• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بہتر تھا سارے وزیرستان پر ایٹم بم گراتے اور قصہ تمام کرتے

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بہتر تھا سارے وزیرستان پر ایٹم بم گراتے اور قصہ تمام کرتے

پیاس اور تھکن کی وجہ سے گاڑیوں میں سفر کرنے والے ننھے منے متاثرین بچوں کے چہروں پر پریشانی اور مایوسی کے اثار بھی نمایاں تھے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن سے بے گھر ہونے والے افراد کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کاروائیاں کی ابتدا ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ملک کے زیادہ تر علاقے شدیدگرمی کی لپیٹ میں ہیں اور دوسری طرف رمضان کا مہینہ بھی قریب ہے جس سے آنے والے دنوں میں متاثرین کے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

شمالی وزیرستان میں چار روز قبل شروع ہونے والے فوجی آپریشن ضربِ عضب کے دوران پہلی مرتبہ کرفیو میں نرمی کر دی گئی جس کے ساتھ ہی میرعلی کے علاقے سے سینکڑوں خاندانوں نے محفوظ مقامات کی جانب رخ کیا۔

پولیٹکل انتظامیہ کے مطابق مقامی افراد کو علاقے سے نکالنے کے لیے مرحلہ وار پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت مختلف مقامات سے لوگوں کا انخلا مکمل کرایا جائے گا۔

بنوں میرانشاہ سڑک بدھ کی صبح سے لے کر شام تک سارا دن متاثرین کی گاڑیوں کے رش کے باعث ایک مرکز کا منظر پیش کرتا رہا اور اس دوران نقل مکانی کرنے والے افراد ٹرکوں، ٹریکٹروں، ہائی ایس گاڑیوں اور موٹر سائیکلیوں پر خواتین اور بچوں سمیت قافلوں کی صورت میں وقفے وفقے سے بنوں کی طرف پہنچتے رہے۔

کئی افراد گاڑیوں کے عدم دستیابی یا غربت کی وجہ سے پیدل وزیرستان سے قریبی علاقوں میں منتقل ہوئے اور ان کے ہمراہ بچے اور خواتین بھی تھیں۔

کئی گاڑیوں میں متاثرین کے ہمراہ ان کے جانور اور مال مویشی بھی دکھائی دیے۔ دوپہر کے وقت تک شدید گرمی اور تپتی دھوپ میں ہر دوسری گاڑی میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار نظر آئے۔ پیاس اور تھکن کی وجہ سے گاڑیوں میں سفر کرنے والے ننھے منے متاثرین بچوں کے چہروں پر پریشانی اور مایوسی کے اثار بھی نمایاں تھے۔

آپریشن کے مارے ہوئے کئی قبائلی جگہ نہ ہونے کے باعث گاڑیوں کے چھتوں اور ڈگیوں میں بھی سفر کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

میرعلی کے ایک نوجوان محمد منصور موٹر سائیکل پر چار بچوں کو بٹھائے بنوں کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کس طرح وہ اتنے خطرناک طریقے سے بچوں کو بائیک پر سوار کر کے جارہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ چار دن سے ان کا تمام خاندان کرفیو کی وجہ سے گھر کے اندر محصور تھا اور اس دوران وہاں صرف جیٹ طیاروں کی بمباری، توپ بردار ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ اور توپ خانے کی گن گرج سنائی دیتی رہی۔

’ ہم جان بچا کر علاقے سے نکلے ہیں ،گاڑی میں اور جگہ نہیں تھی تو میں نے ان بچوں کو بائیک پر سوار کرکے یہاں پہنچایا ہے۔’

میرعلی سے بے گھر ہونے والے اکثریتی قبائلی خاندان بنوں ، کرک، کوہاٹ ، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور ملک کے دیگر شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں وہ اپنے طور پر کرائے کے مکانات، رشتہ داروں اور دوستوں عزیزوں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

میرعلی کے ایک اور رہائیشی محمد نیاز نے بتایا کہ ان اطلاعات میں کوئی حقیقت نہیں کہ آپریشن کا مرکزی ہدف صرف غیر ملکی اور طالبان شدت پسند ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر علاقوں میں عام شہریوں کے مکانات بھی نشانہ بنے ہیں اور ان کے کافی نقصانات بھی ہو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ کرفیو کے دوران قیامت جیسا منظر تھا، تمام بازار اور تجارتی مراکز بند رہے جس کی وجہ سے کھانے پینے کی آشیا اور ادویات کی شدید قلت رہی۔‘

ان کے مطابق ’اس سے بہتر تھا کہ ایک ہی وقت میں سارے وزیرستان پر ایٹم بم گرایا جاتا اور اس طرح قصہ ہی ختم ہو جاتا اور حکومت کی خواہش بھی پوری ہو جاتی۔‘

شمالی وزیرستان سے بنوں تک تقربناً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط سڑک پر حکومت کی طرف سے متاثرین کے لیے کسی قسم کا کوئی ریلیف کیمپ یا فوڈ پوائنٹ نظر آیا۔ تاہم بنوں میرانشاہ سڑک پر الخدمت فاونڈیشن اور مقامی افراد کی طرف سے بعض مقامات پر چھوٹے چھوٹے کیمپ بنائے گئے ہیں جہاں بے گھر افراد کے لیے شربت اور ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا گیا تھا۔

شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے نیم خود مختار قبائلی ایف آر بکاخیل کے علاقے میں ایک متاثرین کیمپ قائم کیا گیا ہے تاہم سہولیات کی کمی کے باعث وہاں ابھی تک کوئی متاثرہ خاندان نہیں جا سکا ہے۔

اس کیمپ تک ابھی تک میڈیا کو بھی رسائی نہیں دی گئی ہے۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں کیمپ بنایا گیا ہے وہ علاقہ سانپ اور بچھوؤں کےلیے مشہور ہے اس وجہ سے وہاں کوئی نہیں جائے گا اور نہ وہاں سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ ضلع بنوں کے حدود میں حکومت کی جانب سے تاحال متاثرین کے رہنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔

تاہم دوسری طرف اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے متاثرین کیمپوں میں رہتے ہیں یا انہیں امداد دیا جائے گا۔

قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم کے ڈائر یکٹر جنرل طاہر اورکزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کےلیے مرکز اور صوبے کی طرف سے الگ الگ طور پر امداد کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت ان کو اچھی امدادی رقوم ملے گی۔

انھوں نے کہا کہ اس مرتبہ حکومت کی طرف سے امداد دینے کے لیے ایسا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی بدعنوانی بھی نہیں ہو سکتی لہٰذا متاثرین کو رقوم نہ ملنے کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔

رفعت اللہ اورکزئی: جمعرات 19 جون 2014
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
اس سے بہتر تھا کہ ایک ہی وقت میں سارے وزیرستان پر ایٹم بم گرایا جاتا اور اس طرح قصہ ہی ختم ہو جاتا اور حکومت کی خواہش بھی پوری ہو جاتی۔‘
ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔۔۔۔!
 
Top