• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ فرقہ دیوبند !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
تاریخ فرقہ دیوبند !!!

دیوبندیت ایک جدید فرقہ ہے جو دیوبندی کتب کے مطابق 30 مئی 1867 میں ہندوؤں اور انگریزوں کے تعاون سے بننے والے مدرسہ دیوبند کی تعمیر کیساتھ ہی معرض وجود میں آیا اس کا مختصر احوال ملاحضہ کیجیے:

دارالعلوم دیو بند کے موسسین میں پہلا نام مولانا ذوالفقار علی ولد فتح علی کاہے جو مولانا محمو د الحسن کے والد بزرگوار تھے ۔یہ دہلی کالج میں پڑھتے رہے ‘ بریلی کالج میں پروفیسر رہے پھر شعبہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس بنے پھر پنشن کے بعد دیو بند تشریف لے آئے اور حکومت برطانیہ سے وفاداری کے اعزا ز میں آنریری مجسٹریٹ بنا دیئے گئے۔انہوں نے 30مئی 1867ءمیں دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھی ۔ دوسرے مولانا فضل الرحمن تھے جو مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد بزرگوار تھے۔انہوں نے دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا ۔مولانا یعقوب علی نانوتوی دارالعلوم دیو بند کے پہلے مدرس تھے ۔مولانا قاسم نانوتوی دہلی کالج سے فارغ ہوئے تو پہلے مطبع احمدی پھر مطبع مجتبائی میرٹھ میں اور اس کے بعد مطبع مجتبائی دہلی میں پروف ریڈر رہے اس کے بعد مستقل طور پر مدرسہ دیو بند میں پڑھاتے رہے ۔

(احسن نانوتوی ص691,195,47,45)

مدرسہ دیو بند کی تعمیر کے لئے جن ہندوؤں نے چندہ دیا ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں ۔منشی تلسی رام ‘ رام سہائے ‘ منشی ہر دواری لال‘ لالہ بجناتھ ‘ پنڈت سری رام ‘ منشی موتی لال ‘ رام لال‘ سیو رام سوار ۔

(سوانح قاسمی 2/317)

قاری طیب دیو بندی مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں:

”چنانچہ دارالعلوم دیو بند کی ابتدائی روداد میں بہت سے ہندوﺅں کے چندے بھی لکھے ہوئے ہیں“۔


( خطبات حکیم الاسلام9/149)

13جنوری 1875ءبروز یک شنبہ لیفٹننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے اس مدرسہ کا دورہ کیا تو اس نے اس کے متعلق بہت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا۔اس معائنے کی رپورٹ کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں ۔

”یہ مدرسہ سرکار کے خلاف نہیں بلکہ موافق سرکار ممد و معاون سرکار ہے۔یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ایسے آزاد اور نیک چلن ہیں کہ ایک دوسرے سے کچھ واسطہ نہیں “۔

(احسن نانوتوی ص217‘تصنیف محمد ایوب قادری دیوبندی ‘ فخر العلماءص 60)

”مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کو انگریزی حکومت کی طرف سے چھ سو روپیہ ماہوار ملتا تھا“ ۔

(مکالمہ الصدرین ص 9‘ تقریر شبیر احمد عثمانی دیوبندی)

اس بات کا تذکرہ تھانوی صاحب نے الاضافات الیومیہ 6-56 ملفوظ نمبر 108میں بھی کیا ہے۔

دارالعلوم دیو بند کا جب صد سالہ جشن منایا گیا تو مہمان خصوصی (صدر مجلس ) بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی اور بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم جگ جیون رام تھے۔مسز اندرا گاندھی نے علماءدیوبند کو خطاب فرمایا نیز مسٹر جگ جیون رام نے بھی علماءدیوبند کو بالخصوص اور عوام الناس کو بالعموم وعظ و نصیحت سے مستفید فرمایا ۔ اس صد سالہ جشن دیو بند کی روئداد بھی چھپی جس میں مہمانان گرامی کی تصاویر نمایاں طور ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔


چاروں تقلیدی مذاہب (احناف ،شوافع، مالکیہ اور حنابلہ) کی مختصر تاریخ

شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں:

اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے

(حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)

قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی لکھتے ہیں:

فان اہل السنة والجمة قد افترق بعد القرون الثلاثة او الاربعة علی اربعة مذاہب

اہل سنت والجماعت چوتھی یا پانچویں صدی میں چار مذاہب میں متفرق ہوئے۔

(تفسیر مظہری)

امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔

تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔

(اعلام المو قعین ۲۸۹۱)

خلاصہ: 1867 سے پہلے فرقہ دیوبند اور چوتھی صدی سے پہلے چاروں تقلیدی مذاہب کا دنیا میں کوئی وجود نہیں تھا۔
 
Top