makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
محبوب و مرشد مجید نظامی بہادر نہ ڈرنے والے مجاہد حافظ محمد سعید کو پسند کرتے تھے اور ان کے گھر ملنے جاتے تھے۔ حافظ سعید نے صحافیوں اور کالم نگاروں سے اہم ملاقات میں کہا کہ کوئی بھی جھک سکتا ہے۔ مگر صحافی کا قلم نہیں جھک سکتا نہ سپاہی کا علم (جھنڈا) جھک سکتا ہے۔ صحافت ایک دعوت ہے۔ حافظ صاحب کو میں بتائوں کہ کبھی یہ عداوت بھی بن جاتی ہے۔ دوستی بہت اچھی ہے مگر کبھی کبھی دشمنی بھی ضروری ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی خواہش کے مطابق بھارت دوستی کے لئے کوشش ضروری ہے مگر بھارت اس طرح محسوس نہیں کرتا۔ افغانستان میں بھی بھارت کو موقعہ دیا کہ وہ کھل کھیلے اور پاکستان میں مداخلت کی شرارت کرے۔ بھارت اب مشرقی اور مغربی سرحد دونوں کو استعمال کر رہا ہے۔ مگر پاکستان نے اس چیلنج سے نبٹنے کے لئے کوئی قومی پالیسی نہیں بنائی۔ مگر میں پھر بھی پاکستانی حکومت کے ساتھ ہوں۔
حافظ صاحب نے بتایا کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقعے پر آزاد کشمیر گئے اور آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا۔ بہت جرات اور حکمت سے باتیں کیں۔ انہوں نے بہت بامعنی بات کی کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اس کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ میں نوازشریف کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اسلام آباد گیا۔
صدر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح عام ہوئی تھی۔ پرکسی نے جنرل ضیاء کی بھارت کے ساتھ دلیرانہ سیاست کو پسند کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے بھارت میں بڑی بے دلی سے جنرل کو خوش آمدید کہا تب بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحد پر کھڑی تھیں۔ صدر ضیا نے راجیو سے کہا کہ آپ پاکستان پر حملہ کرو ہم سے جو ہو سکا تمہارا مقابلہ کریں گے۔ مگر یاد رکھو کہ ہمارے پاس وہ چیز (ایٹم بم) بھی ہے۔ بھارت کے پاس بھی ہے۔ دونوں ملک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ہم ختم ہو گئے تو عالم اسلام سے مسلمان دنیا میں موجود رہیں گے۔ مگر ہندو ریاست (بھارت) ایک ہے۔ ہندو ختم ہو جائیں گئے تو دنیا سے نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس کے بعد راجیو کا رنگ فق ہو گیا اور بھارتی فوجیں سرحدوں سے واپس آ گئیں۔ حافظ صاحب کے ساتھ صحافیوں اور کالم نگاروں سے اس اہم ملاقات کا اہتمام برادرم مزمل سہروردی نے کیا تھا۔ جس میں کئی صحافیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ حافظ صاحب اور کچھ دوستوں نے کہا کہ کشمیریوں کے مسئلے کیلئے صدر ضیا الحق کے زمانے میں بہت پیشرفت ہوئی۔ افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد وہ بھارت کی طرف پوری توجہ کرنے والے تھے۔ تب خالصتان کی تحریک بہت زوروں پر تھی۔ بھارت کیلئے یہ مسئلہ کشمیر سے بھی بڑا تھا۔
سکھوں کیلئے خالصتان بن جانے کے بعد کشمیر خود بخود پاکستان کو مل جاتا۔ کشمیر پاکستان بن جاتا۔ مگر شاید بڑی طاقتیں ایسا نہیں چاہتی تھیں۔ صدر ضیا ایک ہوائی حادثے میں شہید ہو گئے اور سارا معاملہ تتر بتر ہو گیا۔ کئی بڑے مسلم لیڈروں کو اس طرح قتل کرا دیا گیا۔
بینظیر بھٹو نے وزیراعظم بنتے ہی اعتزاز احسن کی معرفت تحریک کیلئے جانثار اور سرگرم سکھ لیڈروں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کر دیں اور وہ سب مارے گئے۔ امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر حملہ کر دیا گیا۔ بھارتی فوجیں بوٹوں سمیت سکھوں کے مقدس مقام میں داخل ہو گئیں اور بھارت بچ گیا۔ بینظیر بھٹو نے دبئی میں کہا تھا کہ بھارت کو میرا شکرگزار ہونا چاہئے کہ میں نے اسے بچانے میں مدد کی۔ کچھ عرصے کے بعد دو سکھ گارڈز نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کر دیا۔ یہ گولڈن ٹمپل پر حملے کا انتقام تھا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہندو اندرا گاندھی نے سکھوں کو اپنا گارڈ کیوں بنایا تھا؟
پیمرا نے حافظ صاحب کو ایک تحریری نوٹس کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ چینلز پر آنے کیلئے ان پر پابندی ہے۔ اس حوالے سے تمام صحافیوں نے اس اقدام کی مذمت کی اور فوری طور پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ حافظ صاحب نے اپنی گفتگو میں بلوچستان میں خدمت خلق کے حوالے سے اپنے مختلف اقدامات کا ذکر کیا۔ اس وقت ایسی ثابت قدمی کی روشنی حافظ صاحب کے چہرے پر تھی کہ لگتا تھا انہوں نے خدمت خلق کو جہاد بنا دیا ہے۔ حافظ صاحب کی ساری زندگی جہاد کی طرح گزری ہے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ محفل میں جماعت الدعوٰ کے یحییٰ مجاہد بھی موجود تھے۔بھارت میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ پاکستان کا نام بعد میں لیتا ہے حافظ سعید کا نام پہلے لیتا ہے۔ حافظ سعید نے ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے کے سلسلے میں بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ میں ان دونوں واقعات میں بے قصور اور بے خبر ہوں۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ میں نے کشمیر کی تحریک کی حمایت میں کام کیا ہے میں کشمیر کیلئے بولتا ہوں تو کہتے ہیں دہشتگرد بول رہا ہے۔
میں پیمرا کی طرف سے خط کے بعد کسی چینل پر اپنا موقف پیش نہیں کر سکتا۔ مجھے دہشتگرد بنانے میں بھارت کے الزامات کے بعد اب پاکستان بھی شریک ہو گیا ہے۔
میں کشمیر کیلئے جرأت مندانہ موقف پر نواز شریف کا شکریہ ادا کرنے کیلئے اسلام آباد گیا مگر میڈیا مجھ پر بین کر دیا گیا ہے۔ حافظ صاحب سے ملنے کیلئے برادرم مزمل سہروردی نے تمام اہل قلم کو بلایا تھا کئی چینلز کے اہم لوگ وہاں موجود تھے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کے لوگوں نے پیمرا کی اس پابندی کو مسترد کر دیا ہے۔
حافظ صاحب نے کشمیر کیلئے اب ایک مضبوط قومی پالیسی بنانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے بڑے جذبے سے کہا، پاک فوج میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ سے بھی زیادہ اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں۔ بھارت پاک فوج کیخلاف ہے اور میرے بھی خلاف ہے۔ حافظ صاحب کی خدمت میں میری طرف سے عرض ہے کہ بھارت پاکستانی حکومت سے نہیں ڈرتا مگر حافظ سعید سے ضرور ڈرتا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا ہے مگر اب بھارت پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عدالت کو بھی نہیں مانتا یہ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ برادرم سلمان غنی نے ایک خوبصورت رپورٹ اس حوالے سے لکھی ہے۔ انہوں نے ایک بہت شاندار اور گہرا جملہ حافظ صاحب کے لئے بولا مگر لکھا نہیں، وہ جملہ میں لکھ رہا ہوں، حافظ صاحب بھارت کیلئے مطلوب ہیں مگر پاکستان کیلئے محبوب ہیں۔!!!
اجمل نیازی (نوائے وقت کالم نگار)
حافظ صاحب نے بتایا کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقعے پر آزاد کشمیر گئے اور آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا۔ بہت جرات اور حکمت سے باتیں کیں۔ انہوں نے بہت بامعنی بات کی کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اس کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ میں نوازشریف کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اسلام آباد گیا۔
صدر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح عام ہوئی تھی۔ پرکسی نے جنرل ضیاء کی بھارت کے ساتھ دلیرانہ سیاست کو پسند کیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے بھارت میں بڑی بے دلی سے جنرل کو خوش آمدید کہا تب بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحد پر کھڑی تھیں۔ صدر ضیا نے راجیو سے کہا کہ آپ پاکستان پر حملہ کرو ہم سے جو ہو سکا تمہارا مقابلہ کریں گے۔ مگر یاد رکھو کہ ہمارے پاس وہ چیز (ایٹم بم) بھی ہے۔ بھارت کے پاس بھی ہے۔ دونوں ملک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ہم ختم ہو گئے تو عالم اسلام سے مسلمان دنیا میں موجود رہیں گے۔ مگر ہندو ریاست (بھارت) ایک ہے۔ ہندو ختم ہو جائیں گئے تو دنیا سے نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس کے بعد راجیو کا رنگ فق ہو گیا اور بھارتی فوجیں سرحدوں سے واپس آ گئیں۔ حافظ صاحب کے ساتھ صحافیوں اور کالم نگاروں سے اس اہم ملاقات کا اہتمام برادرم مزمل سہروردی نے کیا تھا۔ جس میں کئی صحافیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ حافظ صاحب اور کچھ دوستوں نے کہا کہ کشمیریوں کے مسئلے کیلئے صدر ضیا الحق کے زمانے میں بہت پیشرفت ہوئی۔ افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد وہ بھارت کی طرف پوری توجہ کرنے والے تھے۔ تب خالصتان کی تحریک بہت زوروں پر تھی۔ بھارت کیلئے یہ مسئلہ کشمیر سے بھی بڑا تھا۔
سکھوں کیلئے خالصتان بن جانے کے بعد کشمیر خود بخود پاکستان کو مل جاتا۔ کشمیر پاکستان بن جاتا۔ مگر شاید بڑی طاقتیں ایسا نہیں چاہتی تھیں۔ صدر ضیا ایک ہوائی حادثے میں شہید ہو گئے اور سارا معاملہ تتر بتر ہو گیا۔ کئی بڑے مسلم لیڈروں کو اس طرح قتل کرا دیا گیا۔
بینظیر بھٹو نے وزیراعظم بنتے ہی اعتزاز احسن کی معرفت تحریک کیلئے جانثار اور سرگرم سکھ لیڈروں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کر دیں اور وہ سب مارے گئے۔ امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر حملہ کر دیا گیا۔ بھارتی فوجیں بوٹوں سمیت سکھوں کے مقدس مقام میں داخل ہو گئیں اور بھارت بچ گیا۔ بینظیر بھٹو نے دبئی میں کہا تھا کہ بھارت کو میرا شکرگزار ہونا چاہئے کہ میں نے اسے بچانے میں مدد کی۔ کچھ عرصے کے بعد دو سکھ گارڈز نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کر دیا۔ یہ گولڈن ٹمپل پر حملے کا انتقام تھا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہندو اندرا گاندھی نے سکھوں کو اپنا گارڈ کیوں بنایا تھا؟
پیمرا نے حافظ صاحب کو ایک تحریری نوٹس کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ چینلز پر آنے کیلئے ان پر پابندی ہے۔ اس حوالے سے تمام صحافیوں نے اس اقدام کی مذمت کی اور فوری طور پر پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ حافظ صاحب نے اپنی گفتگو میں بلوچستان میں خدمت خلق کے حوالے سے اپنے مختلف اقدامات کا ذکر کیا۔ اس وقت ایسی ثابت قدمی کی روشنی حافظ صاحب کے چہرے پر تھی کہ لگتا تھا انہوں نے خدمت خلق کو جہاد بنا دیا ہے۔ حافظ صاحب کی ساری زندگی جہاد کی طرح گزری ہے۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ محفل میں جماعت الدعوٰ کے یحییٰ مجاہد بھی موجود تھے۔بھارت میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ پاکستان کا نام بعد میں لیتا ہے حافظ سعید کا نام پہلے لیتا ہے۔ حافظ سعید نے ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ حملے کے سلسلے میں بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ میں ان دونوں واقعات میں بے قصور اور بے خبر ہوں۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ میں نے کشمیر کی تحریک کی حمایت میں کام کیا ہے میں کشمیر کیلئے بولتا ہوں تو کہتے ہیں دہشتگرد بول رہا ہے۔
میں پیمرا کی طرف سے خط کے بعد کسی چینل پر اپنا موقف پیش نہیں کر سکتا۔ مجھے دہشتگرد بنانے میں بھارت کے الزامات کے بعد اب پاکستان بھی شریک ہو گیا ہے۔
میں کشمیر کیلئے جرأت مندانہ موقف پر نواز شریف کا شکریہ ادا کرنے کیلئے اسلام آباد گیا مگر میڈیا مجھ پر بین کر دیا گیا ہے۔ حافظ صاحب سے ملنے کیلئے برادرم مزمل سہروردی نے تمام اہل قلم کو بلایا تھا کئی چینلز کے اہم لوگ وہاں موجود تھے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کے لوگوں نے پیمرا کی اس پابندی کو مسترد کر دیا ہے۔
حافظ صاحب نے کشمیر کیلئے اب ایک مضبوط قومی پالیسی بنانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے بڑے جذبے سے کہا، پاک فوج میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ سے بھی زیادہ اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں۔ بھارت پاک فوج کیخلاف ہے اور میرے بھی خلاف ہے۔ حافظ صاحب کی خدمت میں میری طرف سے عرض ہے کہ بھارت پاکستانی حکومت سے نہیں ڈرتا مگر حافظ سعید سے ضرور ڈرتا ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا ہے مگر اب بھارت پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عدالت کو بھی نہیں مانتا یہ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ برادرم سلمان غنی نے ایک خوبصورت رپورٹ اس حوالے سے لکھی ہے۔ انہوں نے ایک بہت شاندار اور گہرا جملہ حافظ صاحب کے لئے بولا مگر لکھا نہیں، وہ جملہ میں لکھ رہا ہوں، حافظ صاحب بھارت کیلئے مطلوب ہیں مگر پاکستان کیلئے محبوب ہیں۔!!!
اجمل نیازی (نوائے وقت کالم نگار)