ابو داؤد
مشہور رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 771
- ری ایکشن اسکور
- 217
- پوائنٹ
- 111
بھینس کو گائے کی قسم ماننے کے باوجود بھینس کی قربانی کی ممانعت حافظ زبیر علی زئی کے فتویٰ کی روشنی میں
الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، أما بعد
قربانی شعائرِ اسلامیہ میں سے ایک جلیل القدر شعار ہے، جس کی عظمت خود قرآنِ مجید میں اس انداز سے بیان ہوئی:
﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ﴾ [الحج: ٣٦]
اور اس شعارِ عظیم کو ادا کرنے کے لیے شارعِ حکیم نے چند مخصوص حیوانات کو متعین فرما دیا، جن کی قربانی مشروع ہے، اور دیگر حیوانات کو خارج از مشروعیت قرار دیا، اگرچہ ان میں ظاہری طور پر کوئی مماثلت ہو۔
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
زکوۃ کے سلسلے میں، اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے، تاہم چونکہ رسول اللہ صلی کم یا صحابہ کرام رضی اللہ نھم اجمعین سے صراحتاً بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں، لہذا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ صرف اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے۔ واللہ اعلم
[فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد ۲، صفحہ ۱۸۲]
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ محض محدث نہ تھے بلکہ اصولی وفقہی بصیرت بھی بدرجہ اتم رکھتے تھے۔ آپ کی کتاب "توضیح الاحکام" میں بھینس کی قربانی کے متعلق جو فتویٰ موجود ہے، وہ ایک گہری فقہی اصول پر استوار ہے، جسے ہم ’’توقیفی تعبّد‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔
حافظ زبیر علی زئی کے نزدیک بھینس بھی گائے کی قسم ہونے کے باوجود قربانی کے لائق نہیں ہے۔ بعض لوگ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ چونکہ زکوٰۃ کے ابواب میں بھینس کو گائے کی جنس میں شمار کیا گیا ہے، اس لیے قربانی میں بھی بھینس کو شامل کر لینا چاہیے۔ یہ قیاس ایک اعتبار سے درست ہونے کے باوجود محلِ استنباط میں نادرست ہے، کیونکہ قربانی کا باب توقیفی ہے، محض قیاسی نہیں۔
یعنی قربانی ایک تعبدی امر ہے، جس میں قیاس کا استعمال تب ہی معتبر ہو سکتا ہے جب اصل میں نص یا صراحت موجود ہو۔ زکوٰۃ کے باب میں بھینس کی شمولیت اجماعاً تسلیم کی گئی ہے، لیکن قربانی میں اس کا ثبوت نہ قرآن سے ہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے، نہ خلفاءِ راشدین اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کسی اثر سے۔
اگر یہ قربانی کے لائق حیوانات میں سے ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی قربانی کا تصور ضرور پیش فرماتے۔ دین کامل و مکمل ہو چکا تھا، اور اگر قربانی میں بھینس مشروع ہوتی تو کسی نہ کسی مقام پر اس کا ذکر ضرور ملتا۔ لیکن ہم کتبِ حدیث، آثارِ صحابہ کے ذخائر میں ایسی کوئی مثال نہیں پاتے۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے، باوجود اس کے کہ بھینس کو گائے کی قسم مانا، اس کی قربانی کے متعلق فتویٰ دیا کہ "بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے"۔
بھینس کی قربانی کے جواز کی رائے محض قیاسی جواز ہے، نہ کہ توقیفی اثبات۔ اس رائے کو صرف ایک اجتہادی راہ کہا جا سکتا ہے، نہ کہ شرعی جزم۔ ایسے اجتہادات جہاں نصوص نہ ہوں، وہاں غلطی کا احتمال ہمیشہ قائم رہتا ہے، اور جب عبادت کا تعلق تعبد سے ہو، وہاں خطا زیادہ مہلک ہو سکتی ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إنَّ الْأَصْلَ فِي الْعِبَادَاتِ التَّوْقِيفُ فَلَا يُشْرَعُ مِنْهَا إلَّا مَا شَرَعَهُ اللَّهُ تَعَالَى" [مجموع الفتاوى، ج : ٢٩، ص : ١٧]
یعنی عبادات میں اصل توقیف (یعنی نص پر رکنا) ہے، پس ان میں سے صرف وہی مشروع ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے۔
جو حضرات بھینس کی قربانی پر زور دیتے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ اگر اللہ اور رسول نے اس حیوان کی قربانی کرنے کا حکم نہیں دیا، تو آپ کو کس نے اجازت دی؟ یہ معاملہ صرف "گائے جیسی" ہونے کا نہیں، بلکہ "اللہ کے لیے قابلِ قبول" ہونے کا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ بھینس، اگرچہ بعض ابواب میں گائے کے مشابہ ہے، لیکن قربانی کے باب میں چونکہ اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں، اس لیے احتیاط یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ اور یہی وہ بصیرت ہے جو حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے پیش فرمائی۔
ایسے اجتہادات جو اصل دین میں نئے افعال کو داخل کریں، وہ درحقیقت سلف صالحین کی سنت پر طعن کے مترادف ہیں، کیونکہ اس کا لازم یہی نکلتا ہے کہ ’’انہوں نے کوئی خیر کو چھوڑ دیا‘‘ یا ’’وہ بھینس کی قربانی سے ناآشنا رہے‘‘۔ نعوذ باللہ۔
اللہم اجعلنا من المقتدین بالسنة، واجنبنا سبل المحدثین، آمین یا رب العالمین۔