- شمولیت
- مارچ 17، 2015
- پیغامات
- 19
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 36
*تحریر :__________فضیل احمد ظفر*
*متعلم :__________جامعہ سلفیہ، بنارس*
علم ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے بغیر انسان کی زندگی ناقص ہوتی ہے ایک انسان چاہے کتنا ہی مالدار ہو جائے لیکن اگر اس کے پاس علم کی دولت نہیں ہے تو لوگ اس کے اوپر "جاہل" ہونے کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں
لیکن یاد رکھیں۔۔۔!
صرف علم کافی نہیں بلکہ عمل بھی ضروری ہے
عمل کے بغیر علم آپ کے لیے قیامت کے دن وبال جان بن سکتا ہے
ایک انسان انتہائی بھوکا ہو اور بڑی جد و جہد کے بعد وہ کھانا حاصل کرلے لیکن اس کو کھائے نہ تو کیا اس کی بھوک ختم ہو جائے گی۔۔؟
علم ایک درخت ہے اور اس کا پھل عمل ہے
علم الاؤ کے مانند ہے اور اس کا ایندھن عمل ہے آپ جتنا ایندھن اس میں ڈالیں گے وہ اتنی ہی دیرپا ہو گا
آج ہمارا حال کیا ہے ۔۔۔؟
ہم جانتے تو بہت کچھ ہیں لیکن کیا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ہم نے کبھی سوچا کہ عملی صف میں ہم کہاں ہے۔۔؟
آج سوشل میڈیا پر دعاة کی کثرت ہے ہر ایک اپنے کو دوسرے سے بڑا داعی کہلوانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے
حتی کہ کسی کی تحریر کو ہر ایک اپنے نام سے شیئر کرتے ہیں
کس لیے۔۔۔؟
فقط اسی لیے نا کہ آپ کو سب سے بڑا داعی، مبلغ سمجھا جائے۔۔؟
اللہ تعالٰی نے اس شخص پر سخت تنقید کی جو دوسروں کو تو خیر کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا ہے
اللہ نے فرمایا
يا ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁَﻣَﻨُﻮﺍ ﻟِﻢَ ﺗَﻘُﻮﻟُﻮﻥَ ﻣَﺎ ﻟَﺎ ﺗَﻔْﻌَﻠُﻮﻥَ ○
ﻛَﺒُﺮَ ﻣَﻘْﺘًﺎ ﻋِﻨْﺪَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺃَﻥْ ﺗَﻘُﻮﻟُﻮﺍ ﻣَﺎ ﻟَﺎ ﺗَﻔْﻌَﻠُﻮﻥَ (الصف:٢_٣)
اے ایمان والو کیوں تم وہ بات کرتے ہو جو کرتے نہیں ہو
اللہ کے نزدیک یہ بات بڑی ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ہو
*علم پر عمل نہ کرنے کی صفت تو یہودیوں کی ہے*
اللہ رب العالمین نے فرمایا
ﺃَﺗَﺄْﻣُﺮُﻭﻥَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺑِﺎﻟْﺒِﺮِّ ﻭَﺗَﻨﺴَﻮْﻥَ ﺃَﻧﻔُﺴَﻜُﻢْ ﻭَﺃَﻧﺘُﻢْ ﺗَﺘْﻠُﻮﻥَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﺃَﻓَﻼَ ﺗَﻌْﻘِﻠُﻮﻥَ (البقرة: ٤٤)
کیا تم(یہود) لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب (تورات) کی تلاوت (بھی) کرتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں ہو
علم پر عمل نہ کرنے والے کی تشبیہ اللہ نے *گدھے* سے دی ہے
اللہ کا فرمان ہے
ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺣُﻤِّﻠُﻮﺍ ﺍﻟﺘَّﻮْﺭَﺍﺓَ ﺛُﻢَّ ﻟَﻢْ ﻳَﺤْﻤِﻠُﻮﻫَﺎ ﻛَﻤَﺜَﻞِ ﺍﻟْﺤِﻤَﺎﺭِ ﻳَﺤْﻤِﻞُ ﺃَﺳْﻔَﺎﺭﺍً ﺑِﺌْﺲَ ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡِ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﺬَّﺑُﻮﺍ ﺑِﺂَﻳَﺎﺕِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻭَﺍﻟﻠَّﻪُ ﻟَﺎ ﻳَﻬْﺪِﻱ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡَ ﺍﻟﻈَّﺎﻟِﻤِﻴﻦَ (الجمعة:٥)
أن لوگوں کی مثال جن کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا *اس گدھے کی سی ہے* جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہو ان لوگوں کی مثال کتنی بری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے
حتی کہ اللہ رب العالمین نے علم پر عمل نہ کرنے والے کو *کتے* کے مثل قرار دیا
کیا کہا اللہ نے
ﻭَﺍﺗْﻞُ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﻧَﺒَﺄَ ﺍﻟَّﺬِﻱَ ﺁﺗَﻴْﻨَﺎﻩُ ﺁﻳَﺎﺗِﻨَﺎ ﻓَﺎﻧﺴَﻠَﺦَ ﻣِﻨْﻬَﺎ ﻓَﺄَﺗْﺒَﻌَﻪُ ﺍﻟﺸَّﻴْﻄَﺎﻥُ ﻓَﻜَﺎﻥَ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﻐَﺎﻭِﻳﻦَ○
ﻭَﻟَﻮْ ﺷِﺌْﻨَﺎ ﻟَﺮَﻓَﻌْﻨَﺎﻩُ ﺑِﻬَﺎ ﻭَﻟَﻜِﻨَّﻪُ ﺃَﺧْﻠَﺪَ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻷَﺭْﺽِ ﻭَﺍﺗَّﺒَﻊَ ﻫَﻮَﺍﻩُ ﻓَﻤَﺜَﻠُﻪُ ﻛَﻤَﺜَﻞِ ﺍﻟْﻜَﻠْﺐِ ﺇِﻥ ﺗَﺤْﻤِﻞْ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻳَﻠْﻬَﺚْ ﺃَﻭْ ﺗَﺘْﺮُﻛْﻪُ ﻳَﻠْﻬَﺚ ﺫَّﻟِﻚَ ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡِ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﺬَّﺑُﻮﺍْ ﺑِﺂﻳَﺎﺗِﻨَﺎ (ألأعراف: ١٧٥_١٧٦)
لوگوں کو اس شخص کی خبر بتا دیجیے جس کو ہم نے اپنی آیات (کا علم) دیا تو وه ان (آیتوں) سے بالکل ہی پھر گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہ لوگوں میں سے ہو گیا اگر ہم چاہتے تو اس کو ان (آیتوں) کی وجہ بلند فرماتے لیکن وہ تو زمین (دنیا) کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی سو اس کی مثال اس *کتے* کی سی ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے گا اور اگر اس کو چھوڑ دے تب بھی وہ ہانپے گا یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سخت وعید سنائی ہے ایسے بیمار ڈاکٹرز کو جو صرف لوگوں کا علاج کر رہیں اور خود کو بھول گئے ہیں ایسے دعاة کو وعید سنائی ہے جو دعوت و تبلیغ کرتے ہیں لیکن خود اس کے خلاف کرتے ہیں
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتابه في النار فيطحن فيها كطحن الحمار برحاه فيجتمع أهل النار عليه فيقولون : أي فلان ما شأنك ؟ أليس كنت تأمرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر ؟ قال : كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه وأنهاكم عن المنكر وآتيه " (متفق عليه)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو جہنم میں اس کی انتڑیاں باہر آجائیں گی وہ جہنم میں چکر لگائے کا گدھے کے اپنے چکی کے ساتھ چکر لگانے کی طرح تو جہنمی لوگ اس کے پاس اکٹھا ہوں گے اور اس سے پوچھیں گے اے فلاں۔۔! کیا معاملہ ہے تیرا۔۔؟ کیا تو ہمیں بھلائی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا۔۔؟
وہ کہے گا میں تمہیں بھلائی کا حکم تو دیتا تھا لیکن خود اس کو نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے روکتا تھا اور خود اس کو کرتا تھا"
یہاں ایک نقطہ یاد رکھیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں "الرجل" کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں والدین، اساتذہ، پیر، فقیر اور مذہبی و سیاسی لیڈر سب شامل ہیں صرف علماء و داعیان حق اور مصلحین امت کو مراد نہیں لیا جا سکتا
ﻓَﻤَﺎ ﻟَﻬُﻢْ ﻋَﻦِ ﺍﻟﺘَّﺬْﻛِﺮَﺓِ ﻣُﻌْﺮِﺿِﻴﻦَ ○ ﻛَﺄَﻧَّﻬُﻢْ ﺣُﻤُﺮٌ ﻣُﺴْﺘَﻨْﻔِﺮَﺓٌ ○ ﻓَﺮَّﺕْ ﻣِﻦْ ﻗَﺴْﻮَﺭَﺓٍ○ (ﺍﻟﻤﺪﺛﺮ : ٤٩_٥٠_٥١)
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نصیحت سے اعراض کر رہے ہیں گویا کہ وہ بدکے ہوئے *گدھے* ہیں جو شیر سے بھاگ رہے ہیں
علم پر عمل نہ کرنے والے کی مثال نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس *چراغ* سے دی ہے جو لوگوں کو روشنی تو دیتا ہے لیکن خود جلتا ہے
نبی اکرم نے فرمایا
*"ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟْﻌَﺎﻟِﻢِ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻳُﻌَﻠِّﻢُ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺍﻟْﺨَﻴْﺮَ ﻭَﻳَﻨْﺴَﻰ ﻧَﻔْﺴَﻪ ﻛَﻤَﺜَﻞِ ﺍﻟﺴِّﺮِﺍﺝِ ﻳُﻀِﻲﺀُ ﻟِﻠﻨَّﺎﺱِ ﻭَﻳَﺤْﺮِﻕُ ﻧَﻔْﺴَﻪ*ُ (ﺻﺤﻴﺢ الجامع ٥٨٣١ )
"اس عالم کی مثال جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے اس چراغ کی سی ہے جو لوگوں کو روشنی دیتا ہے حالانکہ وہ خود جلتا ہے"
آج کچھ ایسے خطباء بھی پائے جاتے ہیں جو ممبر جیسی مقدس جگہ پر کھڑے ہو کر عوام کو نماز کی تلقین کرتے ہیں جب کہ وہ خود نماز کی پابندی نہیں کرتے ہیں
افسوس کہ وہ اس مقدس ممبر کی بھی لاج نہیں رکھ سکے جس پر چڑھنے کے لیے ہمارے اسلاف کتنی تیاری کرتے تھے
ایسے ہی خطیب، علامہ، مولانا، اور رعب جھاڑ مقرر کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
*"ﺭَﺃَﻳْﺖُ ﻟَﻴْﻠَﺔَ ﺃُﺳْﺮِﻱَ ﺑِﻲ ﺭِﺟَﺎﻟًﺎ ﺗُﻘْﺮَﺽُ ﺷِﻔَﺎﻫُﻬُﻢْ ﺑِﻤَﻘَﺎﺭِﻳﺾَ ﻣِﻦْ ﻧَﺎﺭٍ،ﻛُﻠَّﻤَﺎ ﻗُﺮِﺿَﺖْ ﺭَﺟَﻌَﺖْ، ﻓَﻘُﻠْﺖُ ﻟِﺠِﺒْﺮِﻳﻞَ ﻣَﻦْ ﻫَﺆُﻟَﺎﺀِ؟ ﻗَﺎﻝَ : ﻫَﺆُﻟَﺎﺀِ ﺧُﻄَﺒَﺎﺀُ ﻣِﻦْ ﺃُﻣَّﺘِﻚَ،ﻛَﺎﻧُﻮﺍ ﻳَﺄْﻣُﺮُﻭﻥَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺑِﺎﻟْﺒِﺮِّ ﻭَﻳَﻨْﺴَﻮْﻥَ ﺃَﻧْﻔُﺴَﻬُﻢْ ﻭَﻫُﻢْ ﻳَﺘْﻠُﻮﻥَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﺃَﻓَﻠَﺎ ﻳَﻌْﻘِﻠُﻮﻥَ"*
(السلسلة الصحيحة :٢٩١)
"میں نے اسراء (معراج) کی رات کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے جبڑے آگ کی کینچیوں سے چیرے جاتے تھے جب جب چیرے جاتے تھے وہ (دوبارہ) صحیح ہو جاتے تھے میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔۔؟ جبرئیل نے فرمایا یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے تھے اور خود اپنی ذات کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت بھی کرتے تھے کیا وہ سمجھتے نہیں تھے۔۔!"
اگر ہم اس میدان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی پر نظر دوڑائیں، ان کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ہماری طرح گفتار کے غازی نہیں تھے *بلکہ وہ کردار کے بھی غازی تھے* ان کے قول و فعل کے درمیان کوئی حد فاصل نہیں تھا وہ جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو سیکھتے تھے اس پر عمل پیرا ہو جاتے تھے
ایک صحابی نے فرمایا کہ
*"ﺃَﻧَّﻬُﻢْ ﻛَﺎﻧُﻮﺍ ﻳَﻘْﺘَﺮِﺋُﻮﻥَ ﻣِﻦْ ﺭَﺳُﻮﻝِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻋَﺸْﺮَ ﺁﻳَﺎﺕٍ ﻓَﻠَﺎ ﻳَﺄْﺧُﺬُﻭﻥَ ﻓِﻲ ﺍﻟْﻌَﺸْﺮِ ﺍﻟْﺄُﺧْﺮَﻯ ﺣَﺘَّﻰ ﻳَﻌْﻠَﻤُﻮﺍ ﻣَﺎ ﻓِﻲ ﻫَﺬِﻩِ ﻣِﻦْ ﺍﻟْﻌِﻠْﻢِ ﻭَﺍﻟْﻌَﻤَﻞ ﻗَﺎﻟُﻮﺍ ﻓَﻌَﻠِﻤْﻨَﺎ ﺍﻟْﻌِﻠْﻢَ ﻭَﺍﻟْﻌَﻤَﻞ"*َ (مسند احمد...حسن)
صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دس آیت سیکھتے تھے
اور وہ دوسری دس آتیں نہیں لیتے تھے جب تک کہ جان نہ لیتے کہ ان آیتوں میں علم و عمل کے کیا احکامات ہیں پھر کہتے تھے ہم نے علم و عمل کو جان لیا
ابو درداء رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں عمل بالعلم کے مسئلے میں قیامت کے دن ان کی گرفت نہ کی جائے اسی لیے وہ کہتے تھے
*"إنما أخشى من ربي يوم القيامة أن يدعوني على رؤوس الخلائق فيقول لي يا عويمر فأقول لبيك رب فيقول ما عملت فيما علمت"* رواه البيهقي
(صحيح الترغيب و الترهيب :١٢٩)
میں قیامت کے دن اپنے رب سے اس بات کا خوف کھاتا ہوں کہ وہ مجھے تمام مخلوق کے سامنے بلائے اور مجھ سے کہے اے عويمر۔۔!
اور میں کہوں حاضر ہوں اے رب۔۔۔!
پھر وہ پوچھ لے کہ *جو علم حاصل کیا اس میں کتنے پر عمل کیا؟*
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا
*"ﺍﻋﻤﻠﻮﺍ ﻣﺎ ﺷﺌﺘﻢ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﺗﻌﻠﻤﻮﺍ ﻓﻠﻦ ﻳﺄﺟﺮﻛﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﺎﻟﻌﻠﻢ ﺣﺘﻰ ﺗﻌﻤﻠﻮﺍ"*
(سنن الدارمی ٢٦٠)
"علم ہو جانے کے بعد جتنا ہو سکے عمل کرو اس لیے کہ اللہ رب العالمین تم کو علم کی وجہ سے ثواب نہیں دے گا جب تک کہ تم عمل نہ کرلو"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک شخص نے کہا میں لوگوں کو بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا چاہتا ہوں
آپ نے فرمایا : اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ و نصیحت کرو ورنہ اپنی ذات سے شروع کرو
پھر تینوں آیتیں تلاوت فرمائی
"ﺃَﺗَﺄْﻣُﺮُﻭﻥَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺑِﺎﻟْﺒِﺮِّ ﻭَﺗَﻨْﺴَﻮْﻥَ ﺃَﻧْﻔُﺴَﻜُﻢْ ﻭَﺃَﻧْﺘُﻢْ ﺗَﺘْﻠُﻮﻥَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﺃَﻓَﻼ ﺗَﻌْﻘِﻠُﻮﻥَ" [ ﺍﻟﺒﻘﺮﺓ 44: ] .
"ﻛَﺒُﺮَ ﻣَﻘْﺘﺎً ﻋِﻨْﺪَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺃَﻥْ ﺗَﻘُﻮﻟُﻮﺍ ﻣَﺎ ﻻ ﺗَﻔْﻌَﻠُﻮﻥَ" [ ﺍﻟﺼﻒ 3: ]
"ﻭَﻣَﺎ ﺃُﺭِﻳﺪُ ﺃَﻥْ ﺃُﺧَﺎﻟِﻔَﻜُﻢْ ﺇِﻟَﻰ ﻣَﺎ ﺃَﻧْﻬَﺎﻛُﻢْ ﻋَﻨْﻪُ" [ ﻫﻮﺩ : 88 ]
{ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻓﻲ ﺷﻌﺐ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ}
آج ہر طالب علم اور اساتذہ کو شکایت ہے کہ ان کا قوت حافظہ مفلوج ہو چکا ہے
یاد رکھیں قوت حافظہ کو مضبوط کرنے والی چیز علم پر عمل کرنا ہے
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا :
"العلم يهتف بالعمل فإن أجابه وإلا ارتحل"
علم عمل کو پکارتا ہے اگر وہ قبول کرے تو ٹھیک ورنہ وہ علم چلا جاتا ہے
آج عوام الناس علمائے دین کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں جوں ہی کسی عالم کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عمل اس کے علم کے مطابق نہیں ہے تو وہ پورے معاشرے میں ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں اور اس کو بدنام کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں
ایسے لوگ یاد رکھیں
بھلائی کا حکم دینا ایک واجب عمل ہے اور خود کرنا بھی۔
ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا قطعی طور پر درست نہیں ہے اس لیے کہ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا۔
آپ کو اپنی فکر کرنی چاہیے حضرت *عوام الناس۔۔۔۔!!!*
اس لیے کہ اس حدیث میں آپ بھی شامل ہیں
ﻻ ﺗﺰﻭﻝُ ﻗﺪَﻣﺎ ﻋﺒﺪٍ ﻳﻮﻡَ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔِ ﺣﺘَّﻰ ﻳﺴﺄﻝَ ﻋﻦ ﻋﻤﺮِﻩِ ﻓﻴﻤﺎ ﺃﻓﻨﺎﻩُ ، ﻭﻋﻦ ﻋِﻠﻤِﻪِ ﻓﻴﻢَ ﻓﻌﻞَ ، ﻭﻋﻦ ﻣﺎﻟِﻪِ ﻣﻦ ﺃﻳﻦَ ﺍﻛﺘﺴﺒَﻪُ ﻭﻓﻴﻢَ ﺃﻧﻔﻘَﻪُ ، ﻭﻋﻦ ﺟﺴﻤِﻪِ ﻓﻴﻢَ ﺃﺑﻼﻩُ
(صحيح الترمذي : 2417)
قیامت کے دن *بندے* کے پاؤں ہل بھی نہیں سکیں گے یہاں تک کہ اس سے اس کے عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ عمر کہاں گزاری؟
اس کے *علم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کتنا عمل کیا۔۔؟*،
اس کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟،
اس کے جسم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس کو کیسے استعمال کیا۔۔؟
*عمل تم خود نہیں کرتے*
*خدا کو کیا جواب دو گے؟*
اللہ ہم سب کو علم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
*متعلم :__________جامعہ سلفیہ، بنارس*
علم ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے بغیر انسان کی زندگی ناقص ہوتی ہے ایک انسان چاہے کتنا ہی مالدار ہو جائے لیکن اگر اس کے پاس علم کی دولت نہیں ہے تو لوگ اس کے اوپر "جاہل" ہونے کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں
لیکن یاد رکھیں۔۔۔!
صرف علم کافی نہیں بلکہ عمل بھی ضروری ہے
عمل کے بغیر علم آپ کے لیے قیامت کے دن وبال جان بن سکتا ہے
ایک انسان انتہائی بھوکا ہو اور بڑی جد و جہد کے بعد وہ کھانا حاصل کرلے لیکن اس کو کھائے نہ تو کیا اس کی بھوک ختم ہو جائے گی۔۔؟
علم ایک درخت ہے اور اس کا پھل عمل ہے
علم الاؤ کے مانند ہے اور اس کا ایندھن عمل ہے آپ جتنا ایندھن اس میں ڈالیں گے وہ اتنی ہی دیرپا ہو گا
آج ہمارا حال کیا ہے ۔۔۔؟
ہم جانتے تو بہت کچھ ہیں لیکن کیا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ہم نے کبھی سوچا کہ عملی صف میں ہم کہاں ہے۔۔؟
آج سوشل میڈیا پر دعاة کی کثرت ہے ہر ایک اپنے کو دوسرے سے بڑا داعی کہلوانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے
حتی کہ کسی کی تحریر کو ہر ایک اپنے نام سے شیئر کرتے ہیں
کس لیے۔۔۔؟
فقط اسی لیے نا کہ آپ کو سب سے بڑا داعی، مبلغ سمجھا جائے۔۔؟
اللہ تعالٰی نے اس شخص پر سخت تنقید کی جو دوسروں کو تو خیر کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا ہے
اللہ نے فرمایا
يا ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁَﻣَﻨُﻮﺍ ﻟِﻢَ ﺗَﻘُﻮﻟُﻮﻥَ ﻣَﺎ ﻟَﺎ ﺗَﻔْﻌَﻠُﻮﻥَ ○
ﻛَﺒُﺮَ ﻣَﻘْﺘًﺎ ﻋِﻨْﺪَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺃَﻥْ ﺗَﻘُﻮﻟُﻮﺍ ﻣَﺎ ﻟَﺎ ﺗَﻔْﻌَﻠُﻮﻥَ (الصف:٢_٣)
اے ایمان والو کیوں تم وہ بات کرتے ہو جو کرتے نہیں ہو
اللہ کے نزدیک یہ بات بڑی ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں ہو
*علم پر عمل نہ کرنے کی صفت تو یہودیوں کی ہے*
اللہ رب العالمین نے فرمایا
ﺃَﺗَﺄْﻣُﺮُﻭﻥَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺑِﺎﻟْﺒِﺮِّ ﻭَﺗَﻨﺴَﻮْﻥَ ﺃَﻧﻔُﺴَﻜُﻢْ ﻭَﺃَﻧﺘُﻢْ ﺗَﺘْﻠُﻮﻥَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﺃَﻓَﻼَ ﺗَﻌْﻘِﻠُﻮﻥَ (البقرة: ٤٤)
کیا تم(یہود) لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب (تورات) کی تلاوت (بھی) کرتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں ہو
علم پر عمل نہ کرنے والے کی تشبیہ اللہ نے *گدھے* سے دی ہے
اللہ کا فرمان ہے
ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺣُﻤِّﻠُﻮﺍ ﺍﻟﺘَّﻮْﺭَﺍﺓَ ﺛُﻢَّ ﻟَﻢْ ﻳَﺤْﻤِﻠُﻮﻫَﺎ ﻛَﻤَﺜَﻞِ ﺍﻟْﺤِﻤَﺎﺭِ ﻳَﺤْﻤِﻞُ ﺃَﺳْﻔَﺎﺭﺍً ﺑِﺌْﺲَ ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡِ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﺬَّﺑُﻮﺍ ﺑِﺂَﻳَﺎﺕِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻭَﺍﻟﻠَّﻪُ ﻟَﺎ ﻳَﻬْﺪِﻱ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡَ ﺍﻟﻈَّﺎﻟِﻤِﻴﻦَ (الجمعة:٥)
أن لوگوں کی مثال جن کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا *اس گدھے کی سی ہے* جو بہت سی کتابیں لادے ہوئے ہو ان لوگوں کی مثال کتنی بری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے
حتی کہ اللہ رب العالمین نے علم پر عمل نہ کرنے والے کو *کتے* کے مثل قرار دیا
کیا کہا اللہ نے
ﻭَﺍﺗْﻞُ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﻧَﺒَﺄَ ﺍﻟَّﺬِﻱَ ﺁﺗَﻴْﻨَﺎﻩُ ﺁﻳَﺎﺗِﻨَﺎ ﻓَﺎﻧﺴَﻠَﺦَ ﻣِﻨْﻬَﺎ ﻓَﺄَﺗْﺒَﻌَﻪُ ﺍﻟﺸَّﻴْﻄَﺎﻥُ ﻓَﻜَﺎﻥَ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﻐَﺎﻭِﻳﻦَ○
ﻭَﻟَﻮْ ﺷِﺌْﻨَﺎ ﻟَﺮَﻓَﻌْﻨَﺎﻩُ ﺑِﻬَﺎ ﻭَﻟَﻜِﻨَّﻪُ ﺃَﺧْﻠَﺪَ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻷَﺭْﺽِ ﻭَﺍﺗَّﺒَﻊَ ﻫَﻮَﺍﻩُ ﻓَﻤَﺜَﻠُﻪُ ﻛَﻤَﺜَﻞِ ﺍﻟْﻜَﻠْﺐِ ﺇِﻥ ﺗَﺤْﻤِﻞْ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻳَﻠْﻬَﺚْ ﺃَﻭْ ﺗَﺘْﺮُﻛْﻪُ ﻳَﻠْﻬَﺚ ﺫَّﻟِﻚَ ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟْﻘَﻮْﻡِ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﻛَﺬَّﺑُﻮﺍْ ﺑِﺂﻳَﺎﺗِﻨَﺎ (ألأعراف: ١٧٥_١٧٦)
لوگوں کو اس شخص کی خبر بتا دیجیے جس کو ہم نے اپنی آیات (کا علم) دیا تو وه ان (آیتوں) سے بالکل ہی پھر گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہ لوگوں میں سے ہو گیا اگر ہم چاہتے تو اس کو ان (آیتوں) کی وجہ بلند فرماتے لیکن وہ تو زمین (دنیا) کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی سو اس کی مثال اس *کتے* کی سی ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے گا اور اگر اس کو چھوڑ دے تب بھی وہ ہانپے گا یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سخت وعید سنائی ہے ایسے بیمار ڈاکٹرز کو جو صرف لوگوں کا علاج کر رہیں اور خود کو بھول گئے ہیں ایسے دعاة کو وعید سنائی ہے جو دعوت و تبلیغ کرتے ہیں لیکن خود اس کے خلاف کرتے ہیں
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يجاء بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتابه في النار فيطحن فيها كطحن الحمار برحاه فيجتمع أهل النار عليه فيقولون : أي فلان ما شأنك ؟ أليس كنت تأمرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر ؟ قال : كنت آمركم بالمعروف ولا آتيه وأنهاكم عن المنكر وآتيه " (متفق عليه)
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو جہنم میں اس کی انتڑیاں باہر آجائیں گی وہ جہنم میں چکر لگائے کا گدھے کے اپنے چکی کے ساتھ چکر لگانے کی طرح تو جہنمی لوگ اس کے پاس اکٹھا ہوں گے اور اس سے پوچھیں گے اے فلاں۔۔! کیا معاملہ ہے تیرا۔۔؟ کیا تو ہمیں بھلائی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا۔۔؟
وہ کہے گا میں تمہیں بھلائی کا حکم تو دیتا تھا لیکن خود اس کو نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے روکتا تھا اور خود اس کو کرتا تھا"
یہاں ایک نقطہ یاد رکھیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں "الرجل" کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں والدین، اساتذہ، پیر، فقیر اور مذہبی و سیاسی لیڈر سب شامل ہیں صرف علماء و داعیان حق اور مصلحین امت کو مراد نہیں لیا جا سکتا
ﻓَﻤَﺎ ﻟَﻬُﻢْ ﻋَﻦِ ﺍﻟﺘَّﺬْﻛِﺮَﺓِ ﻣُﻌْﺮِﺿِﻴﻦَ ○ ﻛَﺄَﻧَّﻬُﻢْ ﺣُﻤُﺮٌ ﻣُﺴْﺘَﻨْﻔِﺮَﺓٌ ○ ﻓَﺮَّﺕْ ﻣِﻦْ ﻗَﺴْﻮَﺭَﺓٍ○ (ﺍﻟﻤﺪﺛﺮ : ٤٩_٥٠_٥١)
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نصیحت سے اعراض کر رہے ہیں گویا کہ وہ بدکے ہوئے *گدھے* ہیں جو شیر سے بھاگ رہے ہیں
علم پر عمل نہ کرنے والے کی مثال نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس *چراغ* سے دی ہے جو لوگوں کو روشنی تو دیتا ہے لیکن خود جلتا ہے
نبی اکرم نے فرمایا
*"ﻣَﺜَﻞُ ﺍﻟْﻌَﺎﻟِﻢِ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﻳُﻌَﻠِّﻢُ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺍﻟْﺨَﻴْﺮَ ﻭَﻳَﻨْﺴَﻰ ﻧَﻔْﺴَﻪ ﻛَﻤَﺜَﻞِ ﺍﻟﺴِّﺮِﺍﺝِ ﻳُﻀِﻲﺀُ ﻟِﻠﻨَّﺎﺱِ ﻭَﻳَﺤْﺮِﻕُ ﻧَﻔْﺴَﻪ*ُ (ﺻﺤﻴﺢ الجامع ٥٨٣١ )
"اس عالم کی مثال جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے اس چراغ کی سی ہے جو لوگوں کو روشنی دیتا ہے حالانکہ وہ خود جلتا ہے"
آج کچھ ایسے خطباء بھی پائے جاتے ہیں جو ممبر جیسی مقدس جگہ پر کھڑے ہو کر عوام کو نماز کی تلقین کرتے ہیں جب کہ وہ خود نماز کی پابندی نہیں کرتے ہیں
افسوس کہ وہ اس مقدس ممبر کی بھی لاج نہیں رکھ سکے جس پر چڑھنے کے لیے ہمارے اسلاف کتنی تیاری کرتے تھے
ایسے ہی خطیب، علامہ، مولانا، اور رعب جھاڑ مقرر کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
*"ﺭَﺃَﻳْﺖُ ﻟَﻴْﻠَﺔَ ﺃُﺳْﺮِﻱَ ﺑِﻲ ﺭِﺟَﺎﻟًﺎ ﺗُﻘْﺮَﺽُ ﺷِﻔَﺎﻫُﻬُﻢْ ﺑِﻤَﻘَﺎﺭِﻳﺾَ ﻣِﻦْ ﻧَﺎﺭٍ،ﻛُﻠَّﻤَﺎ ﻗُﺮِﺿَﺖْ ﺭَﺟَﻌَﺖْ، ﻓَﻘُﻠْﺖُ ﻟِﺠِﺒْﺮِﻳﻞَ ﻣَﻦْ ﻫَﺆُﻟَﺎﺀِ؟ ﻗَﺎﻝَ : ﻫَﺆُﻟَﺎﺀِ ﺧُﻄَﺒَﺎﺀُ ﻣِﻦْ ﺃُﻣَّﺘِﻚَ،ﻛَﺎﻧُﻮﺍ ﻳَﺄْﻣُﺮُﻭﻥَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺑِﺎﻟْﺒِﺮِّ ﻭَﻳَﻨْﺴَﻮْﻥَ ﺃَﻧْﻔُﺴَﻬُﻢْ ﻭَﻫُﻢْ ﻳَﺘْﻠُﻮﻥَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﺃَﻓَﻠَﺎ ﻳَﻌْﻘِﻠُﻮﻥَ"*
(السلسلة الصحيحة :٢٩١)
"میں نے اسراء (معراج) کی رات کچھ ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے جبڑے آگ کی کینچیوں سے چیرے جاتے تھے جب جب چیرے جاتے تھے وہ (دوبارہ) صحیح ہو جاتے تھے میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔۔؟ جبرئیل نے فرمایا یہ آپ کی امت کے خطباء ہیں لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے تھے اور خود اپنی ذات کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت بھی کرتے تھے کیا وہ سمجھتے نہیں تھے۔۔!"
اگر ہم اس میدان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی پر نظر دوڑائیں، ان کی سیرت کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ہماری طرح گفتار کے غازی نہیں تھے *بلکہ وہ کردار کے بھی غازی تھے* ان کے قول و فعل کے درمیان کوئی حد فاصل نہیں تھا وہ جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو سیکھتے تھے اس پر عمل پیرا ہو جاتے تھے
ایک صحابی نے فرمایا کہ
*"ﺃَﻧَّﻬُﻢْ ﻛَﺎﻧُﻮﺍ ﻳَﻘْﺘَﺮِﺋُﻮﻥَ ﻣِﻦْ ﺭَﺳُﻮﻝِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻَﻠَّﻰ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻠَﻴْﻪِ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ ﻋَﺸْﺮَ ﺁﻳَﺎﺕٍ ﻓَﻠَﺎ ﻳَﺄْﺧُﺬُﻭﻥَ ﻓِﻲ ﺍﻟْﻌَﺸْﺮِ ﺍﻟْﺄُﺧْﺮَﻯ ﺣَﺘَّﻰ ﻳَﻌْﻠَﻤُﻮﺍ ﻣَﺎ ﻓِﻲ ﻫَﺬِﻩِ ﻣِﻦْ ﺍﻟْﻌِﻠْﻢِ ﻭَﺍﻟْﻌَﻤَﻞ ﻗَﺎﻟُﻮﺍ ﻓَﻌَﻠِﻤْﻨَﺎ ﺍﻟْﻌِﻠْﻢَ ﻭَﺍﻟْﻌَﻤَﻞ"*َ (مسند احمد...حسن)
صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دس آیت سیکھتے تھے
اور وہ دوسری دس آتیں نہیں لیتے تھے جب تک کہ جان نہ لیتے کہ ان آیتوں میں علم و عمل کے کیا احکامات ہیں پھر کہتے تھے ہم نے علم و عمل کو جان لیا
ابو درداء رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں عمل بالعلم کے مسئلے میں قیامت کے دن ان کی گرفت نہ کی جائے اسی لیے وہ کہتے تھے
*"إنما أخشى من ربي يوم القيامة أن يدعوني على رؤوس الخلائق فيقول لي يا عويمر فأقول لبيك رب فيقول ما عملت فيما علمت"* رواه البيهقي
(صحيح الترغيب و الترهيب :١٢٩)
میں قیامت کے دن اپنے رب سے اس بات کا خوف کھاتا ہوں کہ وہ مجھے تمام مخلوق کے سامنے بلائے اور مجھ سے کہے اے عويمر۔۔!
اور میں کہوں حاضر ہوں اے رب۔۔۔!
پھر وہ پوچھ لے کہ *جو علم حاصل کیا اس میں کتنے پر عمل کیا؟*
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا
*"ﺍﻋﻤﻠﻮﺍ ﻣﺎ ﺷﺌﺘﻢ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﺗﻌﻠﻤﻮﺍ ﻓﻠﻦ ﻳﺄﺟﺮﻛﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﺎﻟﻌﻠﻢ ﺣﺘﻰ ﺗﻌﻤﻠﻮﺍ"*
(سنن الدارمی ٢٦٠)
"علم ہو جانے کے بعد جتنا ہو سکے عمل کرو اس لیے کہ اللہ رب العالمین تم کو علم کی وجہ سے ثواب نہیں دے گا جب تک کہ تم عمل نہ کرلو"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک شخص نے کہا میں لوگوں کو بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا چاہتا ہوں
آپ نے فرمایا : اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ و نصیحت کرو ورنہ اپنی ذات سے شروع کرو
پھر تینوں آیتیں تلاوت فرمائی
"ﺃَﺗَﺄْﻣُﺮُﻭﻥَ ﺍﻟﻨَّﺎﺱَ ﺑِﺎﻟْﺒِﺮِّ ﻭَﺗَﻨْﺴَﻮْﻥَ ﺃَﻧْﻔُﺴَﻜُﻢْ ﻭَﺃَﻧْﺘُﻢْ ﺗَﺘْﻠُﻮﻥَ ﺍﻟْﻜِﺘَﺎﺏَ ﺃَﻓَﻼ ﺗَﻌْﻘِﻠُﻮﻥَ" [ ﺍﻟﺒﻘﺮﺓ 44: ] .
"ﻛَﺒُﺮَ ﻣَﻘْﺘﺎً ﻋِﻨْﺪَ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺃَﻥْ ﺗَﻘُﻮﻟُﻮﺍ ﻣَﺎ ﻻ ﺗَﻔْﻌَﻠُﻮﻥَ" [ ﺍﻟﺼﻒ 3: ]
"ﻭَﻣَﺎ ﺃُﺭِﻳﺪُ ﺃَﻥْ ﺃُﺧَﺎﻟِﻔَﻜُﻢْ ﺇِﻟَﻰ ﻣَﺎ ﺃَﻧْﻬَﺎﻛُﻢْ ﻋَﻨْﻪُ" [ ﻫﻮﺩ : 88 ]
{ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻓﻲ ﺷﻌﺐ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ}
آج ہر طالب علم اور اساتذہ کو شکایت ہے کہ ان کا قوت حافظہ مفلوج ہو چکا ہے
یاد رکھیں قوت حافظہ کو مضبوط کرنے والی چیز علم پر عمل کرنا ہے
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا :
"العلم يهتف بالعمل فإن أجابه وإلا ارتحل"
علم عمل کو پکارتا ہے اگر وہ قبول کرے تو ٹھیک ورنہ وہ علم چلا جاتا ہے
آج عوام الناس علمائے دین کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں جوں ہی کسی عالم کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عمل اس کے علم کے مطابق نہیں ہے تو وہ پورے معاشرے میں ڈھنڈورا پیٹنے لگتے ہیں اور اس کو بدنام کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں
ایسے لوگ یاد رکھیں
بھلائی کا حکم دینا ایک واجب عمل ہے اور خود کرنا بھی۔
ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا قطعی طور پر درست نہیں ہے اس لیے کہ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا۔
آپ کو اپنی فکر کرنی چاہیے حضرت *عوام الناس۔۔۔۔!!!*
اس لیے کہ اس حدیث میں آپ بھی شامل ہیں
ﻻ ﺗﺰﻭﻝُ ﻗﺪَﻣﺎ ﻋﺒﺪٍ ﻳﻮﻡَ ﺍﻟﻘﻴﺎﻣﺔِ ﺣﺘَّﻰ ﻳﺴﺄﻝَ ﻋﻦ ﻋﻤﺮِﻩِ ﻓﻴﻤﺎ ﺃﻓﻨﺎﻩُ ، ﻭﻋﻦ ﻋِﻠﻤِﻪِ ﻓﻴﻢَ ﻓﻌﻞَ ، ﻭﻋﻦ ﻣﺎﻟِﻪِ ﻣﻦ ﺃﻳﻦَ ﺍﻛﺘﺴﺒَﻪُ ﻭﻓﻴﻢَ ﺃﻧﻔﻘَﻪُ ، ﻭﻋﻦ ﺟﺴﻤِﻪِ ﻓﻴﻢَ ﺃﺑﻼﻩُ
(صحيح الترمذي : 2417)
قیامت کے دن *بندے* کے پاؤں ہل بھی نہیں سکیں گے یہاں تک کہ اس سے اس کے عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ عمر کہاں گزاری؟
اس کے *علم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کتنا عمل کیا۔۔؟*،
اس کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟،
اس کے جسم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس کو کیسے استعمال کیا۔۔؟
*عمل تم خود نہیں کرتے*
*خدا کو کیا جواب دو گے؟*
اللہ ہم سب کو علم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین