فرقہ جو اس وقت باطل پر تھا ۔ بڑھتے بڑھتے اکثریت میں تبدیل ہوگیا ۔ تو کیا پھر بھی انہیں اپنی موجودہ اکثریت پر ناز ہے ( العیاذباللہ ) ۔ حق کے معاملہ میں اکثریت ، اقلیت کوئی معیار نہیں بلکہ دلائل کی رو سے اقلیت کا حق پر ہونا زیادہ ظاہر ہیں اور وہ دلائل یہ ہیں ::: وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله۔سورة الأنعام :: مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے ::: و قلیل من عبادی الشکور ۔سورة سبا :::: میرے بندوں میں شکر گزار تھوڈے ہی ہوتے ہیں ۔ ::: وإن كثيرا من الخلطاء ليبغي بعضهم على بعض إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وقليل ما هم۔سورة ص :::: اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں ایسے لوگ تھوڈے ہی ہوتے ہیں (یعنی مومنین ، صالحین کی تعداد کم ہی ہوتی ہیں ۔ ::: و إن کثیراً من الناس لفسقون.سورة المائدة):: بے شک کثیر لوگ فاسق ہوتے ہیں ::: اتبعوا ما أنزل إليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه أولياء قليلا ما تذكرون ۔ سورة الأعراف :::: قال أرأيتك هذا الذي كرمت علي لئن أخرتن إلى يوم القيامة لأحتنكن ذريته إلا قليلا ۔سورة الإسراء ::: شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کرتا رہے گا ۔ البتہ تھوڑے سے لوگ بچ جائیں گے ۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ ( إنما الناس كالإبل المائة لا تكاد تجد فيها راحلة ) سواری کے قابل نہ ملے یعنی ناقص لوگوں سے اکثریت ہوگی ۔( صحیح بخاری و مسلم )
اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۹۵ پر جھنگوی صاحب اعتراض کرتے ہیں کہ عمامہ پر مسح کرنا صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیق جائز ہے ۔یہاں غیر مقلدین تین اماموں کو چھوڑ کر ایک کی مانتے ہے ۔
قارئین کرام آپ کو معلوم ہوگا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ کی رائے تھی کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڈ دیا جائے جبکہ اکیلے عمرؓ کی یہ رائے تھی کہ یی مشرکین ہے انہیں قتل کردیا جائے ۔تفثیر سورة النفال آیت نمبر ۶۷ یہاں سوادِ اعظم کی رائے کو نہیں بلکہ اکیلے حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند فرمایا گیا ۔ کربلا میں حسینؓ یقینا حق پر تھے اور مخالفین سواد اعظم کے ساتھ ساتھ حق پر بھی نہیں تھے ۔ مگر حسینؓ نے سواد اعظم کی مخالفت کی تھی ۔ جھنگوی صاحب لکھتے ہے کہ چار امام کو چھوڑنا سواد اعظم کو چھوڑ نا ہے ۔ گویا سواد اعظم کے بھی چار حصے ہے ۔ حنفیوں نے تین اماموں کے اعمال چھوڑ دئے ہیں گویا تین حصے سوادِ اعظم کے حنفیوں نے بھی چھوڑ دئے ہیں کیا اس کے باوجود حنفی سوادِاعظم سے خارج نہیں ہیں؟ ہوسکتا ہے مقلدین حضرات یہ کہہ دے کہ ہم مسائل میں سوادِ اعظم کے ساتھ ہے ۔ عرض ہے کہ مسائل میں بھی حنفی سوادِاعظم سے خارج ہیں ۔ لیجئے کچھ مسائل حاضر خدمت ہیں ۔
ا۔ ائمه اربعه میں سے تین امام فاتحہ خلف الامام کے قائل ہے صرف ایک امام ابو حنیفہ کے قائل نہیں حنفیوں نے تین اماموں کے اقوال و اعمال کو چھوڑ کر صرف ایک امام ابو حنیفہ کے ساتھ ہوکر سوادِ اعظم سے خروج کیا
۲۔ ائمه اربعه میں سے تین امام آمین بالجہر کے قائل ہے جبکہ ایک امام ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں ۔تو حنفی تین اماموں کے اقوال و اعمال کو چھوڑ کر صرف ایک امام ابو حنیفہ کے ساتھ ہوکر سوادِ اعظم سے خارج ہے
۳۔ ائمه اربعه میں سے تین امام رکوع وغیرہ کے رفع یدین کے قائل ہے اور امام ابو حنیفہ اس کے قائل نہیں تو حنفی تین اماموں کے اعمال کو چھوڑ کر رفع یدین عندالرکوع کے مسٓلہ میں ایک امام کے ساتھ ہوکر سوادِ اعظم سے خارج ہے ۔
۴۔ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کے مسٓلہ کو لے لیجئے اس مسٓلہ میں بھی حنفی سوادِ اعظم سے خارج ہے ۔ مثلا پوری دنیا کے حنفیوں کا تجزیہ کیا جائے تو تمام حنفیوں کا آدھا حصہ حنفن عورتیں ہے جو اہل حدیثوں کی طرح نماز میں سینوں پر ہاتھ باندھتی ہے ۔ اس مسٓلہ کے عاملین کی گنتی میں اہل حدیثوں کو بھی شمار کیا جائے تو یہ ایک بڑی اکثریت ہو کر سوادِاعظم بن جاتی ہے جبکہ حنفی زیر ناف ہاتھ باندھ کر کمی اکثریت کی وجہ سے سوادِ اعظم سے خارج ہیں
۵۔ مقلدین حضرات اگر سوادِ اعظم سے پوری دنیا کی اکثریت مراد لیتے ہیں تو دنیا کی اکثریت غیر مسلم ہیں ۔تو اگر سواد اعظم سے مراد مسلمان تبقہ ہیں تو مسلمانوں میں اکثریت لالچی جھوٹے اور فاسق بے نمازی اور سنت کے مطابق داڑھی نہ رکھنے والے ہیں تو کیا ایسے لوگوں کو سواد اعظم کہا جاسکتا ہیں ۔
قارئین کرام مزکورہ مسائل میں حنفی تین اماموں کے اقوال و اعمال کو پس پشت ڈال کر خود سواد اعظم سے خارج ہیں !!!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سب کو ہدایت نصیب کرے آمین