• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھینس کی زکاۃ پر سلف کا اجماع اور قربانی میں سکوتِ تام

ابو داؤد

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
771
ری ایکشن اسکور
217
پوائنٹ
111
بھینس کی زکاۃ پر سلف کا اجماع اور قربانی میں سکوتِ تام

الحمد للّٰہ وحدہ، والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، وعلیٰ آلہ وصحبہ، ومن اقتفیٰ أثرہم الیٰ یوم الدین۔ أما بعد:

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دینی امور میں سبیلِ راستی وہی ہے جو قرونِ ثلاثہ مشہود لہا بالخیر کی اتباع میں اختیار کی جائے۔ جیسا کہ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عظیم «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» [صحیح البخاری، حدیث: ۲۶۵۲] دلالتِ تامہ کے ساتھ بیان فرماتا ہے۔

یہ مسئلہ کہ آیا بھینس کی قربانی مشروع ہے یا غیر مشروع؟ غور و تدبر، تتبع آثارِ سلف اور نظائر فقہیہ کی روشنی میں اس امر کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ زکاۃ کے باب میں تو سلف نے بھینس کو مالِ زکاۃ میں شمار کیا ہے، مگر قربانی کے باب میں ان سے کوئی صریح یا اشارتاً قول منقول نہیں جو بھینس کی قربانی کو مشروع یا مسنون قرار دیتا ہو۔

اوّلاً: بھینس کا وجود اور تعارف فی عہدِ سلف

یہ مسلم الثبوت امر ہے کہ سلفِ صالحین کے ابتدائی دور میں جزیرۃ العرب میں بھینس (الجوامیس) کا کوئی عمومی یا غالب وجود نہ تھا۔ اہل لغت و تاریخ اس پر متفق ہیں کہ بھینس کا اصل مسکن و منبع ہندوستان، وادی نیل اور عراق کے بعض دلدلی علاقے تھے، جہاں سے یہ بعد کے ادوار میں بلادِ عرب تک پہنچی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ و تابعین کے دورِ اوّل میں ہمیں بھینس کے بارے میں کوئی تفصیلی فقہی گفتگو نہیں ملتی۔

البتہ جب سلف متأخرین کو بھینس کی معرفت ہوئی تو انہوں نے اس میں زکاۃ کی فرضیت کے متعلق فتویٰ صادر فرمایا، جیسا کہ امام محمد بن الحسن الشيباني (ت ١٨٩ هـ) رحمہ اللّٰہ اپنی مشہور کتاب "الأصل" میں اس امر کی صراحت کرتے ہیں:

"قلت أرأيت الرجل يكون له البقر والجواميس أو الخيل قد اشتراها للتجارة وهي سائمة ترعى في البرية أيزكيها زكاة السائمة أو زكاة التجارة قال بل يزكيها زكاة التجارة"

میں نے (امام سے) پوچھا: بتائیے، اگر کسی شخص کے پاس گائیں، بھینسیں یا گھوڑے ہوں، جنہیں اس نے تجارت کی نیت سے خریدا ہو، اور وہ چرنے والے جانور ہوں جو میدانوں میں آزاد چر رہے ہوں، تو کیا وہ ان کی زکوٰۃ ’’سائمہ‘‘ (چرنے والے جانوروں) کی زکوٰۃ کے مطابق دے گا یا ’’تجارتی مال‘‘ کے مطابق؟ فرمایا: بلکہ وہ ان کی زکوٰۃ تجارتی مال کی زکوٰۃ کے مطابق دے گا۔

[كتاب الأصل لمحمد بن الحسن، ج : ٢، ص : ٧٧]

IMG_20250530_214544_873.jpg

گویا زکاۃ کی فرضیت ایک کلی قاعدہ ہے جو بہر حال انعام (گائے، بیل، بھینس) پر منطبق ہوتا ہے، بشرطِ سَوْم۔ اور اس اجمال کو سلف نے بھی تسلیم کیا۔

ثانیاً: قربانی میں بھینس کی عدم مشروعیت عن سلف

جب ہم قربانی کے مسئلے کو بغور دیکھتے ہیں تو تمام آثارِ سلفیہ اس بات پر خاموش ہیں کہ انہوں نے بھینس کو قربانی کے جانوروں میں شمار کیا ہو۔ نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، نہ تابعین اور نہ ہی اتباع التابعین سے کسی صحیح، صریح روایت میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھینس کی قربانی کی ہو یا اس کو مسنون کہا ہو۔

یہ سکوت ظرفِ زمان و مکان کے عدم تعارف سے نہیں، بلکہ ادراک کے باوجود اجتناب پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ زکاۃ کے باب میں جب بھینس کی تخصیص کے ساتھ گفتگو موجود ہے تو اگر وہ قربانی کے قابل و مشروع ہوتی تو وہاں بھی کوئی نہ کوئی اثر سلف سے منقول ہوتا۔ بالخصوص اس وقت جب کہ قربانی ایک شعیرہ اسلام اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے، اور اس کی تعیین میں سلف معمولی تأمل بھی روا نہیں رکھتے۔

ثالثاً: فہمِ سلف اور فہمِ خلف میں فرق

آج جن حضرات نے بھینس کی قربانی کو جائز و مباح قرار دیا ہے، وہ اگرچہ دلیل کے باب میں "گائے کے حکم پر قیاس" کو پیش کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ استدلال قرونِ ثلاثہ کے فہم کے خلاف واقع ہوتا ہے، کیوں کہ وہ ایسے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جس پر خیر القرون کی بشارت وارد نہیں ہوئی۔

یہی وہ مقام ہے جہاں فہمِ سلف اور فہمِ خلف میں حد فاصل قائم ہوتی ہے۔ فہمِ سلف قرآن و سنت کی تعبیر کے سلسلے میں مأمون، محفوظ، معتمد اور نصوص کا اصدق ترجمان ہوتا ہے، جب کہ فہمِ خلف میں رائے، تأویل، قیاس اور عادت و عرف کا غلبہ پایا جاتا ہے۔

رابعاً: احتیاط کا تقاضا اور سبیلِ راستی

اگر زکاۃ کے باب میں بھینس کا حکم موجود ہو مگر قربانی کے باب میں سکوت ہو، تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ قربانی کو اس وقت تک مشروع نہ مانا جائے جب تک سلف کا تعامل اس پر شاہد نہ ہو۔ کیوں کہ جو چیز سلف کے دور میں دین نہ تھی، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی۔

جب سلف نے دونوں مسائل یعنی زکاۃ اور قربانی میں فرق کیا تو اہلِ حق کے لیے لازم ہے کہ وہ اسی فرق کو ملحوظ رکھیں اور اتباعِ سلف کی راہ سے ایک قدم بھی انحراف نہ کریں۔ آج اگر ہم بھینس کی قربانی کو سلف کی خاموشی کے باوجود مشروع قرار دیں، تو یہ گویا فہمِ سلف پر فہمِ خلف کو ترجیح دینا ہے، جو کہ دین کے باب میں حد سے بڑھی ہوئی جرأت اور اجتہاد بالرائے کی مذموم صورت ہے۔

لہٰذا، جو حضرات قربانی کے باب میں بھینس کو گائے پر قیاس کرتے ہوئے مشروع کہتے ہیں، ان سے ہم یہ پوچھتے ہیں کہ:

جب سلف کے پاس بھینس کے وجود کا علم تھا، اور انہوں نے زکاۃ کے باب میں فتویٰ صادر فرمایا، تو قربانی کے باب میں ان کی خاموشی کس امر کی دلیل ہے؟ کیا یہ اس بات کی علامت نہیں کہ سلف نے قربانی میں بھینس کو شامل نہیں کیا؟ تو جب سلف نے فرق کیا، تو ہم کیوں نہ کریں؟

اللہ تعالیٰ ہمیں فہمِ سلف پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے، اور ہر اس امر سے محفوظ رکھے جس میں بدعت یا دین میں زیادتی کا شائبہ ہو۔

وصلی اللّٰہ علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ أجمعین۔
 
Top