- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
(×) حکمرانوں کے چہرے بدلے ہیں، کردار وہی ہے
(@) مطلب یہ کہ (کے پی کے میں) حکمران جماعت اسلامی ہو، جے یو آئی یا پی ٹی آئی سب کا کردار ایک ہی ہے۔ صرف چہرے الگ الگ ہیں
(×) انہیں وقت ملنا چاہئے۔ وقت سے پہلے ہٹانا شہید کرنے کے مترادف ہوگا
(@) ملب یہ کہ ایم ایم اے حکومت کی طرح پی ٹی آئی کی شراکتی حکومت میں بھی آپ کو پورا وقت ملے ؟
(×) اسٹیٹس کو کے حامی، ملک اور قوم کی تقدیر بدلنا نہیں چاہتے
(@) کیا آپ بھی اس ”کو“ کے حامی ہیں ؟ اگر نہیں تو کے پی کے کی تقدیر کیوں نہیں بدلی؟ اگر بدل نہیں سکتے تو حکومت میں کیا کررہے ہیں؟
(×) تبدیلی کے لئے صرف جمہوری طریقہ اپنانا چاہئے
(@) لیکن اس میں تو بقول آپ کے صرف حکمرانوں کے چہرے بدلتے ہیں، کردار وہی رہتا ہے ؟
(×) دنیا بھر میں تبدیلی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ پاکستان مین بھی مثبت تبدیلی آنی چاہئے
(@) مگر کیسے؟ صرف جمہوری طریقے سے؟ لیکن اس طریقے سے تو بقول آپ کے صرف حکمرانوں کے چہرے بدلتے ہیں، کردار وہی رہتا ہے
(×) عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے کچھ نہیں کی جارہا۔
(@) آپ کی کے پی کے حکومت میں بھی نہیں ؟ جبھی تو وزیرستان کے لاکھوں شہری اپنے ہی ملک میں ”بے گھر مہاجرین“ بن کر سالوں سے بے یار و مددگار خیموں میں پڑے ہیں، بندوقوں کے سائے میں انہیں رونے بھی نہیں دیا جاتا۔
(×) حکمران ملک سے پیسے باہر لے جارہے ہیں یا جائیدادیں بنا رہے ہیں
(@) آپ قوم کو اطلاع دے رہے ہیں یا شکایت کر رہے ہیں۔ اگر اطلاع ہے تو اس کی ضرورت نہیں کہ قوم پہلے سے یہ بات جانتی ہے اور دیکھ رہی ہے۔ اگر شکایت ہے تو کیوں؟ آپ تو انہی حکمرانوں کو ”پورا وقت“ دینا چاہتے ہیں۔ تاکہ وہ یہ ”فریضہ“ پوری طرح سر انجام دے سکیں۔ ہے نا؟ کیونکہ انہیں وقت سے پہلے ہٹانا شہید کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہے نا؟
اللہ معاف کرے۔ یہ ایک نسبتاً ”نیک جماعت“ کے ”نیک و متقی“ لیڈر کا بیان ہے۔ کیا یہ سارے کے سارے (بشمول نیک) لیڈرز عوام کو بالکل ہی بے وقوف اور جاہل سمجھتے ہیں کہ جو بھی ”بھاشن“ دیں گے، عوام تالیاں بجاتے ہوئے انہیں ووٹ دیتے رہیں گے۔ سراج الحق صاحب ایم اے پاس ہیں، اسکول ٹیچر ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی منظم اور پڑھی لکھی پارٹی کے سربراہ ہیں، کے پی کے میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اس وقت سینیٹ کے رکن ہیں۔ کیا ایک انہیں ایسا کوئی ”اسپیچ رائٹر“ دستیاب نہیں جو انہیں ”ڈھنگ کی تقریر“ ہی لکھ کر دے سکے۔ تاکہ مسائل سے نجات ملے نہ ملے، قوم کو ان بے تکی باتوں پر مبنی بھاشن سے ہی نجات مل سکے۔