مظفر اختر
رکن
- شمولیت
- جون 13، 2018
- پیغامات
- 109
- ری ایکشن اسکور
- 12
- پوائنٹ
- 44
تحریرات: ڈاکٹر حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ تعالی
تاریخی اقوال کو پرکھنے کا حدیثی معیار
-------------------------------------------------------------------------
تحقیق وتخریج حدیث کی معاصر تحریک سے جو غلط مناہج اس امت میں رواج پا گئے، ان میں سے ایک منہج یہ بھی ہے کہ تاریخی واقعات کی صحت وضعف کو اصول حدیث کی روشنی میں پرکھا جا رہا ہے حالانکہ اصول حدیث اصلا حدیث کی خبر کے تحقیق کے اصول ہیں نہ کہ تاریخ کی خبر کے تحقیق کے اصول۔ بلکہ اس سے بھی بڑی غلطی یا المیہ کہنا چاہیے یہ ہوا کہ قرآن مجید کی خبر کو بھی اصول حدیث کی روشنی میں پرکھا جانے لگا اور بہت سی قراءت جو کہ قرآن مجید کی خبر کے اصول تحقیق پر پوری اترتی ہیں، انہیں ضعیف قرار دے دیا گیا، صرف اس لیے کہ وہ حدیث کی تحقیق کے اصولوں کے مطابق نہ تھیں۔
یہاں تک کہ ہم نے ہر فن یعنی قراءات، تفسیری اقوال، سیرت اور تاریخی واقعات تک پر اصول حدیث کی روشنی میں حکم لگانا شروع کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصول حدیث، حدیث کی تحقیق کے اصول ہیں اور حدیث ایک خبر ہے لیکن خبر، خبر میں فرق ہوتا ہے لہذا ہر خبر کے تحقیق کے اصول ایک جیسے نہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ہیں۔ قرآن مجید کی روایات یعنی قراءات کی تحقیق کے اصول ”اصول قراءات“ ہیں۔ قراء کا جن ائمہ قراءات کی قراءات لینے پر اجماع اور اتفاق ہے، مثلا امام حفص کہ جن کی روایت سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے، محدثین کی جرح وتعدیل کی روشنی میں وہ ضعیف راوی ہیں اور بعض نے انہیں متروک الحدیث بھی کہا ہے۔
اگر آپ اصول حدیث کی روشنی میں قرآن مجید کی خبر کو پرکھنا شروع کر دیں گے تو یہ قرآن بھی ثابت نہ ہو گا جو آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں۔ پھر تفسیری اقوال، سیرت اور تاریخ وغیرہ شریعت نہیں ہیں کہ ان کے قبول ورد کے لیے اتنی سخت چھلنی لگائی جائے جو کہ حدیث کے لیے لگائی گئی ہے۔ پھر یہ کہ اگر اصول حدیث کی چھلنی میں سے سیرت اور تاریخ کو گزارا جائے گا تو آپ کے پاس سیرت اور تاریخ کے نام پر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ تو معتدل بات یہی ہے کہ قرآن مجید کی خبر کا ثبوت ”اصول قراءات“، حدیث کی خبر کا ثبوت ”اصول حدیث”، تفسیری اقوال کی خبر کا ثبوت ”اصول تفسیر“، سیرت کی خبر کا ثبوت ”اصول سیرت“ اور تاریخ کی خبر کا ثبوت ”اصول تاریخ“ کی روشنی میں طے ہو گا۔
تفسیری اقوال کی صحت وضعف میں امام ابن تیمیہ نے مقدمہ اصول تفسیر میں بہت خوبصورت بحث کی ہے جو کہ مرسل اقوال کے حوالے سے ہے۔ امام ابن تیمیہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی مرسل قول لمبا چوڑا ہے اور کسی اور راوی نے بھی اس کو بیان کیا ہے اور دونوں کے بیان میں اتفاق ہے، تو وہ مرسل قول قطعی طور صحیح ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنا لمبا چوڑا قول دو افراد کے لیے اس طرح گھڑنا کہ اس میں کوئی فرق نہ ہو، عقلی طور ممکن نہیں ہے جبکہ دونوں کی ملاقات بھی ثابت نہ ہو۔ اسی طرح سیرت اور تاریخ کے متقدمین ائمہ جب سیرت یا تاریخ کا واقعہ بیان کرتے ہیں تو ان کا انداز یوں ہوتا ہے کہ ہمیں ایک جماعت نے خبر دی ہے۔ تو ہر فن کی تدوین کے ساتھ اس کی تحقیق کے اصول، مناہج اور رویے بھی مدون ہوئے ہیں کہ جو سوچ بچار کرنے والوں کو مل جاتے ہیں۔
یہی رویہ سیرت کے بیان میں ابن شہاب زہری جیسے امام حدیث کا بھی انداز ہے۔ گویا سیرت کو بیان کرتے ہوئے ان کی نظر میں راوی اہم نہیں بلکہ واقعہ اہم ہے جبکہ حدیث کے بیان میں راوی اہم ہے کیونکہ حدیث بطور شریعت نقل ہو رہی ہے اور سیرت بطور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ اور بائیوگرافی کے بیان ہو رہی ہے۔ تو شریعت کے بیان میں اصل اہمیت بیان کرنے والے کی ہوتی ہے کہ اس کے بیان کو ہی ہم شریعت سمجھ رہے ہیں لیکن سیرت اور تاریخ وغیرہ میں اصل اہمیت واقعے کی ہے نہ کہ سیرت نگار اور مورخ کی لہذا واقعے کو بطور واقعہ پرکھا جائے گا۔ اور واقعے کو پرکھنے کے بہت سے عقلی اور درایتی اصول ہیں مثلا اس واقعے کے مختلف طرق ایک دوسرے کے خلاف نہ ہو، عقل عام کے خلاف نہ ہو، مورخ کے عقیدے کو اسپوٹ نہ کرتا ہو وغیرہ وغیرہ۔
تو اگر حدیث کی طرح تاریخ کی سند تلاش کرنا شروع کر دیں گے تو پھر تو قائد اعظم کے اقوال کی بھی سندیں نہیں ملیں گے چہ جائیکہ محمد بن قاسم، یوسف بن تاشفین، شیر شاہ سوری، صلاح الدین ایوبی، جلال الدین خوارزمی اور ٹیپو سلطان جیسے معروف ومشہور سلاطین یا دنیا کی تاریخ کا رخ بدل دینے والے سپہ سالاروں اور لیڈروں کے واقعات کی سندیں تلاش کر کے لا سکیں۔ تو اصول تاریخ یعنی تاریخ کو پرکھنے کے اصول اصلا سند پر نہیں بلکہ متن پر قائم ہیں اور یہ روایتی کم اور درایتی زیادہ ہیں یعنی خبری کم اور عقلی زیادہ ہیں یعنی ان کی سند کی تحقیق کم اور متن کی تحقیق زیادہ ہو گی۔ اور متن کی تحقیق، متن سے ہو گی۔ اس کے برعکس حدیث کی تحقیق کے اصول، روایتی زیادہ اور درایتی کم ہیں یعنی ان کی بنیاد سند کی تحقیق پر زیادہ اور متن کی تحقیق پر کم ہے۔
تاریخی اقوال کو پرکھنے کا حدیثی معیار [قسط دوم]: واقدی کے تناظر میں
-------------------------------------------------------------------------
اب سیرت کے فن کو ہی لے لیں کہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی یا نبوی تاریخ کا دوسرا نام ہے۔ سیرت کی کتب اور مصادر، حدیث وسنت کی کتب اور مصادر سے علیحدہ ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حدیث وسنت کی تحقیق کے اصولوں پر سیرت کو پرکھنا شروع کر دیں۔ حدیث وسنت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی زندگی سے ہے جبکہ سیرت کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محض زندگی سے ہے، چاہے وہ بشری ہے یا نبوی۔
اگر ہم محدثین کے معیار پر سیرت کو پرکھنا شروع کر دیں تو سیرت کے ابتدائی مصادر بھی اڑ جاتے ہیں اور کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ مثال کے طور پر سیرت کے ابتدائی مصادر میں واقدی [130-207ھ] کی کتاب "المغازی" کا تذکرہ ملتا ہے کہ جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ ابن ندیم نے اپنی فہرست میں واقدی کی چالیس کے قریب تصانیف کا تذکرہ کیا ہے۔ واقدی کے اساتذہ میں امام اوزاعی، امام مالک اور سفیان ثوری جیسے ائمہ دین کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ ان کے شاگردوں میں ابن ابی شیبہ، ابن سعد اور امام شافعی جیسے جلیل القدر لوگ شامل ہیں۔
واقدی کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ محمد بن سعد جیسے مورخ یعنی طبقات ابن سعد والے، واقدی کے کاتب رہے ہیں۔ اور ابن اسحاق کے بعد واقدی سیرت میں دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ اس واقدی کے بارے میں جو آج سیرت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے، محدثین کے اقوال کیا ہیں، ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ امام احمد بن حنبل نے اسے "کذاب" کہا۔ امام بخاری، امام ابو حاتم رازی اور امام نسائی نے "متروک الحدیث" کہا۔ یحی بن معین نے کہا کہ "ثقہ" نہیں ہے۔ امام مسلم، امام دار قطنی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ نے بھی "ضعیف" کہا ہے۔
محدثین نے اصل میں اس پر جو جرح کی ہے، وہ حدیث کے حوالے سے کی ہے کہ وہ حدیث وسنت کے بیان میں ضعیف ہے لیکن خود محدثین ہی کی ایک جماعت کا واقدی کو سیرت میں بطور ماخذ لے لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ حدیث اور سیرت کے معیار تحقیق میں فرق کو روا رکھتے تھے۔ امام ذہبی نے واقدی کو حدیث میں ضعیف قرار دینے کے باوجود امام اورعلامہ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ مغازی اور سیرت میں واقدی سے مستغنی رہنا ممکن نہیں ہے۔ امام ذہبی کے الفاظ یہ ہیں: "الواقدي، المديني، القاضي، صاحب التصانيف والمغازي، العلامة، الإمام، أبو عبد الله، أحد أوعية العلم على ضعفه ... ومع هذا، فلا يستغنى عنه في المغازي، وأيام الصحابة، وأخبارهم۔
خطیب بغدادی نے بھی واقدی پر محدثین کی جرح نقل کرنے کے باوجود اسے سیرت، مغازی اور طبقات کے علوم وفنون کا ایک ایسا مصدر مانا ہے کہ جس کی شہرت مشرق ومغرب میں پھیلی ہوئی ہے۔ خطیب بغدادی کے الفاظ ہیں: وهو ممن طبق شرق الأرض وغربها ذكره، ولم يخف على أحد -عرف أخبار الناس- أمره، وسارت الركبان بكتبه في فنون العلم من المغازي والسير، والطبقات، وأخبار النبي صلى الله عليه وسلم، والأحداث التي كانت في وقته، وبعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی واقدی پر شدید نقد بھی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اس سے روایت بھی نقل کر لیتے ہیں۔
بعض محققین کا کہنا یہ ہے کہ واقدی پر محدثین کی نقد کی اصل وجہ یہ تھی کہ واقدی محدثین کے منہج تحقیق کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ہماری رائے میں یہ بات آدھی درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واقدی کا منہج، محدثین کے منہج تحقیق سے مختلف تھا کہ واقدی کتب سے بھی نقل کر لیتے تھے جبکہ محدثین اس کو درست نہیں سمجھتے تھے جب تک کہ سماع ثابت نہ ہو۔ دوسرا واقدی ایک ہی موضوع سے متعلق مختلف اسناد سے مروی متن کو علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہی متن کے طور پیش کر دیتے تھے اور محدثین اس کو عیب سمجھتے ہیں۔
لیکن واقدی سے پہلے، ابن اسحاق اور ان سے پہلے امام ابن شہاب زہری بھی یہی کام کرتے تھے۔ لیکن وہ یہ کام سیرت میں کرتے تھے لہذا سیرت میں اس کے جواز کے قائل تھے کہ مختلف اسناد سے مروی متن کو ایک ساتھ ہی بیان کر دیا جائے کہ اصل متن ہے نہ کہ سند۔ محدثین کو اس طریقے پر جو اختلاف تھا، وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ حدیث اور سیرت کے مناہج تحقیق کو مختلف نہیں سمجھتے تھے۔ وہ بالکل اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ دو مختلف میدان ہیں اور ان کے تحقیقی مناہج بھی مختلف ہیں، اسی لیے تو امام ابن شہاب زہری نے اس فرق کا عملا لحاظ کیا ہے۔
سختی کی وجہ یہ تھی کہ محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک یہ دونوں مضامین یعنی حدیث اور سیرت اس قدر ایک دوسرے سے خلط ملط ہیں کہ ان کو کلی طور علیحدہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن دوسری طرف سیرت کا فن مدون کرنے والوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ائمہ فن کے لیے اس کا لحاظ کرنا اور رکھنا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واقدی سے جب تقاضا کیا گیا کہ وہ اپنے متن کی علیحدہ علیحدہ اسناد بیان کیا کریں تو انہوں نے صرف غزوہ احد کو جب متنوع اسناد کے ساتھ بیان کیا تو وہ بیس جلدیں بن گئیں۔ اس پر ان کے شاگردوں نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا کہ یہ شرعی احکامات تو ہیں نہیں کہ جن کے لیے اس قدر اسناد کا علم محفوظ رکھنے کی مشقت اٹھائی جائے۔
تاریخی اقوال کو پرکھنے کا حدیثی معیار
-------------------------------------------------------------------------
تحقیق وتخریج حدیث کی معاصر تحریک سے جو غلط مناہج اس امت میں رواج پا گئے، ان میں سے ایک منہج یہ بھی ہے کہ تاریخی واقعات کی صحت وضعف کو اصول حدیث کی روشنی میں پرکھا جا رہا ہے حالانکہ اصول حدیث اصلا حدیث کی خبر کے تحقیق کے اصول ہیں نہ کہ تاریخ کی خبر کے تحقیق کے اصول۔ بلکہ اس سے بھی بڑی غلطی یا المیہ کہنا چاہیے یہ ہوا کہ قرآن مجید کی خبر کو بھی اصول حدیث کی روشنی میں پرکھا جانے لگا اور بہت سی قراءت جو کہ قرآن مجید کی خبر کے اصول تحقیق پر پوری اترتی ہیں، انہیں ضعیف قرار دے دیا گیا، صرف اس لیے کہ وہ حدیث کی تحقیق کے اصولوں کے مطابق نہ تھیں۔
یہاں تک کہ ہم نے ہر فن یعنی قراءات، تفسیری اقوال، سیرت اور تاریخی واقعات تک پر اصول حدیث کی روشنی میں حکم لگانا شروع کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصول حدیث، حدیث کی تحقیق کے اصول ہیں اور حدیث ایک خبر ہے لیکن خبر، خبر میں فرق ہوتا ہے لہذا ہر خبر کے تحقیق کے اصول ایک جیسے نہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ہیں۔ قرآن مجید کی روایات یعنی قراءات کی تحقیق کے اصول ”اصول قراءات“ ہیں۔ قراء کا جن ائمہ قراءات کی قراءات لینے پر اجماع اور اتفاق ہے، مثلا امام حفص کہ جن کی روایت سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے، محدثین کی جرح وتعدیل کی روشنی میں وہ ضعیف راوی ہیں اور بعض نے انہیں متروک الحدیث بھی کہا ہے۔
اگر آپ اصول حدیث کی روشنی میں قرآن مجید کی خبر کو پرکھنا شروع کر دیں گے تو یہ قرآن بھی ثابت نہ ہو گا جو آپ اس وقت پڑھ رہے ہیں۔ پھر تفسیری اقوال، سیرت اور تاریخ وغیرہ شریعت نہیں ہیں کہ ان کے قبول ورد کے لیے اتنی سخت چھلنی لگائی جائے جو کہ حدیث کے لیے لگائی گئی ہے۔ پھر یہ کہ اگر اصول حدیث کی چھلنی میں سے سیرت اور تاریخ کو گزارا جائے گا تو آپ کے پاس سیرت اور تاریخ کے نام پر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ تو معتدل بات یہی ہے کہ قرآن مجید کی خبر کا ثبوت ”اصول قراءات“، حدیث کی خبر کا ثبوت ”اصول حدیث”، تفسیری اقوال کی خبر کا ثبوت ”اصول تفسیر“، سیرت کی خبر کا ثبوت ”اصول سیرت“ اور تاریخ کی خبر کا ثبوت ”اصول تاریخ“ کی روشنی میں طے ہو گا۔
تفسیری اقوال کی صحت وضعف میں امام ابن تیمیہ نے مقدمہ اصول تفسیر میں بہت خوبصورت بحث کی ہے جو کہ مرسل اقوال کے حوالے سے ہے۔ امام ابن تیمیہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی مرسل قول لمبا چوڑا ہے اور کسی اور راوی نے بھی اس کو بیان کیا ہے اور دونوں کے بیان میں اتفاق ہے، تو وہ مرسل قول قطعی طور صحیح ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنا لمبا چوڑا قول دو افراد کے لیے اس طرح گھڑنا کہ اس میں کوئی فرق نہ ہو، عقلی طور ممکن نہیں ہے جبکہ دونوں کی ملاقات بھی ثابت نہ ہو۔ اسی طرح سیرت اور تاریخ کے متقدمین ائمہ جب سیرت یا تاریخ کا واقعہ بیان کرتے ہیں تو ان کا انداز یوں ہوتا ہے کہ ہمیں ایک جماعت نے خبر دی ہے۔ تو ہر فن کی تدوین کے ساتھ اس کی تحقیق کے اصول، مناہج اور رویے بھی مدون ہوئے ہیں کہ جو سوچ بچار کرنے والوں کو مل جاتے ہیں۔
یہی رویہ سیرت کے بیان میں ابن شہاب زہری جیسے امام حدیث کا بھی انداز ہے۔ گویا سیرت کو بیان کرتے ہوئے ان کی نظر میں راوی اہم نہیں بلکہ واقعہ اہم ہے جبکہ حدیث کے بیان میں راوی اہم ہے کیونکہ حدیث بطور شریعت نقل ہو رہی ہے اور سیرت بطور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ اور بائیوگرافی کے بیان ہو رہی ہے۔ تو شریعت کے بیان میں اصل اہمیت بیان کرنے والے کی ہوتی ہے کہ اس کے بیان کو ہی ہم شریعت سمجھ رہے ہیں لیکن سیرت اور تاریخ وغیرہ میں اصل اہمیت واقعے کی ہے نہ کہ سیرت نگار اور مورخ کی لہذا واقعے کو بطور واقعہ پرکھا جائے گا۔ اور واقعے کو پرکھنے کے بہت سے عقلی اور درایتی اصول ہیں مثلا اس واقعے کے مختلف طرق ایک دوسرے کے خلاف نہ ہو، عقل عام کے خلاف نہ ہو، مورخ کے عقیدے کو اسپوٹ نہ کرتا ہو وغیرہ وغیرہ۔
تو اگر حدیث کی طرح تاریخ کی سند تلاش کرنا شروع کر دیں گے تو پھر تو قائد اعظم کے اقوال کی بھی سندیں نہیں ملیں گے چہ جائیکہ محمد بن قاسم، یوسف بن تاشفین، شیر شاہ سوری، صلاح الدین ایوبی، جلال الدین خوارزمی اور ٹیپو سلطان جیسے معروف ومشہور سلاطین یا دنیا کی تاریخ کا رخ بدل دینے والے سپہ سالاروں اور لیڈروں کے واقعات کی سندیں تلاش کر کے لا سکیں۔ تو اصول تاریخ یعنی تاریخ کو پرکھنے کے اصول اصلا سند پر نہیں بلکہ متن پر قائم ہیں اور یہ روایتی کم اور درایتی زیادہ ہیں یعنی خبری کم اور عقلی زیادہ ہیں یعنی ان کی سند کی تحقیق کم اور متن کی تحقیق زیادہ ہو گی۔ اور متن کی تحقیق، متن سے ہو گی۔ اس کے برعکس حدیث کی تحقیق کے اصول، روایتی زیادہ اور درایتی کم ہیں یعنی ان کی بنیاد سند کی تحقیق پر زیادہ اور متن کی تحقیق پر کم ہے۔
تاریخی اقوال کو پرکھنے کا حدیثی معیار [قسط دوم]: واقدی کے تناظر میں
-------------------------------------------------------------------------
اب سیرت کے فن کو ہی لے لیں کہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی یا نبوی تاریخ کا دوسرا نام ہے۔ سیرت کی کتب اور مصادر، حدیث وسنت کی کتب اور مصادر سے علیحدہ ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حدیث وسنت کی تحقیق کے اصولوں پر سیرت کو پرکھنا شروع کر دیں۔ حدیث وسنت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی زندگی سے ہے جبکہ سیرت کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محض زندگی سے ہے، چاہے وہ بشری ہے یا نبوی۔
اگر ہم محدثین کے معیار پر سیرت کو پرکھنا شروع کر دیں تو سیرت کے ابتدائی مصادر بھی اڑ جاتے ہیں اور کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ مثال کے طور پر سیرت کے ابتدائی مصادر میں واقدی [130-207ھ] کی کتاب "المغازی" کا تذکرہ ملتا ہے کہ جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ ابن ندیم نے اپنی فہرست میں واقدی کی چالیس کے قریب تصانیف کا تذکرہ کیا ہے۔ واقدی کے اساتذہ میں امام اوزاعی، امام مالک اور سفیان ثوری جیسے ائمہ دین کا تذکرہ ملتا ہے جبکہ ان کے شاگردوں میں ابن ابی شیبہ، ابن سعد اور امام شافعی جیسے جلیل القدر لوگ شامل ہیں۔
واقدی کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ محمد بن سعد جیسے مورخ یعنی طبقات ابن سعد والے، واقدی کے کاتب رہے ہیں۔ اور ابن اسحاق کے بعد واقدی سیرت میں دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ اس واقدی کے بارے میں جو آج سیرت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے، محدثین کے اقوال کیا ہیں، ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ امام احمد بن حنبل نے اسے "کذاب" کہا۔ امام بخاری، امام ابو حاتم رازی اور امام نسائی نے "متروک الحدیث" کہا۔ یحی بن معین نے کہا کہ "ثقہ" نہیں ہے۔ امام مسلم، امام دار قطنی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ نے بھی "ضعیف" کہا ہے۔
محدثین نے اصل میں اس پر جو جرح کی ہے، وہ حدیث کے حوالے سے کی ہے کہ وہ حدیث وسنت کے بیان میں ضعیف ہے لیکن خود محدثین ہی کی ایک جماعت کا واقدی کو سیرت میں بطور ماخذ لے لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ حدیث اور سیرت کے معیار تحقیق میں فرق کو روا رکھتے تھے۔ امام ذہبی نے واقدی کو حدیث میں ضعیف قرار دینے کے باوجود امام اورعلامہ لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ مغازی اور سیرت میں واقدی سے مستغنی رہنا ممکن نہیں ہے۔ امام ذہبی کے الفاظ یہ ہیں: "الواقدي، المديني، القاضي، صاحب التصانيف والمغازي، العلامة، الإمام، أبو عبد الله، أحد أوعية العلم على ضعفه ... ومع هذا، فلا يستغنى عنه في المغازي، وأيام الصحابة، وأخبارهم۔
خطیب بغدادی نے بھی واقدی پر محدثین کی جرح نقل کرنے کے باوجود اسے سیرت، مغازی اور طبقات کے علوم وفنون کا ایک ایسا مصدر مانا ہے کہ جس کی شہرت مشرق ومغرب میں پھیلی ہوئی ہے۔ خطیب بغدادی کے الفاظ ہیں: وهو ممن طبق شرق الأرض وغربها ذكره، ولم يخف على أحد -عرف أخبار الناس- أمره، وسارت الركبان بكتبه في فنون العلم من المغازي والسير، والطبقات، وأخبار النبي صلى الله عليه وسلم، والأحداث التي كانت في وقته، وبعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی واقدی پر شدید نقد بھی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اس سے روایت بھی نقل کر لیتے ہیں۔
بعض محققین کا کہنا یہ ہے کہ واقدی پر محدثین کی نقد کی اصل وجہ یہ تھی کہ واقدی محدثین کے منہج تحقیق کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ہماری رائے میں یہ بات آدھی درست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واقدی کا منہج، محدثین کے منہج تحقیق سے مختلف تھا کہ واقدی کتب سے بھی نقل کر لیتے تھے جبکہ محدثین اس کو درست نہیں سمجھتے تھے جب تک کہ سماع ثابت نہ ہو۔ دوسرا واقدی ایک ہی موضوع سے متعلق مختلف اسناد سے مروی متن کو علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہی متن کے طور پیش کر دیتے تھے اور محدثین اس کو عیب سمجھتے ہیں۔
لیکن واقدی سے پہلے، ابن اسحاق اور ان سے پہلے امام ابن شہاب زہری بھی یہی کام کرتے تھے۔ لیکن وہ یہ کام سیرت میں کرتے تھے لہذا سیرت میں اس کے جواز کے قائل تھے کہ مختلف اسناد سے مروی متن کو ایک ساتھ ہی بیان کر دیا جائے کہ اصل متن ہے نہ کہ سند۔ محدثین کو اس طریقے پر جو اختلاف تھا، وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ حدیث اور سیرت کے مناہج تحقیق کو مختلف نہیں سمجھتے تھے۔ وہ بالکل اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ دو مختلف میدان ہیں اور ان کے تحقیقی مناہج بھی مختلف ہیں، اسی لیے تو امام ابن شہاب زہری نے اس فرق کا عملا لحاظ کیا ہے۔
سختی کی وجہ یہ تھی کہ محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک یہ دونوں مضامین یعنی حدیث اور سیرت اس قدر ایک دوسرے سے خلط ملط ہیں کہ ان کو کلی طور علیحدہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن دوسری طرف سیرت کا فن مدون کرنے والوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ائمہ فن کے لیے اس کا لحاظ کرنا اور رکھنا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ واقدی سے جب تقاضا کیا گیا کہ وہ اپنے متن کی علیحدہ علیحدہ اسناد بیان کیا کریں تو انہوں نے صرف غزوہ احد کو جب متنوع اسناد کے ساتھ بیان کیا تو وہ بیس جلدیں بن گئیں۔ اس پر ان کے شاگردوں نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا کہ یہ شرعی احکامات تو ہیں نہیں کہ جن کے لیے اس قدر اسناد کا علم محفوظ رکھنے کی مشقت اٹھائی جائے۔