• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھارت میں اب تک ۴۰۰ مسلمان پوزیشن ہولڈر طلبہ جعلی پولیس مقابلوں میں شہید

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
نئی دہلی، واشنگٹن، اسلام آباد (اے پی اے) بھارت میں سال 2002سے اب تک 995 اجتماعی جعلی پولیس مقابلو ں میں 2000 سے زائد مسلمانوں سمیت 400کے لگ بھگ پوزیشن ہولڈرز بھارتی مسلمان طالبعلموں کو شہیدکر دیا گیا ، ان طالبعلموں میں انجینئرنگ ، ڈاکٹریٹ ، ایٹمی ٹیکنالوجسٹ جیسے شعبوں کیلئے زیر تعلیم اور کوشاں تھے تاہم انتہا پسند ہندئووں نے مسلمانوں کو بھارت کے اعلی اداروں جن میں عسکری و کاروباری ادارے بھی شامل ہیں میں سربراہ بننے کے خوف سے موت کی ابدی نیند سلا دیا ۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی شہروں ممبئی ، چنائی ، کولکتہ اور ریاست گجرات میں جعلی پولیس مقابلوں کی تعداد دوسرے شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 2002سے اب تک 450 کے قریب اجتماعی جعلی مقابلے ہوئے جبکہ حقیقت میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔بھارت کی نیشنل ہیومن رائٹس کمشن کے مطابق 2002ء سے 2008ء کے دوران اترپردیش 231جعلی پولیس مقابلوں میں سرفہرست ہے، راجستھان 33، مہاراشٹرا 31، دہلی 26، آندھرا پردیش 22 اور اتر آنچل میں 19جعلی مقابلے ہوئے۔ 2008-09سے فروری 2013 تک اجتماعی پولیس مقابلوں کے 555واقعات ہو ئے۔ اس میں بھی اتر پردیش 138جعلی مقابلوں کے ساتھ پھر سرفہرست رہا جبکہ منی پور 62، آسام 52، مشرقی بنگال 35اور جھارکھنڈ میں 30اجتماعی جعلی پولیس مقابلے ہوئے۔ اس لحاظ سے اترپردیش 2002سے 2013تک بھی 369جعلی اجتماعی پولیس مقابلوں کیساتھ سرفہرست رہا ہے ۔ اے پی اے کے مطابق2002کے مسلم کش فسادات کے بعد سے گجرات میں کئی جعلی پولیس مقابلے ہوئے ان میں 2002ء سے 2007ء کے دوران گجرات میں 4ہائی پروفائل اجتماعی قتل کے جعلی پولیس مقابلے ہوئے ۔ یہ چاروں جعلی مقابلے احمد آباد کے ڈی آئی جی وانجرا کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے سرانجام دیئے۔ ان ہائی پروفائل کیسز میں صادق جمال جعلی مقابلہ 2003، طالبہ عشرت جہاں کیس 2004، سہراب الدین شیخ جعلی مقابلہ کیس 2005خاص طور پر نمایاں ہیں ۔ ان کیسز کے بارے میں نہ صرف بھارتی اور غیر ملکی ہیومن رائٹس تنظیمیں بلکہ بھارت کے چند سکیورٹی اداروں کا بھی دعویٰ ہے یہ لوگ پولیس تشدد کے بعد جعلی مقابلے میں ہلاک کئے گئے۔ بھارت کی سب سے بڑی جامع مسجد کے شاہی امام اکثر 'انکائونٹرز 'کو مکمل طور پر جعلی قرار دے چکے جبکہ 2008میں دو بے گناہ مسلمانوں کے قتل انہوں نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مسلمانوں کو ہراساں کرنے کیلئے جعلی مقابلے کروا رہی ہے ۔ واضح رہے کہ بھارت میں بہت ہی کم واقعات میں مسلمانوں کے قتل کیلئے رچے گئے جعلی پولیس مقابلوں میں ملوث ذمہ داران کو سزائیں دی جا سکیں۔
 
Top