• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بہتر وہ ہے جس کی بیویاں زیادہ ہیں۔

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’نکاح کرو اس لئے کہ اس امت میں بہتر وہ ہے جس کی بیویاں زیادہ ہیں۔
(بخاری ، 4782)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’نکاح کرو اس لئے کہ اس امت میں بہتر وہ ہے جس کی بیویاں زیادہ ہیں۔
(بخاری ، 4782)
محترم بھائی !
یہ روایت صحیح بخاری ، کتاب النکاح میں مروی ہے
عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ تَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: «فَتَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ أَكْثَرُهَا نِسَاءً»
مولانا داود راز ؒ دہلوی نے اس کا ترجمہ کیا ہے :
(جلیل القدر تابعی امام )جناب سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شادی کر لو کیونکہ اس امت کے بہترین شخص جو تھے (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کی بہت سی بیویاں تھیں۔ ‘‘

اور یہ ترجمہ اسلئے بھی ٹھیک ہے کہ مسند امام احمد میں یہ روایت ان الفاظ سے منقول ہے :
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ بْنِ رَقَبَةَ عَنْ طَلْحَةَ الْإِيَامِيِّ عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ تَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَنَا كَانَ أَكْثَرَنَا نِسَاءً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مسند احمد:حدیث نمبر 3507
حضرت سعید بن جبیر (رحمه الله) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے مجھ سے فرمایا کہ شادی کرلو کیونکہ اس امت میں جو ذات سب سے بہترین تھی (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بیویاں
زیادہ تھیں ( تو تم کم ازکم ایک سے ہی شادی کرلو، چار سے نہ سہی)
اور مسند احمد کے محقق علامہ شعیب الارناؤط اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

إسناده صحيح على شرط الشيخين. أبو عوانة: هو الوضاح بن عبد الله اليشكري، وطلحة الإيامي: هو طلحة بن مصرف اليامي نسبة إلي إيَام: قبيلة من هَمْدان، قال الزبيدي في "شرح القاموس": والنسبة إليهم: يامي، وربما زِيدَ في أوله همزة مكسورة.
وأخرجه البخاري (5069) ، والبيهقي 7/77 من طريق علي بن الحكم، والطبراني (12398) من طريق عبد الواحد بن غياث، كلاهما عن أبي عوانة، بهذا الإسناد. وانظر (2048) .
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
والذي يظهر أن مراد بن عباس بالخير النبي صلى الله عليه وسلم وبالأمة أخصاء أصحابه وكأنه أشار إلى أن ترك التزويج مرجوح إذ لو كان راجحا ما آثر النبي صلى الله عليه وسلم غيره وكان مع كونه أخشى الناس لله وأعلمهم به يكثر التزويج لمصلحة تبليغ الأحكام التي لا يطلع عليها الرجال ولإظهار المعجزة البالغة في خرق العادة لكونه كان لا يجد ما يشبع به من القوت غالبا وإن وجد كان يؤثر بأكثره ويصوم كثيرا ويواصل ومع ذلك فكان يطوف على نسائه في الليلة الواحدة ولا يطاق ذلك إلا مع قوة البدن وقوة البدن كما تقدم في أول أحاديث الباب تابعة لما يقوم به من استعمال المقويات من مأكول ومشروب وهي عنده نادرة أو معدومة ووقع في الشفاء أن العرب كانت تمدح بكثرة النكاح لدلالته على الرجولية إلى أن قال ولم تشغله كثرتهن عن عبادة ربه بل زاده ذلك عبادة۔۔۔ الخ
ظاہر ہے کہ اس حدیث میں (خیر ) سے ابن عباس ؓ کی مراد نبی کریم ﷺ ،اور امت سے مراد صحابہ کرام ہیں ، گویا اس طرح انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ : شادی ترک کرنا ٹھیک نہیں ، کیونکہ اگر شادی ترک کرنا راجح ہوتا تو آپ ﷺ کثرت ازدواج کو ترجیح نہ دیتے ،
بالخصوص جبکہ آپ سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والے ، اور سب سے بڑھ کر حقائق جاننے والے تھے ،
کثرت ازدواج کی ایک مصلحت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس طرح تبلیغ اسلام ، اور تعلیم احکام کی جائے ،کیونکہ خواتین سے متعلق اکثر احکام سے مرد مطلع ہی نہ ہوتے ،
اور کثرت ازدواج سے ایک معجزہ کا اظہار بھی تھا ، اور وہ یہ کہ معلوم حقیقت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اکثر اوقات پیٹ بھر کھانے کو نہیں ہوتا تھا ،اور اگر ہوتا تو دوسروں کو دے دیتے ،اور خود کئی کئی دن روزہ کی حالت میں ہوتے ، اسکے باوجود کئی بیویوں سے ایک ہی رات تعلق مباشرت نبھاتے ،
حالانکہ ایسا تبھی ممکن ہے جب مرد کو جسمانی ،بدنی قوت حاصل ہو ، اور بدنی قوت تبھی ممکن ہے جب مقوی بدن غذائیں کھانے کو ملیں
اور کھانے پینے کی ایسی مقوی چیزیں نبی مکرم ﷺ کے گھر میں نادر تھیں ،اس کے باوجود اتنی بیویوں سے وظیفہ زوجیت ادا کرنا محض معجزہ ہی ہوسکتا ہے
پھر ایک پہلو اور بھی کثرت ازدواج کا یہ ہے کہ
اہل عرب کئی شادیاں کرنے کو مردانگی ، بلند حوصلگی گردانا جاتا تھا،
اور قابل توجہ بات یہ بھی کہ اتنی شادیاں کرنے کے باوجود اللہ کی عبادت میں کبھی کمی کوتاہی نہ ہوئی، بلکہ مشاہدہ یہ ہے اس طرح عبادت میں اضافہ ہی ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top