محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بے نماز کا روزہ قبول نہيں !!!
الحمد للہ :
تارک نماز کے روزے قبول نہیں بلکہ اس کا کوئي عمل بھی قبول نہيں ہوتا کیونکہ نمازترک کرنا کفر ہے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( شرک وکفر اوربندے کے مابین حد فاصل نماز ترک کرنا ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 82 ) ۔
آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 5208 ) کے جواب کا مطالعہ کریں
اوراس لیے کہ بھی کافر کا توکوئی بھی عمل قابل قبول نہیں اس کی دلیل فرمان باری تعالی ہے :
{ اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ کردیا }
الفرقان ( 23 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :
{ یقینا تیری طرف بھی اورتجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئي ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرے عمل ضائع ہوجائنگے ، اوریقینا تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا }
الزمر ( 65 ) ۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی عصر کی نماز ترک کی اس کے اعمال ضائع ہوگئے )
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 553 ) ۔
بطل عملہ کا معنی ہے کہ اس کے اعمال باطل ہوگئے اس کا کوئي فائدہ نہیں ہوگا ۔
یہ حدیث اس پردلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی تارک نماز کا کوئي عمل بھی قبول نہيں کرتا ، لھذا تارک نماز کواس کا کوئي بھی عمل فائدہ نہيں دے گا ، اورنہ ہی اس کا عمل اللہ تعالی کی جانب اٹھایا جاتا ہے ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے معنی میں کہتے ہيں :
حدیث سے ظاہرہوتا ہے کہ نماز ترک کرنے کی دو قسمیں ہیں :
کلی طور پر نماز ترک کرنا اوربالکل کبھی بھی نماز نہ پڑھنا ، اس وجہ سے اس کے سارے اعمال تباہ ہوجاتے ہیں ۔
دوسری قسم یہ ہے کہ کسی معین نماز کو معین دن میں ترک کیا جائے ، اس سے اس دن کے اعمال ضائع ہوجاتے ہيں ۔
لھذا عمومی طور پر اعمال کا ضائع ہونا ترک عام کے مقابلہ میں ہے اورمعین ضیاع ترک معین کے مقابلہ میں ہے ۔ ا ھـ دیکھیں کتاب الصلاۃ صفحہ ( 65 ) ۔
ہم سوال کرنے والی کونصیحت کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کےہاں توبہ کرے اوراپنے کیے پر نادم ہو کہ اس نے اللہ تعالی کے حق میں کوتاہی کی ہے ، اوراپنے آپ کو اللہ تعالی کے غضب اورغصہ وسزا کا سزاوار بنایا ہے ۔
اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا اوراس کے گناہ معاف کردیتا ہے بلکہ وہ تو اپنے بندے کی توبہ سے بہت زيادہ خوش ہوتا ہے ،
اورپھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کرنے والے کوخوشخبری دی ہے کہ :
( گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہے جیسے اس کا کوئي گناہ نہیں )
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4250 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابن ماجہ ( 3424 ) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔
لھذا غسل اورنماز کی ادائيگي میں جلدی کریں تا کہ ظاہری اورباطنی دونوں طہارتیں جمع ہوسکیں ، اورتوبہ کومؤخر نہ کرے کہ وہ کہتی رہے میں کل یا پھر پرسوں توبہ کرلوں گی ، کیونکہ انسان کو علم نہيں کہ کب اورکہاں اس کی موت آجائے ، لھذا ندامت سے قبل ہی توبہ کرلیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی ، ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ، اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اورشیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے } الفرقان ( 27 - 29 ) ۔
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/37820