حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
کئی پاکستانی دانشور نریندر مودی سے اب لوگوں کو ڈرا رہے ہیں۔ مودی کو انگریزی میں لکھیں تو موڈی بنتا ہے اور موڈی کبھی دلیر نہیں ہوتا۔ دل والا تو بالکل نہیں ہوتا۔ بھارت کا وزیراعظم بن کر مودی کا سب دم خم نکل جائے گا۔ بھارت کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ ہونا بہت مختلف بات ہے۔ ظالم ہندو سیاستدانوں کا زور صرف بھارتی مسلمانوں پر چلتا ہے۔ یہ بات ہمارے زرخرید لوگ اور صحافی نہیں سمجھ سکتے۔ کچھ سیٹھ قسم کے صحافی اور ''عالمی امتیاز'' والے بھارتی لابی کے لوگ اور کچھ مخصوص میڈیا گروپ کے مذہبی اور مذہب دشمن صحافی پاکستان کو خدا نخواستہ بھارت کا صوبہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ مودی جیسے کسی ظالم ہندو سیاستدان کو وزیراعلیٰ بنوا کر پاکستانی مسلمانوں کے لئے بھی قتل کا بازار گرم کر سکیں۔ بازار کوئی بھی ہو گرم ہوتا ہے تو ہمارے نواز شریف کو بہت مزہ آتا ہے۔ خرم دستگیر تو خوش و خرم دستگیر ہو جاتا ہے۔
جب تک پاک فوج ہے بھارت اور پاکستان میں بھارت والوں کو بہت خوف ہے۔ جنرل راحیل شریف سپہ سالار بنے تھے تو یہ لوگ خوش ہوتے تھے مگر ان کی خوشی جلد ہی بھارت کے سفر پر چلی گئی۔ اس آدمی کے عظیم والد کا نام شریف تھا۔ ورنہ شریف فیملی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ایک مدت تک لوگ ہمارے بہت رومانٹک شاعر خالد شریف کو داد دینے کے لئے مشاعروں میں پہنچ جاتے تھے اور داد کی بجائے نعرے لگانے لگتے تھے۔ بعد میں وہ مایوس ہوتے کہ یہ تو صرف شاعر ہے۔ بابرہ شریف کے عشق میں مبتلا لوگوں کی فہرست طویل ہونے لگی تو اسے شادی کے لئے اپنے آئیڈیل کا ذکر کرنا پڑا جو قطعاً شریف آدمی نہیں تھا۔
بھارتی حکومت کا مقابلہ پاک فوج سے ہوتا ہے۔ کبھی پاکستانی حکومت کے ساتھ نہیں ہوتا۔ حیرت ہے کہ کوئی جرنیل بھی پاکستانی صدر بنتا ہے تو بھارتی حکومت کے تھلے لگ جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں الگ کالم لکھنے لگا ہوں۔ پاکستانی سیاست و حکومت کا مقصد بھارت دوستی میں ہے۔ عزت وقار وغیرہ کا خیال رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ بھارتی حکومت پاکستان دشمنی میں بیان بازی کو ہی کافی سمجھتی ہے۔ یہ ان کی سیاست میں ضروری بھی ہے اور اضافی بھی ہے۔ یہی کافی بھی ہے۔
ایک ٹی وی گفتگو میں پرانے سفارت کار ظفر ہلالی بھی نریندر مودی سے ڈرا رہے تھے۔ میں نے کہا کہ مودی کسی صورت میں من موہن سنگھ سے مختلف نہیں ہو گا۔ من موہن سنگھ شریف آدمی تھا۔ تو اس نے پاکستان کے حوالے سے کیا کیا؟ وہ زیادہ خطرناک آدمی تھا۔ جس آدمی کے لئے پتہ ہو کہ یہ دشمن ہے تو اس کے ساتھ مقابلہ آسان ہوتا ہے۔ منافق آدمی سے معاملہ تو کیا کوئی معاملہ بندی بھی نہیں ہو سکتی۔
میں نے ایک بار لکھا تھا کہ امریکی صدر ابامہ اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ ایک جیسے ہیں۔ وہ گوروں سے ڈرتا ہے۔ یہ ہندوئوں سے ڈرتا ہے۔ صدر ابامہ صدر بش سے زیادہ ظالم مسلمانوں کے لئے ثابت ہوا کہ وہ خود بھی اپنے مسلمان کے لئے مشکوک ہے۔ یقین غلط ہو تو بھی ٹھیک ہوتا ہے۔ شک آدمی کے فیصلے کی قوت چھین لیتا ہے۔ اسے بزدل بنا دیتا ہے۔ ابامہ سے مسلمانوں کو من موہن کی طرح اچھی امیدیں تھیں جو پوری نہیں ہوئیں۔ اب نریندر مودی سے بری امیدیں بھی پوری نہیں ہونگی۔ اب میرا خیال ہے کہ من موہن سنگھ صدر ابامہ سے زیادہ گندا ہے کہ وہ سونیا گاندھی کا غلام تھا۔ سونیا ہندو ہے اور گوری بھی ہے۔ پاکستان کے لئے خوف زدگی پھیلانے والے مایوس ہوں گے۔ خوف زدگی آدمی کو زیادہ خراب کرتی ہے۔ دہشت زدگی میں مبتلا پاکستان کے لوگ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں دہشت گردی بھی کچھ نہیں ہے۔ دہشت گردی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے ہم سے آوارہ گردی چھین لی ہے۔ پہلے مائیں باہر نہیں نکلتے دیتی تھیں۔ اب بیویاں نہیں نکلنے دیتیں۔ دوسری بات زیادہ تکلیف دہ ہے۔
نریندر مودی وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہی ٹھس ہو جائے گا۔ بلکہ پھس ہو جائے گا۔ کوئی بھارتی وزیراعظم پاکستان کے لئے ہمیشہ پریشان ہی رہا حیران بھی کہ یہ چھوٹا سا ملک ہمارے لئے کتنا بڑا عذاب بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش بنا کے پاکستان کو چھوٹا کیا گیا مگر یہ زیادہ ''بڑا'' ہو گیا ہے۔ بھارت کا خیال ہے میرے دوسرے ہمسایہ ملک پاکستان کی طرح چھوٹے ہیں۔ مجھے اپنا ''امریکہ'' مانتے ہیں۔ اب امریکہ بھی پاکستان کے لئے یہی چاہتا ہے۔ مگر دونوں کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔
نواز شریف کو کیسے سمجھائیں کہ آپ نے ایٹمی دھماکے چین یا ایران کے خلاف نہیں کئے تھے۔ نہ امریکہ کے خلاف صرف اور صرف بھارت کے جواب میں بھارت کے خلاف کئے تھے۔ اب بھارت دوستی میں ''کاروباری دھماکے'' کرنے کا خیال چھوڑیں اور بھارت کے ساتھ صرف کاروبار زندگی شروع کریں۔ اس کاروبار زندگی کی کامیابی کے لئے جنگ ضروری ہے۔ جنگ صحافت کے محاذ پر اور میدان جنگ میں۔ پرانی قوتیں اس کے لئے جنگ اب بھی کر رہی ہیں۔
امن عالم کے لئے ... جنگ ہونا چاہئے۔
جنرل حمید گل نے ایک بامعنی بات کو ذو معنی کر دیا ہے۔ ہم نے روس کو امریکہ کی حمایت سے نکالا۔ اب امریکہ کو امریکہ کی حمایت سے رخصت کریں گے۔ پھر یہاں بھارت کا کیا بنے گا۔ یہ تو مودی بے چارے کو بھی پتہ نہیں۔ وہ افغانستان کے عبداللہ عبداللہ سے بے شک مشورہ کر لے۔
کہتے ہیں کہ نریندر مودی کو بھارت میں قصاب بولتے ہیں۔ تو کیا وہ اجمل قصاب کا دور پار کا رشتہ دار ہے۔ اس کے لئے دوبارہ مخصوص میڈیا کو اجمل قصاب کے گائوں جانا پڑے گا۔ سنا ہے اجمل قصاب زندہ ہے۔ یہ بڑی سٹوری ہے۔ ابھی کچھ دن میں حامد میر پوری طرح صحت یاب ہو جائے گا۔ اس نے بنگلہ دیش کی قاتل حسینہ واجد سے تمغہ لیا ہے۔ اب بھارت کے قاتل نریندر مودی سے بھی تمغہ لے گا۔
نواز شریف بی جے پی کی کامیابی پر خوش ہیں کہ وزیراعظم واجپائی کا تعلق بھی اسی ہندو پارٹی سے تھا۔ وہ بس پر مینار پاکستان آیا تھا۔ مودی سائیکل رکشے پر مینار پاکستان پہنچے گا۔ انشااللہ۔ نواز شریف جی ایمان، ہمت اور غیرت قائم رکھو۔ دوستی کے لئے دشمنی ضروری ہے۔ دوستی کے اندر دشمنی ہوتی ہے؟ ذرا سوچو بغیر دعوت کے مودی کی حلف برداری پہ مت چلے جانا۔ یہ خاص درخواست آپ سے ہے۔
جب تک پاک فوج ہے بھارت اور پاکستان میں بھارت والوں کو بہت خوف ہے۔ جنرل راحیل شریف سپہ سالار بنے تھے تو یہ لوگ خوش ہوتے تھے مگر ان کی خوشی جلد ہی بھارت کے سفر پر چلی گئی۔ اس آدمی کے عظیم والد کا نام شریف تھا۔ ورنہ شریف فیملی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ایک مدت تک لوگ ہمارے بہت رومانٹک شاعر خالد شریف کو داد دینے کے لئے مشاعروں میں پہنچ جاتے تھے اور داد کی بجائے نعرے لگانے لگتے تھے۔ بعد میں وہ مایوس ہوتے کہ یہ تو صرف شاعر ہے۔ بابرہ شریف کے عشق میں مبتلا لوگوں کی فہرست طویل ہونے لگی تو اسے شادی کے لئے اپنے آئیڈیل کا ذکر کرنا پڑا جو قطعاً شریف آدمی نہیں تھا۔
بھارتی حکومت کا مقابلہ پاک فوج سے ہوتا ہے۔ کبھی پاکستانی حکومت کے ساتھ نہیں ہوتا۔ حیرت ہے کہ کوئی جرنیل بھی پاکستانی صدر بنتا ہے تو بھارتی حکومت کے تھلے لگ جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں الگ کالم لکھنے لگا ہوں۔ پاکستانی سیاست و حکومت کا مقصد بھارت دوستی میں ہے۔ عزت وقار وغیرہ کا خیال رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ بھارتی حکومت پاکستان دشمنی میں بیان بازی کو ہی کافی سمجھتی ہے۔ یہ ان کی سیاست میں ضروری بھی ہے اور اضافی بھی ہے۔ یہی کافی بھی ہے۔
ایک ٹی وی گفتگو میں پرانے سفارت کار ظفر ہلالی بھی نریندر مودی سے ڈرا رہے تھے۔ میں نے کہا کہ مودی کسی صورت میں من موہن سنگھ سے مختلف نہیں ہو گا۔ من موہن سنگھ شریف آدمی تھا۔ تو اس نے پاکستان کے حوالے سے کیا کیا؟ وہ زیادہ خطرناک آدمی تھا۔ جس آدمی کے لئے پتہ ہو کہ یہ دشمن ہے تو اس کے ساتھ مقابلہ آسان ہوتا ہے۔ منافق آدمی سے معاملہ تو کیا کوئی معاملہ بندی بھی نہیں ہو سکتی۔
میں نے ایک بار لکھا تھا کہ امریکی صدر ابامہ اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ ایک جیسے ہیں۔ وہ گوروں سے ڈرتا ہے۔ یہ ہندوئوں سے ڈرتا ہے۔ صدر ابامہ صدر بش سے زیادہ ظالم مسلمانوں کے لئے ثابت ہوا کہ وہ خود بھی اپنے مسلمان کے لئے مشکوک ہے۔ یقین غلط ہو تو بھی ٹھیک ہوتا ہے۔ شک آدمی کے فیصلے کی قوت چھین لیتا ہے۔ اسے بزدل بنا دیتا ہے۔ ابامہ سے مسلمانوں کو من موہن کی طرح اچھی امیدیں تھیں جو پوری نہیں ہوئیں۔ اب نریندر مودی سے بری امیدیں بھی پوری نہیں ہونگی۔ اب میرا خیال ہے کہ من موہن سنگھ صدر ابامہ سے زیادہ گندا ہے کہ وہ سونیا گاندھی کا غلام تھا۔ سونیا ہندو ہے اور گوری بھی ہے۔ پاکستان کے لئے خوف زدگی پھیلانے والے مایوس ہوں گے۔ خوف زدگی آدمی کو زیادہ خراب کرتی ہے۔ دہشت زدگی میں مبتلا پاکستان کے لوگ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں دہشت گردی بھی کچھ نہیں ہے۔ دہشت گردی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے ہم سے آوارہ گردی چھین لی ہے۔ پہلے مائیں باہر نہیں نکلتے دیتی تھیں۔ اب بیویاں نہیں نکلنے دیتیں۔ دوسری بات زیادہ تکلیف دہ ہے۔
نریندر مودی وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہی ٹھس ہو جائے گا۔ بلکہ پھس ہو جائے گا۔ کوئی بھارتی وزیراعظم پاکستان کے لئے ہمیشہ پریشان ہی رہا حیران بھی کہ یہ چھوٹا سا ملک ہمارے لئے کتنا بڑا عذاب بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش بنا کے پاکستان کو چھوٹا کیا گیا مگر یہ زیادہ ''بڑا'' ہو گیا ہے۔ بھارت کا خیال ہے میرے دوسرے ہمسایہ ملک پاکستان کی طرح چھوٹے ہیں۔ مجھے اپنا ''امریکہ'' مانتے ہیں۔ اب امریکہ بھی پاکستان کے لئے یہی چاہتا ہے۔ مگر دونوں کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔
نواز شریف کو کیسے سمجھائیں کہ آپ نے ایٹمی دھماکے چین یا ایران کے خلاف نہیں کئے تھے۔ نہ امریکہ کے خلاف صرف اور صرف بھارت کے جواب میں بھارت کے خلاف کئے تھے۔ اب بھارت دوستی میں ''کاروباری دھماکے'' کرنے کا خیال چھوڑیں اور بھارت کے ساتھ صرف کاروبار زندگی شروع کریں۔ اس کاروبار زندگی کی کامیابی کے لئے جنگ ضروری ہے۔ جنگ صحافت کے محاذ پر اور میدان جنگ میں۔ پرانی قوتیں اس کے لئے جنگ اب بھی کر رہی ہیں۔
امن عالم کے لئے ... جنگ ہونا چاہئے۔
جنرل حمید گل نے ایک بامعنی بات کو ذو معنی کر دیا ہے۔ ہم نے روس کو امریکہ کی حمایت سے نکالا۔ اب امریکہ کو امریکہ کی حمایت سے رخصت کریں گے۔ پھر یہاں بھارت کا کیا بنے گا۔ یہ تو مودی بے چارے کو بھی پتہ نہیں۔ وہ افغانستان کے عبداللہ عبداللہ سے بے شک مشورہ کر لے۔
کہتے ہیں کہ نریندر مودی کو بھارت میں قصاب بولتے ہیں۔ تو کیا وہ اجمل قصاب کا دور پار کا رشتہ دار ہے۔ اس کے لئے دوبارہ مخصوص میڈیا کو اجمل قصاب کے گائوں جانا پڑے گا۔ سنا ہے اجمل قصاب زندہ ہے۔ یہ بڑی سٹوری ہے۔ ابھی کچھ دن میں حامد میر پوری طرح صحت یاب ہو جائے گا۔ اس نے بنگلہ دیش کی قاتل حسینہ واجد سے تمغہ لیا ہے۔ اب بھارت کے قاتل نریندر مودی سے بھی تمغہ لے گا۔
نواز شریف بی جے پی کی کامیابی پر خوش ہیں کہ وزیراعظم واجپائی کا تعلق بھی اسی ہندو پارٹی سے تھا۔ وہ بس پر مینار پاکستان آیا تھا۔ مودی سائیکل رکشے پر مینار پاکستان پہنچے گا۔ انشااللہ۔ نواز شریف جی ایمان، ہمت اور غیرت قائم رکھو۔ دوستی کے لئے دشمنی ضروری ہے۔ دوستی کے اندر دشمنی ہوتی ہے؟ ذرا سوچو بغیر دعوت کے مودی کی حلف برداری پہ مت چلے جانا۔ یہ خاص درخواست آپ سے ہے۔