• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نماز شخص کا حکم

شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
782
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
69
جو شخص مسلمانوں کے معاشرے میں رہتے ہوئے نماز کےوجوب کا انکار کرتا ہے وہ بالاجماع کافر اور مرتد ہے، اس سے امام توبہ طلب کرے گا اگر وہ توبہ کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے مرتد ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا اور اس پر مرتدین کے تمام احکامات لاگو ہوں گے۔

اگر وہ نیا مسلمان ہوا ہےیا وہ کسی ایسے علاقے میں رہتا تھا جو مسلمانوں سے بہت دور ہے، اور ممکن ہو کہ اسے اسلام میں نماز کے واجب ہونے کا پتہ نہ ہو تو اسے نماز کے وجوب کا انکار کرنے پر کافر قرار نہیں دیا جائے گا بلکہ اسے پہلے قرآن وسنت کے دلائل سے نمازکے وجوب کے بارے میں آگاہ کیا جائے گااگر وہ نماز کے وجوب کی معرفت ہونے کے بعد اس کےوجوب کا انکاری ہو گا تو وہ مرتد کہلائے گا۔

وہ شخص جو نماز کےوجوب کا قائل ہے لیکن جان بوجھ کر سستی کرتے ہوئے نماز نہیں پڑھتا وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، اللہ تعالی کے ہاں نماز چھوڑنا قتل کرنے، ناحق مال کھانے، زنا، چوری، شراب پینے سے بھی بڑا جرم ہے۔ بے نماز کے لیےدنیا وآخرت میں رسوائی اور ذلت ہے وہ اللہ تعالی کے عذاب کا مستحق ہے۔ ایسے شخص کا دنیا میں کیا حکم ہےاس بارے میں علماء کرام کے دو اقوال ہیں:

1- بےنماز اللہ تعالی کی نافرمانی اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے لیکن وہ کافر نہیں ہے، امام ثوری، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور جمہور علما ء کرام کا یہی قول ہے۔

2- بے نماز کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، یہ عمر بن خطاب، معاذ بن جبل، عبدالرحمن بن عوف، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور امام سعید بن جبیر، امام شعبی، امام نخعی، امام اوزاعی، امام ابن المبارک، امام اسحاق بن راہویہ اور امام احمد رحمہم اللہ کا قول ہے۔

پہلے قول کے دلائل:

ارشادباری تعالی ہے:


1- إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (النساء: 48)

’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقینا اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔‘‘

مندرجہ بالا آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی شرک کےعلاوہ تمام گناہوں کو معاف کر دے گا، نماز چھوڑنے والا بھی اس عموم میں داخل ہے لہذا وہ کافر نہیں ہے۔

2- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی سچے دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں تو اللہ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری: 128)

مندرجہ بالا حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ جو شخص لاالہ الااللہ پڑھ لے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔

3- (روز قیامت ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فرشتوں نے سفارش کی، اب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا، تو وہ آ ‎گ سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو اس میں سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا، اور وہ (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، پھر وہ انہیں جنت کے دہانوں پر (بہنے والی) ایک نہر میں ڈال دے گا، جس کو نہر حیات کہا جاتا ہے، وہ اس طرح (اُگ کر) نکل آئیں گے جس طرح (گھاس کا) چھوٹا سا بیج سیلاب کے خس و خاشاک میں پھوٹتا ہے (صحیح مسلم: 183)

مندرجہ بالا حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ اللہ تعالی جہنم سے ایسے افراد بھی نکالے گا جنہوں نے کبھی کوئی خیر کا کام کیا ہی نہیں ہوگا۔

4- اس قول کے قائلین نے ا ن نصوص کو جو بےنماز کے کفر پر دلالت کرتی ہیں کفر اصغر پر محمول کیا ہے، یعنی یہ کام کافروں والا ہے ،اس سے انسان دائرہ اسلام سےخارج نہیں ہوتا۔

دوسرے قول کی دلیل:

1- سيدنا جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک آدمی اورشرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز کا ترک ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 82)

2- سيدنا بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور منافقین کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے۱؎ تو جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا‘‘۔ (سنن ترمذى: 2621)

3- حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں صاف کردہ چمڑے میں تھوڑا سا سونا بھیجا جو ابھی مٹی سے علیحدہ نہیں کیا گیا تھا۔ آپ نے اسے چار اشخاص عیینہ بن بدر، ارقع بن حابس، زید الخلیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل میں تقسیم کر دیا۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا: ہم ان لوگوں سے اس سونے کے زیادہ حق دار تھے۔ نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’تم لوگ مجھ پر اعتماد نہیں کرتے، حالانکہ اس پروردگار کو مجھ پر اعتماد ہے جو آسمانوں پر ہے اور صبح و شام میرے پاس آسمانی خبر آتی رہتی ہے۔‘‘ اس دوران میں ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئیں، رخسار پھولے ہوئے، پیشانی ابھری ہوئی، گھنی داڑھی، سر منڈا اور اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ڈریں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو ہلاک ہو جائے! کیا میں روئے زمین کے لوگوں میں اللہ سے ڈرنے کا زیادہ حق دار نہیں ہوں؟‘‘ پھر وہ شخص چلا گیا تو حضرت خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، شاید وہ نماز پڑھتا ہو گا۔‘‘ حضرت خالد ؓ نے کہا: بہت سے نمازی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ منہ سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کسی کے دل ٹٹولنے یا پیٹ چیرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘ پھر آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا اور فرمایا: ’’یقینا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ کتاب اللہ کی تلاوت سے ان کی زبانیں تر ہوں گی، حالانکہ وہ (کتاب) ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گی۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے پار نکل جاتا ہے۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’اگر میں ان کو پاؤں تو انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کروں۔‘‘ (صحیح البخاری: 4351)

مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے بارے میں یہ کہہ کر قتل کرنے سے منع کر دیا کہ شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔

4- عبداللہ بن شقیق عقیلی کہتے ہیں: صحابہ کرام ؓ نماز کے سواکسی عمل کے چھوڑدینے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔ (سنن ترمذی: 2622)

راجح:

شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حوالے سے رقمطراز ہیں:


اگرکوئی شخص نماز كا اقرار اور اس كى فرضيت كا اعتقاد ركھتا ہے تو يہ ممكن ہى نہيں كہ وہ قتل ہونے تك ترك نماز پر اصرار كرے، اسلامی تاریخ ميں ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، یعنی ایسا کبھی نہیں ہواکہ کسی شخص کو كہا جائےكہ اگر تم نے نماز ادا نہ كى تو تمہيں قتل كر ديا جائيگا، اور وہ نماز كى فرضيت كا اعتقاد ركھتے ہوئے ترك نماز پر اصرار كرے، ايسا اسلامی تاریخ ميں كبھى نہيں ہوا۔ جب کوئی شخص اس حد تک چلا جائے کہ اسے قتل کر دیا جانا منظور ہو لیکن نماز پڑھنا منظور نہیں، تو وہ حقیقت میں باطنی طور پر نماز کی فرضیت کو مانتا ہی نہیں ہےاور اس کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔اور اس حوالہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے متعدد آثار موجود ہیں۔ (بتصرف یسیر)

(مجموع الفتاوى از ابن تيميہ، جلد نمبر: 22 ، صفحہ نمبر: 47 - 49 )

وہ بے نماز کافر ہے جو نماز کے وجوب کا اقرار کرنے کےباوجود کبھی نماز نہ پڑھتا ہو، رہے وہ لوگ جو کبھی نماز پڑھ لیتے ہیں اور کبھی چھوڑ دیتےہیں وہ مذکورہ بالا احادیث میں ذکر کردہ وعید میں تو شامل ہیں لیکن انہیں کافر نہیں کہا جائےگا۔ (مجموع الفتاوى از ابن تيميہ، جلد نمبر: 22 ، صفحہ نمبر: 49 )
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
546
ری ایکشن اسکور
169
پوائنٹ
77
سيدنا جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک آدمی اورشرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز کا ترک ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 82)

2- سيدنا بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے اور منافقین کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے۱؎ تو جس نے نماز چھوڑدی اس نے کفر کیا‘‘۔ (سنن ترمذى: 2621)
ان احادیث میں کفر و شرک سے مراد کفر اکبر ہے یا کفر اصغر اس تعلق سے شیخ بن باز فرماتے ہیں :

«بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلاة» رواه مسلم في صحيحه.

والكفر والشرك إذا عرف فالمراد به الكفر الأكبر والشرك الأكبر، ولقوله صلى الله عليه وسلم: «العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر » وهذا هو الأرجح، وأصح القولين أنه يكفر كفرا أكبر - نعوذ بالله - ولو ما جحد وجوبها، سواء تركها كلها أو ترك الفجر أو الظهر أو العصر أو تارة يصلي وتارة لا يصلي يكفر بذلك وعليه أن يجدد توبة نصوحا.

وذهب الأكثرون من الأئمة الأربعة من المالكية والحنفية والشافعية إلى عدم كفره، وأنه كفر أصغر وشرك أصغر، وهو قول جماعة من الحنابلة أيضا، ولكن الصواب الأول، أنه كفر أكبر؛ لأن الأدلة الشرعية تدل على كفره؛ لأنها عمود الإسلام


[فتاوى نور على الدرب لابن باز، ج: ٦، ص: ٢٧]
 
Top