• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغ اسلام کرنے والا بھیڑیا

شمولیت
نومبر 07، 2013
پیغامات
76
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
47
اسلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بھیڑیئے نے ایک بکری کو پکڑ لیالیکن بکریوں کے چرواہے نے بھیڑئیے پر حملہ کرکے اس سے بکری کو چھین لیا۔ بھیڑیا بھاگ کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اے چرواہے! اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو رزق دیا تھا مگر تو نے اس کو مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم! میں نے آج سے زیادہ کبھی کوئی حیرت انگیز اور تعجب خیز منظر نہیں دیکھا کہ ایک بھیڑیا عربی زبان میں مجھ سے کلام کرتا ہے۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ اے چرواہے! اس سے کہیں زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ تو یہاں بکریاں چرا رہا ہے اور تو اس نبی کو چھوڑے اور ان سے منہ موڑے ہوئے بیٹھا ہے جن سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ کوئی نبی نہیں آیا۔ اس وقت جنت کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں اور تمام اہل جنت اس نبی کے ساتھیوں کی شانِ جہاد کا منظر دیکھ رہے ہیں اور تیرے اور اس نبی کے درمیان بس ایک گھاٹی کا فاصلہ ہے۔ کاش! تو بھی اس نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر اﷲ کے لشکروں کا ایک سپاہی بن جاتا۔ چرواہے نے اس گفتگو سے متاثر ہو کر کہا کہ اگر میں یہاں سے چلا گیا تو میری بکریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ بھیڑئیے نے جواب دیا کہ تیرے لوٹنے تک میں خود تیری بکریوں کی نگہبانی کروں گا۔ چنانچہ چرواہے نے اپنی بکریوں کو بھیڑئیے کے سپرد کر دیا اور خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور واقعی بھیڑیئے کے کہنے کے مطابق اس نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب کو جہاد میں مصروف پایا۔ پھر چرواہے نے بھیڑئیے کے کلام کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے فرمایا کہ تم جائو تم اپنی سب بکریوں کو زندہ و سلامت پائو گے۔ چنانچہ چرواہا جب لوٹا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بھیڑیا اس کی بکریوں کی حفاظت کر رہا ہے اور اس کی کوئی بکری بھی ضائع نہیں ہوئی ہے چرواہے نے خوش ہو کر بھیڑیئے کے لئے ایک بکری ذبح کرکے پیش کر دی اور بھیڑیا اس کو کھا کر چل دیا۔
(زرقانی جلد۵ ص۱۳۵ تا ص۱۳۶)
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اصل الفاظ یہ ہیں:

عن أبي هريرة أيضًا قال: جاء ذئب إلى راعي غنم فأخذ منه شاة، فطلبه الراعي حتى انتزعها منه، قال: فصعد الذئب على تلٍّ واستثفر, وقال: عمدت إلى رزق رزقنيه الله أخذته انتزعته مني, فقال الرجل: تالله إن رأيت كاليوم ذئب يتكلم، فقال الذئب: أعجب من هذا رجل في النخلات بين الحرتين يخبركم بما مضى وما هو كائن بعدكم، ولا تتبعونه، قال: وكان الرجل يهوديًّا، فجاء إلى النبي -صلى الله عليه وسلم, فأخبره وأسلم, فصدَّقه النبي ثم قال -صلى الله عليه وسلم: "إنها أمارات بيني يدي الساعة، قد أوشك الرجل أن يخرج فلا يرجع حتى يحدثه نعلاه وسوطه بما أحدث أهله بعد".
قال القاضي عياض في الشفاء وفي بعض الطرق عن أبي هريرة: قال الذئب: أنت أعجب مني ,واقفًا على غنمك وتركت نبيًّا لم يبعث الله قط أعظم منه عنده قدرًا، وقد فتحت له أبواب الجنة وأشرف على أصحابه ينظرون قتالهم, وما بينك وبينه إلّا هذا الشِّعْب، فتصير في جنود الله. قال الراعي: من لي بغنمي؟ قال الذئب: أنا أرعاها حتى ترجع، فأسلم الرجل إليه غنمه ومضى، فذكر قصته وإسلامه ووجوده النبي -صلى الله عليه وسلم يقاتل، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم: "عد إلى غنمك تجدها بوفرها، فوجدها كذلك، وذبح للذئب شاة منها
[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية: 6/ 550]

قاضی عیاض نے جوالفاظ پیش کئے ہیں اس کوئی کوئی سند مذکورنہیں ہے ۔
اور مسند احمدوغیرہ میں یہ روایت شہربن حوشب کے طریق سے ہے۔
اوریہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ شہربن حوشب صدوق ہونے کے باوجود بھی سئی الحفظ ہیں اور ان کی بیان کردہ یہ روایت محفوظ نہیں ہے کیونکہ شہر بن حوشب یہ روایت بیان کرتے ہوئے اضطراب کے شکارہوئے ہیں نیز اوثق رواۃ نے ابوہریرہ رضی اللہ کی اس حدیث کو دوسرے سیاق کے ساتھ روایت کیا ہے چنانچہ :

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلاَةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: " بَيْنَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً إِذْ رَكِبَهَا فَضَرَبَهَا، فَقَالَتْ: إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِهَذَا، إِنَّمَا خُلِقْنَا لِلْحَرْثِ " فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ بَقَرَةٌ تَكَلَّمُ، فَقَالَ: " فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا، أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، - وَمَا هُمَا ثَمَّ - وَبَيْنَمَا رَجُلٌ فِي غَنَمِهِ إِذْ عَدَا الذِّئْبُ، فَذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ، فَطَلَبَ حَتَّى كَأَنَّهُ اسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ الذِّئْبُ هَذَا: اسْتَنْقَذْتَهَا مِنِّي، فَمَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، يَوْمَ لاَ رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي " فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ ذِئْبٌ يَتَكَلَّمُ، قَالَ: «فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، - وَمَا هُمَا ثَمَّ -»، وحَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمِثْلِهِ
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا "ایک شخص (بنی اسرائیل کا) اپنی گائے ہانکے لیے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہو گیا اور پھر اسے مارا۔ اس گائے نے (بقدرت الہیٰ) کہا کہ ہم جانور سواری کے لیے نہیں پیدا کئے گئے۔ ہماری پیدائش تو کھیتی کے لیے ہوئی ہے۔" لوگوں نے کہا سبحان اللہ! گائے بات کرتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی۔ حالانکہ یہ دونوں وہاں موجود بھی نہیں تھے۔ اسی طرح ایک شخص اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑیا آیا اور ریوڑ میں سے ایک بکری اٹھا کر لے جانے لگا۔ ریوڑ والا دوڑا اور اس نے بکری کو بھیڑئیے سے چھڑا لیا۔ اس پر بھیڑیا (بقدرت الہیٰ) بولا، آج تو تم نے مجھ سے اسے چھڑا لیا لیکن درندوں والے دن میں (قرب قیامت) اسے کون بچائے گا جس دن میرے سوا اور کوئی اس کا چرواہا نہ ہو گا؟ لوگوں نے کہا، سبحان اللہ! بھیڑیا باتیں کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو اس بات پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر بھی حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے مسعر سے، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے ابوسلمہ سے روایت کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی۔[صحيح البخاري 4/ 174]


البتہ بھیڑے والی مذکورہ روایت ابوسعید خدری سے بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مروی ہے اور اس کی سند صحیح ہے چنانچہ:
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: عَدَا الذِّئْبُ عَلَى شَاةٍ، فَأَخَذَهَا فَطَلَبَهُ الرَّاعِي، فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَأَقْعَى الذِّئْبُ عَلَى ذَنَبِهِ، قَالَ : أَلَا تَتَّقِي اللهَ، تَنْزِعُ مِنِّي رِزْقًا سَاقَهُ اللهُ إِلَيَّ، فَقَالَ: يَا عَجَبِي ذِئْبٌ مُقْعٍ عَلَى ذَنَبِهِ، يُكَلِّمُنِي كَلَامَ الْإِنْسِ، فَقَالَ الذِّئْبُ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذَلِكَ؟ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَثْرِبَ يُخْبِرُ النَّاسَ بِأَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ، قَالَ: فَأَقْبَلَ الرَّاعِي يَسُوقُ غَنَمَهُ، حَتَّى دَخَلَ الْمَدِينَةَ، فَزَوَاهَا إِلَى زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهَا، ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُودِيَ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ لِلرَّاعِي : " أَخْبِرْهُمْ " فَأَخْبَرَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ، وَيُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ، وَشِرَاكُ نَعْلِهِ، وَيُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ "[مسند أحمد ط الرسالة 18/ 316]

اس امام عقیلی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے ۔
لیکن اس کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح کہا ہے واللہ اعلم ۔
دیکھیں:سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 241) رقم 122
 
Top