کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
بے ریاست و بے ملک و قوم
ایک ایسی لڑکی شمیمہ بیگم کی کہانی جو ۲۰۱۵ میں اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ لندن سے براستہ ترکی سے شام پہنچیں اور داعش کا حصہ بنیں، شمیمہ بیگم بنگادیشی نژاد برطانوی شہری تھی جو ۱۵ سال کی عمر میں اپنی بہن کے پاسپورٹ پر شام پہنچی کیونکہ انڈر ایج یہاں سے اکیلا سفر نہیں کر سکتا۔ اس وقت شمیمہ بیگم شام کے حراستی مرکز میں ہے۔
وہاں پہنچتے کسی ہالینڈ نیشنل جو نومسلم سے اس کی شادی کر دی گئی۔ اسی دوران ۲ بچے بھی ہوئے جو وفات پا گئے، اب چند ہفتوں پہلے یہ دوبارہ سامنے آئی جب یہ پھر ماں بننے والی تھی اور اس نے برطانوی حکومت سے برطانیہ آنے پر درخواست کی کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کا تیسرا بچہ برطانیہ میں پیدا ہو جس پر یہاں سے جو بھی داعش کا حصہ بنا ان کی سیٹیزن شپ اسی وقت کینسل کر دی گئی تھیں، شمیمہ بیگم کے سامنے آتے ہی ان کو کینلیشن لیٹر شام کے کیمپ میں تھکا دیا گیا،
اس کے ہاں پھر تیسرا بچہ پیدا ہوا اور اس نے پھر درخواست کی کہ میرا بیٹا برطانوی شہری ہے اس لئے اسے وہاں آنے کی اجازت دی جائے جس پر ایک طویل سٹوری ہے، بنگلہ دیش بھیجنے کے حوالہ سے بھی بنگلہ دیش حکومت نے بھی کہا کہ داعش والوں کے لئے ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں اسے ہم اپنے ملک میں بھی نہیں آنے دیں گے۔ اسی دوران برطانیہ میں بھی اس کی فیملی کے ایک ایک فرد نے ہوم سیکریٹری کو اپیلز بھی کیں مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا۔
اسی طرح اس کا تیسرا بچہ بھی ۳ ہفتہ بعد ایک دن پہلےانتقال فرما گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون
شمیمہ بیگم نے جو بھی کیا اور کب منظر عام پر آئی تو ہر انٹرویو میں اس نے یہی فوکس رکھا کہ مجھے اپنے کئے پر کوئی بچتاوا نہیں، اس سوال کے جواب پر اگر خاموشی ہی اختیار کرتی تو بہتر تھا۔ بے وطن اور حراستی مرکز میں ہے اس کے ساتھ ایک سہیلی بمبار میں رخصت ہوئی اور دوسری سہیلی کا اسے نہیں معلوم کہ زندہ ہے یا نہیں، خاوند اس کا بھی شام کی کسی جیل میں ہے۔ شمیمہ بیگم کا مستقبل کیا ہو گا، اللہ اس کے حال پر رحم فرمائے اور والدین کو اپنی اولاد کی ہر نقل و حرکت کا علم ہونا چاہئے کہ کسی کو دوبارہ ایسا نہ بننا پڑے۔
اس وقت برطانیہ کے ہوم سکریٹری ساجد جاوید جو پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں اور تنقید کی ضد میں ہیں لیکن یہ قوانین کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا، اور اگر کورٹ میں بھی درخواست کی جائے تو کچھ نہیں ہو سکتا اگر بچہ زندہ رہتا تو بھی ۲ سال میں بچہ پر فیصلہ ہونا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں رہا۔