کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
تارکینِ وطن ورکروں کی توہین مت کریں!
اتوار 27 دسمبر 2015مکالم: خالد المعینا
ایک مقامی روزنامے میں ایک مضمون میں سعودی عرب کے ریٹیل سیکٹر (پرچون کاروبار) میں غیر ملکی تارکین وطن کے بڑھتے ہوئے کنٹرول کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے مصنف سعد الدوسری نے اس حقیقت کا رونا رویا ہے کہ پرچون مارکیٹوں پر غیر ملکی تارکینِ وطن کا کنٹرول ہے اور انھوں نے لکھا ہے کہ بیشتر غیرملکی ورکر غیر قانونی ہیں یا ان کے پاس سعودی عرب میں کام کے لیے ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔
ان صاحب نے لکھا ہے: ''غیر ملکی تارکین وطن ورکر ایک ''وائرس'' ہیں''۔ انھوں نے سوال اٹھایا ہے کہ وزارت داخلہ کی مہم اس ''لعنت'' کے خاتمے میں کیوںکر کامیاب نہیں ہو سکی ہے؟
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ پرچون کے کاروبار پر غیرملکی تارکین وطن کے کنٹرول سے سعودی شہریوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع ختم ہو کر رہ گئے ہیں اور اس کے سعودی مملکت کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
عربی پریس کے مشاہدے کے بعد میں نے یہ نوٹس لیا ہے کہ وقتاً فوقتاً بعض لکھاری غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف منفی اور نسل پرستانہ تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان صحافیوں کے پاس لکھنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا اور ان کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے کہ ان کا نام صرف چھپنا چاہیے یا پھر وہ کچھ بھی سوچتے نہیں ہیں کہ کیا لکھا جائے۔ تاہم ان پر یہ بات واضح کر دی جانی چاہیے کہ ''وائرس'' جیسی اصطلاحیں نسل پرستی کے زمرے میں آتی ہیں۔ شاید ان سعودی لکھاریوں کا رویہ یہ ہے کہ : ''تارکینِ وطن ایک آسان ہدف ہیں اور کیوں نہ ان پر چڑھ دوڑا جائے''۔
مسٹر الدوسری نے یہ سوال نہیں اٹھایا ہے کہ پرچون کا کاروبار کسی سعودی ورکر کے پاس کیوں نہیں ہے؟ اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ انھوں نے اس کی وضاحت کے لیے دکانوں کے مالکان سے کچھ پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ہے۔ ٹھیک ہے، میں جناب الدوسری کو یہ بتانا چاہوں گا کہ میں بہت سی دکانوں کے بارے میں جانتا ہوں جو محض اس وجہ سے بند ہو گئی تھیں کہ ان کے سعودی ملازمین کام پر آتے ہی نہیں تھے۔ جدہ میں ایک حالیہ جمعہ کی صبح کے وقت ایک معروف سپر مارکیٹ کے آٹھ چیک آؤٹ کاؤنٹر کلرکوں میں سے چھ غیرحاضر تھے۔ وہ غالباً مچھلی کا شکار کرنے چلے گئے ہوں گے۔
پرچون کے شعبے میں سعودی خواتین کی عدم موجودگی کی اگر بات کریں تو یہ مضمون نگار صاحب اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ خواتین کے پرچون کی مارکیٹ میں کام کرنے کے بارے میں سوچنا ہی خود کو ہمارے اخلاق کے نگہبان کے عہدے پر فائز کرنا اور غوغا آرائی کرنا ہے۔ ان کے نزدیک خواتین کا سیلز کاؤنٹروں پر نظر آنا بیلوں کے آگے سرخ جھںڈا لہرانے کے مترادف ہے۔
مزید برآں جب ہم ایک قوم کے طور پر اتحاد بنا رہے ہیں اور جوہری تنصیبات، ریل روڈ نظام اور بڑے ہوائی اڈوں کی تعمیر کر رہے ہیں تو پھر ہم ان ورکروں پر کیسے حملہ آور ہو سکتے ہیں جو ہمیں ان خوابیدہ منصوبوں کو عملی شکل دینے میں مدد دے رہے ہیں۔
کوئی تارکِ وطن ورکر اس ملک میں پیراشوٹ کے ذریعے نہیں اُترتا ہے۔ وہ ایک ویزے کے ذریعے آتا ہے جو اس کو ہماری حکومت ہی نے جاری کیا تھا۔ اگر اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو پھر اس سے کہیں کہ وہ اس ملک میں آئے ہی نہیں لیکن مہربانی فرما کر غیرملکی تارک وطن ورکروں کی توہین مت کریں اور ان کے وقار کو ٹھیس مت پہنچائیں۔ وہ ہماری مدد اور معاونت کے لیے یہاں آئے ہیں۔ آپس میں گہری جڑی ہوئی عالمی معیشت میں ہنرمند افرادی قوت اور غیر ہنرمند ورکروں کی بڑی تعداد میں آمد ناگزیر ہے۔
امریکا یورپ کی قیادت کیوں کر رہا ہے؟ کیونکہ امریکا نے ان لوگوں کو اپنے ہاں قبول کیا اور انھیں جذب کیا جو ہر وہ سخت کام کرنے کو تیار تھے جن کو امریکی ہاتھ لگانے کو بھی تیار نہیں تھے۔ جب میں امریکا میں تھا تو میرا مقامی باربر (حجام) ایک ویت نامی تھا اور لانڈری کا کام کرنے والی خاتون کورین تھی۔ وہ بہت محنت سے کام کرتے تھے، اچھا کام کرتے تھے اور کسی کو بھی ان سے شکایت نہیں تھی۔
اقتصادی ترقی کی کنجی روزگار کے موقع پیدا کرنے میں ہے، ان کا متبادل ڈھونڈنے میں نہیں۔ ایک مرتبہ پھر ہم راست باز ذہنوں کے مالک سعودی اس ملک میں تارکین وطن ورکروں، خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب ، مسلم ہوں یا غیرمسلم ، سب کا بہت زیادہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم ان کے بے حد ممنون ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے خواب شرمندۂ تعبیر کرے۔
ح