ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
بڑے لوگوں ، بزرگوں کی تعظیم اور ان کے مرتبے کو نمایا ں کرنے کا بیان
1 ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْأَدَبِ (بَابٌ فِي تَنْزِيلِ النَّاسِ مَنَازِلَهُمْ)
سنن ابو داؤد: کتاب: آداب و اخلاق کا بیان (باب: ہر آدمی کے مقام و مرتبے کا خیال رکھنے کا بیان)
4843 . حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ، أَخْبَرَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ، عَنْ أَبِي كِنَانَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ<.
حکم : حسن (صحیح الجامع 2195)
حکم : حسن (صحیح الجامع 2195)
4843 . سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو اور تقصیر سے بچتا ہو اور ( اسی طرح ) حاکم عادل کی عزت کرنا ‘ اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے ۔ “
فوائد (حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ) :
بزرگ سے مراد وہ شخص ہے جو پاکبازی کی زندگی گزارتے ہوئے بوڑھا ہوگیا ۔ حامل قرآن میں ، قرآن کا حافظ ، قاری اور عالم سب آجاتے ہیں بشرطیکہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا نہ ہو یعنی اس پر عمل کرنے میں تشدد کرنے اور اس کے مشتبہات سے اپنی فکری و اعتقادی کجیوں پر تاویلات کے گورکھ دھندے کے ذریعے پردہ ڈالنے والا نہ ہو ۔ اسی طرح قرآن پر عمل اور اس کی تلاوت سے اعراض و گریز کرنے والا نہ ہو اور عدل و انصاف کرنے والا حکمران اور بادشاہ ۔ ان تینوں کی عزت کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے ، اس لیے ان کی عزت ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالٰی کی عزت کرنی ہے ۔
2 ۔
2 ۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ الصِّبْيَانِ)
جامع ترمذی: كتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں (باب: بچوں پر مہربانی کرنے کابیان)
1919 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ زَرْبِيٍّ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ جَاءَ شَيْخٌ يُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبْطَأَ الْقَوْمُ عَنْهُ أَنْ يُوَسِّعُوا لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَزَرْبِيٌّ لَهُ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِهِ
حکم : صحیح
حکم : صحیح
1919 . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک بوڑھا آیا ، وہ نبی اکرم ﷺ سے ملنا چاہتاتھا ، لوگوں نے اسے راستہ دینے میں دیر کی تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ، جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اورہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے '۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ،
۲- راوی زربی نے انس بن ما لک اور دوسرے لوگوں سے کئی منکرحدیثیں روایت کی ہیں،
۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ ، ابن عباس اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ،
۲- راوی زربی نے انس بن ما لک اور دوسرے لوگوں سے کئی منکرحدیثیں روایت کی ہیں،
۳- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ ، ابن عباس اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
فوائد (حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ) :
'' ہم میں سے نہیں '' کا مطلب ہے ، مسلمانوں کے طریقے پر نہیں ۔ چھوٹوں پر رحم کرنے کا مطلب ،ان کے ساتھ شفقت و احسان کا معاملہ کرنا ہے ، اسی طرح چھوٹوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سے بڑے اور اصحاب علم و فضل کی تعظیم بجا لائیں اور ان کا احترام کریں ۔
3 ۔
3 ۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الرُّؤْيَا (بَاب رُؤْيَا النَّبِيِّ ﷺ)
صحیح مسلم: کتاب: خواب کا بیان (باب: نبی کریم ﷺ کا خواب)
5933 . وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَرَانِي فِي الْمَنَامِ أَتَسَوَّكُ بِسِوَاكٍ، فَجَذَبَنِي رَجُلَانِ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ، فَنَاوَلْتُ السِّوَاكَ الْأَصْغَرَ مِنْهُمَا، فَقِيلَ لِي: كَبِّرْ، فَدَفَعْتُهُ إِلَى الْأَكْبَرِ "
حکم : صحیح
حکم : صحیح
5933 . صخر بن جویریہ نے ہمیں نافع سے حدیث سنائی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں نے خواب میں خودکو دیکھا کہ میں ایک مسواک سے دانت صاف کررہا ہوں،اس و قت دو آدمیوں نے(مسواک حاصل کرنے کےلیے) میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ان میں ایک دوسرے سے بڑا تھا،میں نے وہ مسواک چھوٹے کو دے دی،پھر مجھ سے کہا گیا :بڑے کو دیں تو میں نے وہ بڑے کو دی۔"
( اسے مسلم نے مسند اور بخاری نے معلق بیان کیا ہے رحمھما اللہ )
( اسے مسلم نے مسند اور بخاری نے معلق بیان کیا ہے رحمھما اللہ )
فوائد (حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ) :
مسند حدیث وہ ہوتی ہے جس میں سلسلہ سند کے تمام روات مذکور ہوں اور معلق وہ ہے جس میں سند کے اولین ایک دو راوی یا اس سے زیادہ یا سارے ہی راوی حذف کر دیے گئے ہوں ۔ گویا بخاری شریف میں اسے بغیر سند (تعلیقاً) ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اجازت کے ساتھ ایک شخص کی مسواک دوسرا شخص کر سکتا ہے ۔ دوسرا وہی کہ ہر معاملے میں پہلے بڑے کو مقدم کیا جائے گا ، الا یہ کہ کسی چھوٹے میں کوئی وجہ فضیلت و امتیاز ہو ۔
4 ۔
4 ۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ أَيْنَ يَقُومُ الْإِمَامُ مِنَ الْمَيِّتِ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ)
صحیح مسلم: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: امام جنازہ پڑھنے کےلیے میت کے سامنے کہا ں کھڑا ہو)
2237 . و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَعُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُسَيْنٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ قَالَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ لَقَدْ كُنْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا فَكُنْتُ أَحْفَظُ عَنْهُ فَمَا يَمْنَعُنِي مِنْ الْقَوْلِ إِلَّا أَنَّ هَا هُنَا رِجَالًا هُمْ أَسَنُّ مِنِّي
حکم : صحیح
حکم : صحیح
2237 . سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نوعمر لڑکا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے(احادیث سن کر)یاد کیا کر تا تھا اور مجھے بات کرنے سے اس کے سوا کوئی چیز نہ روکتی تھی کہ وہاں مجھ سے زیادہ عمر والے لوگ موجود ہوتے تھے۔
فوائد (حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ) :
ابن علان نے کہا ہے کہ علمائے حدیث نے اس بات کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے کہ جب شہر میں زیادہ بڑا عالم ، محدث اور صاحب شرف و فضل بزرگ ہو ، تو اس سے کم تر شخص حدیث بیان کرے ۔ تاہم دوسرے علوم میں یہ بات مکروہ نہیں ۔ ہاں استاد یا بڑے عالم کی اجازت سے شاگرد یا چھوٹا عالم حدیث بیان کر سکتا ہے ، نیز جس مجلس میں کوئی محدث یا زیادہ بڑا عالم ہو تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اسی کے بیان پر اکتفاء کیا جائے ۔ ویسے کسی شہر میں کوئی حدیث سنانا یا بیان کرنا چاہے تو ہر ذی علم وی بیان کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ حدیث وضعی نہ ہو ۔ شرعاً احادیث کے بیان کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
5 ۔
5 ۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجْلاَلِ الْكَبِيرِ)
جامع ترمذی: كتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں (باب: بڑوں بوڑھوں کی عزت واحترام کابیان)
2022 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ بَيَانٍ الْعُقَيْلِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّحَّالِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ يَزِيدَ بْنِ بَيَانٍ وَأَبُو الرِّجَالِ الْأَنْصَارِيُّ آخَرُ
حکم : ضعیف
حکم : ضعیف
2022 .سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:' جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے ،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقررفرمادے گا جو اس عمرمیں(یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں'۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی شیخ یعنی یزیدبن بیان کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- ابوالرجال انصاری ایک دوسرے راوی ہیں( اورجو راوی اس حدیث میں ہیں وہ ابوالرّحال ہیں)۔
۲- ابوالرجال انصاری ایک دوسرے راوی ہیں( اورجو راوی اس حدیث میں ہیں وہ ابوالرّحال ہیں)۔
فوائد (حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ) :
یہ روایت سنداً ضعیف ہے ۔ دیکھیے '' الاحادیث الضعیفة '' رقم 304 ، تاہم اس میں اخلاق کریمہ کی جس جزاء کا بیان ہے ، وہ دیگر نصوص کے اعتبار سے صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔
6 ۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ أَمْرِ الْأَئِمَّةِ بِتَخْفِيفِ الصَّلَاةِ فِي تَمَامٍ)
صحیح مسلم: کتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: اماموں کو ہلکی (لیکن) مکمل صورت میں نماز پڑھانے کا حکم)
1046 . وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيُّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمُ النَّاسَ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الصَّغِيرَ، وَالْكَبِيرَ، وَالضَّعِيفَ، وَالْمَرِيضَ، فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ»
حکم : صحیح
حکم : صحیح
1046 . اعرج رحمہ اللہ نے سیدنا ابو ہریرہ سے روایت کی کہ
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی فرد لوگوں کی امامت کرائے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان (نمازیوں) میں بچے، بوڑھے، کمزور اور بیمار بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے۔‘‘
’’جب تم میں سے کوئی فرد لوگوں کی امامت کرائے تو وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ ان (نمازیوں) میں بچے، بوڑھے، کمزور اور بیمار بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے۔‘‘
فائدہ (فضیلة الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ ) :
نماز ہلکی اور مختصر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ قراءت مختصر اور اذکار و تسبیحات کی تعداد مناسب حد تک کم ہو ۔اہم شرط یہ ہے کہ ارکان میں اعتدال و اطمینان ہو ۔ عدم اعتدال سے نماز باطل ہو جاتی ہے ۔