ابو داؤد
مشہور رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 771
- ری ایکشن اسکور
- 217
- پوائنٹ
- 111
بھینس کی قربانی کا شرعی جواز؟ حافظ عبد المنان نورپوری کا فیصلہ کن فتویٰ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جب دینی معاملات، خصوصاً عبادات میں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر محض لغوی مفاہیم یا قیاسی توجیہات پر انحصار کیا جائے، تو وہ عمل بدعت کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ یہی صورت حال اُن لوگوں کی ہے جو "بھینس" (الجاموس) کی قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور خلفائے راشدین کے دور میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
حافظ عبد المنان نورپوری فرماتے ہیں :
"جو لوگ بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں دلیل بس یہی ہے کہ لفظ بقر اس کو بھی شامل ہے یا پھر اس کو بقر پر قیاس کرتے ہیں اور معلوم ہے کہ گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے لہٰذا گائے کی قربانی کی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طریقوں سے ثابت ہے۔"
نیز فرمایا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں جاموس کی قربانی کا ذکر نہیں ہے ۔"
[احکام و مسائل، جلد ۱، صفحہ ۴۳۴]
یہ فتویٰ ایک محدثِ کبیر کا ہے، جو سنت و حدیث کے زریں اصولوں کا محافظ تھا۔ ان کے بیان سے یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ جاموس کی قربانی، سنتِ محمدی کا حصہ نہیں۔
جو چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر سے ثابت نہ ہو، اُس کو صرف "زبان کی تاویل" یا "قیاس عقلی" پر قربانی کی عبادت میں داخل کرنا، نہ صرف دین میں اضافہ ہے بلکہ بدعت فی الدین ہے۔
فقہاءِ اہل سنت کے نزدیک قیاس نص کی عدم موجودگی میں معتبر ہوتا ہے، مگر جب نصِ صریح موجود ہو تو اس کے مقابلے میں قیاس مقبول نہیں۔ قربانی کی عبادت میں چونکہ نصوصِ صریحہ موجود ہیں، لہٰذا بھینس کو گائے پر قیاس کر بھینس کی قربانی کرنا اصولِ شریعت کے خلاف ہے۔
کیا آپ قربانی کے نام پر ہرن، نیل گائے، یا بارہ سنگھا کی قربانی بھی جائز سمجھیں گے، کہ اہل لغت نے انہیں "شاۃ الوحش" میں شمار کیا ہے؟
اگر بھینس کو قربانی میں اس لئے داخل کیا جا رہا ہے کہ لغت میں وہ "بقر" کے قریب ہے، تو پھر کیا لغت میں "شاۃ" کے تحت ہرن آ جائے تو ہرن بھی قربانی کا جانور بن جائے گا؟ اگر نہیں، تو پھر بھینس کی قربانی کا جواز بھی سراسر تلبیس، تحریف اور خیانت ہے۔
والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔