lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
اشماریہ
محمد ارسلان
۲۔ سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ھ ۸۸۸) اور سنن دارقطنی(۲۸۶/۱ح ۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔
۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳) السنن الکبری(۲۸/۲) المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱) اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸)
۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔
نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔
انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا"
پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں ، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔
فیض الباری /جلد :2/ص:261))
محمد بن علی نیموی حنفی لکھتا ہیں کہ: فانی راجعت الی نسخۃ صحیحۃ من المصنف فرایت فیھا ھذاالحدیث بھذاالسند و بھذہ الالفاظ الا انہ لیس فیھا تحت السرۃ
(آثارالسنن ص:88)
اور بےشک کہ میں نے رجوع کیا صحیح نسخے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف پس دیکھی میں نے اُس میں یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اور انہی الفاظ کہ ساتھ مگر یہ کہ میں نے اس میں تحت السرۃ کے الفاظ نہیں پائے۔
محمد ارسلان
حنفیوں نے اس نسخہ میں تحریف کی ہے ۔
١ ۔ یہ حدیث امام وکیع کے واسطے سے مسند احمد (۳۱۶/۴ ح ۱۸۸۴۶) شرح السنۃ (۳۰/۳ ح ۵۶۹) اور سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح ۱۰۸۸) میں موجود ہے لیکن تحت السرۃ کے الفاظ کسی روایت میں موجود نہیں ہیں۔
۲۔ سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ھ ۸۸۸) اور سنن دارقطنی(۲۸۶/۱ح ۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔
۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳) السنن الکبری(۲۸/۲) المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱) اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸)
۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔
نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔
لہٰذا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) کے کارپردازوں کو چاہیے کہ ہر جلد کے سرورق پر جہاں لکھتے ہیں کہ "یہ طبع ان ۴۹۰ ابواب پر مشتمل ہے جو ہندوستانی طبع میں رہ گئے تھے" اس نسخہ کی خصوصیت بھی بتائیں کہ "اس میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو ابن ابی شیبہ کو معلوم ہی نہ تھے بلکہ ہم (آل تقلید) نے ایجاد کئے ہیں
حنفی علماء کی گواہی کے تحت السرۃ کا لفظ مصنف ابن ابی شیبہ میں نہیں ہے۔
انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا"
پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں ، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔
فیض الباری /جلد :2/ص:261))
محمد بن علی نیموی حنفی لکھتا ہیں کہ: فانی راجعت الی نسخۃ صحیحۃ من المصنف فرایت فیھا ھذاالحدیث بھذاالسند و بھذہ الالفاظ الا انہ لیس فیھا تحت السرۃ
(آثارالسنن ص:88)
اور بےشک کہ میں نے رجوع کیا صحیح نسخے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف پس دیکھی میں نے اُس میں یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اور انہی الفاظ کہ ساتھ مگر یہ کہ میں نے اس میں تحت السرۃ کے الفاظ نہیں پائے۔