السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ
مشایخ
ایک خاتون جو کہ بیوہ ہے عدت گزار چکی ہے، پانچ گھنٹے کے سفر میں اپنی پھوپھو اور ان کے شوہر (جو کہ ساٹھ سال کے ہیں) کے ساتھ جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عورت کا بغیر محرم سفر کرنا جائز نہیں
عن ابي هريرة رضي الله عنهما، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر، ان تسافر مسيرة يوم وليلة ليس معها حرمة"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔(صحیح بخاری ،1088)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یحل لامرأۃ مسلمۃٍ تُسافر مسیرۃَ لیلۃٍ، إلا ومعہا رجلٌ ذو حُرمۃٍ منہا۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یحلُّ لامرأۃ تُؤمن باللّٰہ والیوم الآخر، تُسافر مسیرۃَ یومٍ، إلا مع ذي محرم۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یحل لامرأۃٍ تُؤمن باللّٰہ والیوم الآخر، تُسافر مسیرۃَ یومٍ ولیلۃٍ، إلا مع ذي محرمٍ علیہا۔
(صحیح مسلم، کتاب الحج / باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ ۱؍۴۳۳-۴۳۴ رقم: ۱۳۳۹-۴۱۹- ۴۲۰-۴۲۱ بیت الأفکار الدولیۃ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السفر بدون محرم للضرورة
تاريخ النشر : 16-10-2008
السؤال
زوجة صديق تحتاج للسفر من تونس إلى فرنسا ، حيث كانت تعيش مع عائلتها قبل الزواج ، حتى يتسنى لها حضور موعد للحصول على الجنسية الفرنسية ، حتى تستطيع فيما بعد زيارة عائلتها بدون مشاكل . علما بأن زوجها سيوصلها إلى المطار قبل السفر بالطائرة ، وأن أباها سيستقبلها في المطار عند الوصول . هل يجوز لها ذلك؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نص الجواب
الحمد لله
الأصل الذي قررناه في فتاوى عدة أنه لا يجوز للمرأة أن تسافر بلا محرم ، سواء كان السفر سفرَ قربة كالحج وزيارة الوالدين وبرهما ، أو سفراً مباحا لغير ذلك من الأغراض .
وقد دل على ذلك النص والاعتبار، فمن ذلك :
1- قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( لا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ إِلا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ وَلا يَدْخُلُ عَلَيْهَا رَجُلٌ إِلا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ فِي جَيْشِ كَذَا وَكَذَا وَامْرَأَتِي تُرِيدُ الْحَجَّ فَقَالَ اخْرُجْ مَعَهَا ) رواه البخاري ( 1862 ).
وروى مسلم ( 1339 ) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ إِلا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ ) وقد رويت أحاديث كثيرة في النهي عن سفر المرأة بلا محرم وهي عامة في جميع أنواع السفر .
2- ولأن السفر مظنة التعب والمشقة ، والمرأة لضعفها تحتاج لمن يؤازرها ويقف إلى جوارها ، وقد ينزل بها ما يفقدها صوابها ، ويخرجها عن طبيعتها ، في حال غياب محرمها ، وهذا مشاهد معلوم اليوم لكثرة حوادث السيارات وغيرها من وسائل النقل .
وأيضا : سفرها بمفردها يعرضها للإغراء والمراودة على الشر ، لاسيما مع كثرة الفساد ، فقد يجلس إلى جوارها من لا يخاف الله ، ولا يتقيه ، فيزين لها الحرام . فمن تمام الحكمة أن تصاحب محرما في سفرها ؛ لأن الهدف من وجود محرمها حفظُها وصيانتها والقيام بأمرها ، والسفر عرضة لوقوع الأشياء الطارئة بغض النظر عن المدة .
قال النووي رحمه الله : " فَالْحَاصِل أَنَّ كُلّ مَا يُسَمَّى سَفَرًا تُنْهَى عَنْهُ الْمَرْأَة بِغَيْرِ زَوْج أَوْ مَحْرَم " انتهى .
وقد حكى غير واحد من العلماء اتفاق الفقهاء على منع سفر المرأة بلا محرم ، إلا في مسائل مستثناة .
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله : " قال البغوي : لم يختلفوا في أنه ليس للمرأة السفر في غير الفرض ( الحج الواجب ) إلا مع زوج أو محرم ، إلا كافرة أسلمت في دار الحرب أو أسيرة تخلصت . وزاد غيره : أو امرأة انقطعت من الرفقة فوجدها رجل مأمون فإنه يجوز له أن يصحبها حتى يبلغها الرفقة " انتهى من "فتح الباري" (4/76).
وسفر المرأة إلى الحج الواجب بلا محرم ، اختلف العلماء في جوازه ، والصحيح من أقوال العلماء : أنه لا يجوز ، وسبق بيان ذلك في جواب السؤال رقم 34380
هذا هو الأصل في هذا الباب ، فليس للمرأة أن تسافر بلا محرم ، ويجب أن يصحبها المحرم خلال السفر كله ، ولا يكفي أن يوصلها زوجها إلى المطار ويستقبلها والدها في البلد الآخر ، لكن حيث وجدت الضرورة فلا حرج ؛ لأن الضرورات تبيح المحظورات .
وعليه ، فإذا كان حصول زوجة صديقك على الجنسية الفرنسية يرفع عنها ضررا معتبرا ، ولم يمكن لمحرمها مرافقتها في السفر ، فلا حرج أن تسافر بمفردها على النحو الذي ذكرت ، كما لا حرج أن تحصل على هذه الجنسية .
وقد سئل الشيخ ابن جبرين حفظه الله : " ما حكم سفر المرأة وحدها في الطائرة لعذر، بحيث يوصلها المحرم إلى المطار ويستقبلها محرم في المطار الآخر؟
الجواب:
لا بأس بذلك عند المشقة على المحرم ، كالزوج أو الأب ، إذا اضطرت المرأة إلى السفر ، ولم يتيسر للمحرم صحبتها ، فلا مانع من ذلك بشرط أن يوصلها المحرم الأول إلى المطار ، فلا يفارقها حتى تركب الطائرة ، ويتصل بالبلاد التي توجهت إليها ، ويتأكد من محارمها هناك أنهم سوف يستقبلونها في المطار ، ويخبرهم بالوقت الذي تَقْدُمُ فيه ورقم الرحلة .. لأن الضرورات لها أحكامها، والله أعلم وصلى الله على محمد وعلى آله وصحبه وسلم "
انتهى من "فتاوى ابن جبرين".
وينظر : سؤال رقم (14235) .
والله أعلم .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ:
ضرورت کے وقت بغیر محرم کے سفر کرنے کا حکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
سوال: میرے دوست کی بیوی کو تیونس سے فرانس جانے ضرورت ہے، وہ شادی سے پہلے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتی تھی، سفر کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ فرانسیسی شہریت حاصل کرنا چاہتی ہے تا کہ بعد میں اپنے گھر والوں سے ملنے کیلیے آنے جانے میں اسے کوئی مسئلہ نہ بنے، واضح رہے کہ اس کا خاوند ائیر پورٹ تک پہنچائے گا اور پھر لڑکی کا والد اسے ائیر پورٹ سے لے لے گا، تو کیا اس کیلیے ایسے سفر کرنا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
الحمد للہ:
متعدد فتاوی میں ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ عورت کیلیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، چاہے یہ سفر عبادت یعنی حج یا عمرے کیلیے اور والدین سے ملنے کیلیے ہو یا ان کے علاوہ دیگر جائز مقاصد کیلیے ہو۔
اس بات پر نصوص اور قیاس واضح طور پر دلالت کرتے ہیں:
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی سفر کرے، عورت کے پاس اجنبی شخص اسی وقت جائے جب اس کے ساتھ محرم ہو) تو ایک آدمی نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں معرکے کیلیے جانا چاہتا ہوں اور دوسری جانب میری بیوی حج پر جانا چاہتی ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنی بیوی کے ساتھ جاؤ)
بخاری: (1862) مسلم: (1339)
ایک اور حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی خاتون کیلیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایک دن کی مسافت محرم کے بغیر کرے)
اس بارے میں اور بھی بہت سی روایات مروی ہیں جن میں عورت کو بغیر محرم کے سفر سے روکا گیا ہے، اور ان تمام احادیث میں سفر کی تمام اقسام آتی ہیں۔
2- اور چونکہ سفر تھکاوٹ اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، اور عورت اپنی جسمانی کمزوری کے باعث ایسے سہارے کی محتاج ہوتی ہے جو اس کے برابر کھڑا ہو اور اس کی مدد کرے، کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ عورت فوری ضرورت پڑنے پر درست فیصلہ نہ کر پائے اور محرم کی عدم موجودگی میں غیر معمولی صورت حال پیدا ہو جائے ، جیسے کہ یہ چیز ٹریفک اور دیگر ذرائع سفر کے حادثات میں عام ہے۔
اسی طرح عورت اکیلے سفر کرے تو یہ آج کل کی گرتی ہوئی اخلاقی صورت حال میں خواتین کو فتنوں اور گناہوں کے درپے کرنے کے مترادف ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ عورت کے ساتھ ایسا شخص بیٹھ جائے جو اللہ کا ڈر اور خوف دل میں نہ رکھتا ہو اور لڑکی کو حرام کام خوشنما بنا کر دکھائے؛ اس لیے حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ خواتین محرم کے ساتھ سفر کریں؛ کیونکہ محرم کے ساتھ سفر کرنے کا مقصد عورت کو تحفظ دینا اور کسی بھی منفی اثرات سے بچانا اور عورت کی دیکھ بھال ہے، نیز سفر چھوٹا ہو یا لمبا دورانِ سفر ناگہانی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ بہت ہی قوی ہوتا ہے۔
شارح صحیح مسلم مشہور محدث علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: جسے بھی سفر کہا جائے گا اس سے عورت کو بغیر خاوند یا محرم کے سفر کرنے سے روکا جائے گا" انتہی
متعدد اہل علم نے فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ عورت کیلیے محرم کے بغیر سفر کرنا منع ہے، ما سوائے چند مسائل کے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عورت فرائض کی ادائیگی [مثلاً: فرض حج] کیلیے کئے جانے والے سفر کے علاوہ کسی بھی سفر کیلیے محرم یا خاوند کے ساتھ سفر کرے گی، اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، البتہ کوئی غیر مسلم خاتون کسی دار الحرب میں مسلمان ہو جائے یا ان کی قید سے آزاد ہو جائے تو وہ اکیلی سفر کر سکتی ہے" اس پر دیگر اہل علم نے اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: اگر کوئی خاتون اپنے رفقا ءسے بچھڑ جائے اور اسے کوئی قابل اعتماد شخص ملے تو وہ ان کے ساتھ اپنے رفقاء تک پہنچ سکتی ہے" انتہی
"فتح الباری" (4/76)
اور فرض حج کی ادائیگی کیلیے عورت کا اکیلے بغیر محرم کے سفر کرنے پر علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ علمائے کرام کے صحیح موقف کے مطابق عورت کیلیے یہ سفر بھی اکیلے کرنا جائز نہیں ہے۔
اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (34380) میں گزر چکی ہیں۔
اس لیے اس مسئلے میں اصل یہی ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے، اور پورے سفر میں محرم کا ساتھ رہنا لازمی ہے، چنانچہ یہ کافی نہیں ہو گا کہ خاوند بیوی کو ائیر پورٹ تک پہنچا دے اور دوسرے ملک میں والد اسے لے لے ، لیکن جہاں اس چیز کی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ضرورت ناجائز امور کو جائز بنا دیتی ہے۔
اس بنا پر اگر آپ کے دوست کی اہلیہ کیلیے فرانسیسی شہریت کا حصول بہت سی پریشانیوں کے زائل ہونے کا سبب بن سکتا ہے لیکن اس کا محرم اس کے ساتھ سفر نہیں کر سکتا تو پھر اکیلی اسی انداز سے سفر کر سکتی ہے جیسے آپ نے ذکر کیا ہے، اسی طرح اس کیلیے فرانسیسی شہریت حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی عذر کی بنا پر عورت کیلیے جہاز میں اکیلے سفر کرنے کا کیا حکم ہے؟ کہ ایک محرم عورت کو جہاز پر بیٹھا دے گا اور دوسرا محرم ائیر پورٹ سے اسے لے لے گا"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر محرم کیلیے اس میں مشقت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ اگر عورت کو سفر کی اشد ضرورت ہے اور کوئی محرم اس کے ساتھ جانے والا نہیں ہے تو اس میں ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ ایک محرم اسے ائیر پورٹ تک پہنچائے اور جہاز میں سوار ہونے تک اس کے ساتھ ہی رہے، پھر جہاں انہوں نے سفر کرنا ہے وہاں پر رابطہ کرے اور اطمینان کر لے کہ اس کے محرم اسے لینے کیلیے ائیرپورٹ پر پہنچ رہے ہیں ، انہیں پہنچنے کا وقت اور فلائٹ نمبر بتلا دے؛ کیونکہ اشد ضرورت کے وقت احکام کچھ خاص ہوتے ہیں، واللہ اعلم، اللہ تعالی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے" انتہی
ماخوذ از: "فتاوى ابن جبرين"
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (14235) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ: الاسلام سوال و جواب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فتوی شیخ ابن بازؒ
المسافة التي يحرم على المرأة الخروج دون محرم
السؤال: ما هي المسافة التي سمح بها الشرع لخروج المرأة وحدها دون محرم؟ وكيف التوفيق بين الروايات التي جاءت تحدد المسافة بثلاثة أيامٍ في إحدى الروايات، ويومين في روايةٍ أخرى، ويومٍ واحد في رواية ثالثة، وما مقدار مسيرة اليوم بالكيلو متر؟
سوال :۔عورت کتنی مسافت تک بغیر محرم سفر کرسکتی ہے ؟
اور ذخیرہ حدیث میں مروی مختلف احادیث جو بغیر محرم سفر کی مسافت کی تحدید میں وارد ہیں ان میں باہم توفیق و تطبیق کیسے دی جائے گی ،مثلاً کسی روایت میں تین دن ہیں ،تو کسی روایت میں دو دن ،اور ایک روایت میں ایک دن ،تو ان میں موافقت کیسے دیجائے گی ؟
اور احاڈیث میں منقول ایک دن کی مسافت کلومیٹر میں کتنی ہوگی ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب: القاعدة في هذا هو أن ما يسمى سفراً؛ ليس لها الخروج إليه إلا بمحرم، كل ما يسمى سفر ليس لها أن تسافر إلا بمحرم، لقوله ﷺ: لا تسافر امرأة إلا مع ذي محرم وفي رواية: مسيرة يوم وليلة وفي رواية: مسيرة يوم وفي بعضها: مسيرة ليلة وفي بعضها: مسيرة ثلاثة أيام وفي بعضها: مسيرة بريد والبريد: نصف يوم،
شرعی لحاظ سے اس مسئلہ کا قاعدہ یہ ہے کہ گھر اور شہر سے باہر جانے میں جس مسافت کو سفر کہا جائے اتنی مسافت عورت بغیر محرم نہیں جاسکتی ، اس کی دلیل پیغمبر گرامی ﷺ کا ارشاد ہے کہ : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (
لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ ) . رواہ البخاري (1729) ومسلم (2391) "کوئی بھی عورت بغیر محرم سفر نہ کرے "
اور ایک روایت میں فرمایا : "کوئی بھی عورت بغیر محرم ایک دن اور ایک رات کا سفر نہ کرے "
اور ایک دوسری روایت میں فرمایا : "کوئی بھی عورت بغیر محرم ایک بُرید کاسفر نہ کرے " اور ایک برید نصف دن کے سفر کو کہاجاتا ہے ،
قال العلماء رحمة الله عليهم في هذا: أن هذا اختلف بحسب أسئلة السائلين، فبعض السائلين يقول: إذا أرادت المرأة أن تسافر مسيرة يوم، هل لها الخروج؟ فيقول النبي ﷺ: لا تسافر مسيرة يوم، وسائل آخر يقول: ليلة، وسائل آخر يقول: ثلاثة أيام، فأجابه النبي ﷺ على حسب الأسئلة.
ويحتمل أنه ﷺ أجاب بذلك على حسب ما نزل من الوحي، ثم خفف الله جل وعلا في ذلك، فأذن في السفر فيما كان لا يسمى سفرًا، ومنع ما كان يسمى سفرًا.
فالحاصل: أن التحديد قد يكون للأسئلة، وقد يكون أن الله جل وعلا منع من مسيرة بريد، ثم منع مسيرة يوم وليلة، ثم مسيرة ثلاثة أيام، لحكمةٍ بالغة، ولكن حمل ذلك على أن المقصود هو ما يسمى سفر، هو مطابق للأدلة الشرعية، ولهذا في الروايات الأخرى الصحيحة في الصحيحين لم يقيد، بل قال: لا تسافر امرأة إلا مع ذي محرم وأطلق، كما في الصحيح من حديث ابن عباس رضی اللہ عنہ، وهذا يجمع الروايات كلها، فكل شيءٍ يسمى سفر، وأقله نصف يوم، وهو البريد، فلا تسافر إليه؛ لأنها عرضة ٌللشر والفساد والخيانة.
ترجمہ :
مختلف احادیث میں عورت کے سفر بلا محرم کیلئے جو مختلف مقدار سفر بتائی گئی ہے تو اس کی وجہ اس مسئلہ کے سائلین کے سوالوں کے مختلف ہونے کے سبب ہے ،مثلاً کسی نے سوال کیا کہ کیا عورت ایک دن کا سفر محرم کے بغیر کرسکتی ہے یا نہیں ؟ تو اسے ایک دن کے متعلق بتایا گیا ، کسی نے تین دن کے سفر کے متعلق سوال کیا تو تین دن کے بغیر محرم سفر کا شرعی حکم بتایا ، اور پھر جس مسافت کو سفر کہا جائے اس مقدار کی دوری پر بغیر محرم سفر سے روک دیا "
اور یہ احتمال بھی ہے کہ جیسا وحی میں حکم نازل ہوتا تھا ویسے ہی جواب عطا فرماتے تھے ، پھر گھٹتے گھٹتے عورت کے بغیر محرم باہر نکلنے کی دوری یہ بتائی کہ جسے سفر نہ کاجاسکے اتنی دور تک جاسکتی ہے ، اور جس دوری کو سفر کہا جاسکے اتنی مسافت تک بغیر جانے کو منع فرمادیا ،
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ :مختلف احادیث میں وارد حد ِ سفر کی مختلف مقدار اور تحدید حسبِ سوالات مختلف ہے ،
اور مقدار سفر مختلف ہونے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ :اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک برید سفر بھی بغیر محرم کرنے سے منع فرمایا ،پھر ایک دن اور رات کا سفر بدوں محرم کرنے سے روکا ،پھر تین دن کی مسافت سے منع فرمایا ،یہ سب اس کی حکمت بالغہ و کاملہ کی بنا پر تھا ،
لیکن بالآخر اتنی مسافت جسے سفر کا نام دیا جاسکے (جو کہ نصف یوم ہے ) اس مسافت پر بھی عورت محرم کے بغیر نہ جائے یہ شرعی دلائل کے عین مطابق ہے ، کیونکہ صحیحین میں مروی کچھ صحیح احادیث میں سفر کی مقدار اور حد کی قید نہیں، بلکہ ان میں فرمایا کہ : ل
ا تسافر امرأة إلا مع ذي محرم " کوئی بھی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے "
فلا ينبغي لها أن تخاطر بسفرها من دون محرم، والمحرم زوجها وهكذا من تحرم عليه على التأبيد في نسب، كأخيها وأبيها، أو لرضاع كأخيها من الرضاعة وعمها من الرضاعة ونحو ذلك.
اس لئے کسی عورت کیلئے بغیر محرم سفر کرنا جائز نہیں ، اور محرم سے مراد اس کا خاوند اور نسب کے سبب اس پرابدی حرام رشتہ دار جیسے بھائی ،والد ،اور رضاعی حرام رشتہ دار جیسے رضاعی بھائی ،رضاعی چچا وغیرہم،
واليوم والليلة بالكيلو ثمانين كيلو تقريبًا، خمسة وسبعين كيلو تقريباً، ونصف اليوم بالكيلو، أربعين كيلو تقريبًا، يعني: يوم وليلة؛ لأنه أربعة وعشرين ساعة، نصفها اثنا عشر ساعة بالكيلو أربعين كيلو تقريبًا.
فينبغي لها أن تبتعد عما يقارب هذا المعنى، وهو نصف يوم، يعني: أربعين كيلو تقريبًا.
اور احادیث میں منقول ایک دن اور ایک رات کا سفرتقریباً پچھتر (75 ) یا اسی (80) کلومیٹر بنتا ہے ، اور نصف یوم (بارہ گھنٹے ) کا سفر چالیس کلومیٹر کے قریب بنتا ہے ۔
وأما الشيء العادي في البلد وأطراف البلد فلا يحتاج إلى محرم، إذا كانت مع من تطمئن إليه من النساء، أو كانت في محلٍ آمن، وقرية آمنة لا تخشى شيئاً، فلا بأس أن تخرج في أطراف البلد، وحاجات البلد، ومن بيت إلى بيت، ولو كان كيلو كيلوين ثلاثة أربعة كل هذا لا يضر، إذا كان الأمن متوفراً ولا خطر في ذلك، وليس هناك ريبة. نعم.
المقدم: جزاكم الله خيرًا.
اس فتوی کا لنک