عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
کتاب کا نام
تحریک تحفظ ختم نبوت 1953ء
ناشر
ختم نبوت پبلیکیشنز لاہور
تبصرہ
قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں مرزا محمود نے اعلان کیاکہ ہم 1952ء کے اندراندر بلوچستان کو احمدی صوبہ بنادیں گے۔‘‘ اس کا یہ اعلان مسلمانان پاکستان کے اوپر بجلی بن کر گرا تو علماء نے اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی کہ اس فتنہ کامقابلہ کرنے کے لیے ایک مستقل جماعت ہونی چاہیے۔ قادیانی جماعت کی حمایت برطانیہ، روس، اسرائیل، فرانس، امریکا سب کررہے تھے۔پاکستان میں ہر مکتبہ فکر نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز کیا۔جس میں بڑوں سے لے کر بچوں تک تمام نےبھر پور حصہ لیا۔1953میں ۔ تحریک ختم نبوت اپنے زوروں پرتھی ۔ عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو کافر قرار دو اور اس کے لیے لوگ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ وزیرخارجہ ظفراللہ قادیانی اور جنرل اعظم نے انتظامیہ اور فوج کی مدد سے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی لیکن لوگوں کا جذبہ عروج پر تھا ۔ روزانہ سینکڑوں لوگ سڑکوں پر گولیاں کھا کر شہید تو ہو جاتے لیکن پھر بھی اپنے آقا ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ مارنے والوں کو کافر قرار دینے کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوتے تھے ۔ بڑے تو بڑے بچے تک اس تحریک کی خاطر جان قربان کرنے کو تیار تھے ۔ایک دن ایک دس بارہ سال کا بچہ بستہ لٹکائے اسکول جانے کے لیے نکلا۔ سڑک پر پہنچا تو لوگوں کو ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے اور فوج سے مار کھاتے دیکھا ۔ نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ وہ خود بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانے لگا ۔ اسی اثنا میں ایک فوجی کی اس پر نظر پڑ گئی اس نے آکر اس بچے کو پکڑ لیا اور کہا کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہو چلو کان پکڑ لو ۔ بچے نے خاموشی سے کان پکڑ لیے ۔ فوجی اسے کہنے لگا کہ بتاؤ تمہاری اس حرکت پر تمہیں کتنا ماروں ۔ بچے نے کان چھوڑ کر فوجی کی طرف دیکھا اور مضبوط لہجے میں کہنے لگا اتنا مارو جتنی مار تم روز محشر کھا سکو ، یاد رکھو میں تو آج تمہاری مار برداشت کرلوں لگا لیکن محشر کے دن تم میرے رب کی مار برداشت نہیں کرسکو گے فوجی یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا ۔ ایسے ہوگیا جیسے اس کے بدن میں جان نہ رہی ہو ، بچے نے اپنا بستہ اٹھایا اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا اسکول کی طرف روانہ ہوگیا اور وہ فوجی اسے بت بنا کھڑا دیکھتا رہا ۔ اس طر ح کی سیکڑوں ایمان افروز داستانیں تاریخ کے صفحات میں درج ہیں ۔سچ ہے جذبہ ایمانی اور حب رسول ﷺ جب کسی کے دل میں سما جائے تو وہ بڑے سے بڑے ظالم کےسامنے کھڑے ہونے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’تحریک تحفظ ختم نبوت 1953ء ‘‘ اس تحریک کےایک مجاہد جناب مجاہد الحسینی صاحب کے تحریک تحفظ ختم نبوت کی بابت ضرب مومن اخبار میں قسط وار شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے اس میں انہوں نے اس تحریک دوران پیش آنے والے ناقابل فراموش واقعات اور مشاہدات کو پیش کیا ہے ۔ رسائل وجرائد کے معروف اشاریہ ساز محترم دو ست جنا ب شاہد حنیف صاحب نے اس میں مزید اضافہ جات کرکے اسے مرتب کیا ہے ۔مرتب موصوف رسائل وجرائد اور کتب کی اشاریہ سازی کےسلسلہ میں نہایت تندہی اور جانفشانی سے کام کررہیں اور بہت سے دینی علمی وادبی رسائل کے اشاریے مرتب کرنےکے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کتابیات بھی مرتب کر چکے ہیں۔اور ان دنوں اہم علمی رسائل کے اشاریہ کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنےمیں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں اس اہم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق دے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین)(م۔ا)
تحریک تحفظ ختم نبوت 1953ء
مصنف
مجاہد الحسینیناشر
ختم نبوت پبلیکیشنز لاہور
تبصرہ
قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء کو کوئٹہ کے ایک اجلاس میں مرزا محمود نے اعلان کیاکہ ہم 1952ء کے اندراندر بلوچستان کو احمدی صوبہ بنادیں گے۔‘‘ اس کا یہ اعلان مسلمانان پاکستان کے اوپر بجلی بن کر گرا تو علماء نے اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی کہ اس فتنہ کامقابلہ کرنے کے لیے ایک مستقل جماعت ہونی چاہیے۔ قادیانی جماعت کی حمایت برطانیہ، روس، اسرائیل، فرانس، امریکا سب کررہے تھے۔پاکستان میں ہر مکتبہ فکر نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز کیا۔جس میں بڑوں سے لے کر بچوں تک تمام نےبھر پور حصہ لیا۔1953میں ۔ تحریک ختم نبوت اپنے زوروں پرتھی ۔ عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو کافر قرار دو اور اس کے لیے لوگ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھے۔ وزیرخارجہ ظفراللہ قادیانی اور جنرل اعظم نے انتظامیہ اور فوج کی مدد سے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی لیکن لوگوں کا جذبہ عروج پر تھا ۔ روزانہ سینکڑوں لوگ سڑکوں پر گولیاں کھا کر شہید تو ہو جاتے لیکن پھر بھی اپنے آقا ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ مارنے والوں کو کافر قرار دینے کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوتے تھے ۔ بڑے تو بڑے بچے تک اس تحریک کی خاطر جان قربان کرنے کو تیار تھے ۔ایک دن ایک دس بارہ سال کا بچہ بستہ لٹکائے اسکول جانے کے لیے نکلا۔ سڑک پر پہنچا تو لوگوں کو ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے اور فوج سے مار کھاتے دیکھا ۔ نہ جانے اچانک کیا ہوا کہ وہ خود بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانے لگا ۔ اسی اثنا میں ایک فوجی کی اس پر نظر پڑ گئی اس نے آکر اس بچے کو پکڑ لیا اور کہا کہ حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہو چلو کان پکڑ لو ۔ بچے نے خاموشی سے کان پکڑ لیے ۔ فوجی اسے کہنے لگا کہ بتاؤ تمہاری اس حرکت پر تمہیں کتنا ماروں ۔ بچے نے کان چھوڑ کر فوجی کی طرف دیکھا اور مضبوط لہجے میں کہنے لگا اتنا مارو جتنی مار تم روز محشر کھا سکو ، یاد رکھو میں تو آج تمہاری مار برداشت کرلوں لگا لیکن محشر کے دن تم میرے رب کی مار برداشت نہیں کرسکو گے فوجی یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا ۔ ایسے ہوگیا جیسے اس کے بدن میں جان نہ رہی ہو ، بچے نے اپنا بستہ اٹھایا اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا اسکول کی طرف روانہ ہوگیا اور وہ فوجی اسے بت بنا کھڑا دیکھتا رہا ۔ اس طر ح کی سیکڑوں ایمان افروز داستانیں تاریخ کے صفحات میں درج ہیں ۔سچ ہے جذبہ ایمانی اور حب رسول ﷺ جب کسی کے دل میں سما جائے تو وہ بڑے سے بڑے ظالم کےسامنے کھڑے ہونے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’تحریک تحفظ ختم نبوت 1953ء ‘‘ اس تحریک کےایک مجاہد جناب مجاہد الحسینی صاحب کے تحریک تحفظ ختم نبوت کی بابت ضرب مومن اخبار میں قسط وار شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے اس میں انہوں نے اس تحریک دوران پیش آنے والے ناقابل فراموش واقعات اور مشاہدات کو پیش کیا ہے ۔ رسائل وجرائد کے معروف اشاریہ ساز محترم دو ست جنا ب شاہد حنیف صاحب نے اس میں مزید اضافہ جات کرکے اسے مرتب کیا ہے ۔مرتب موصوف رسائل وجرائد اور کتب کی اشاریہ سازی کےسلسلہ میں نہایت تندہی اور جانفشانی سے کام کررہیں اور بہت سے دینی علمی وادبی رسائل کے اشاریے مرتب کرنےکے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کتابیات بھی مرتب کر چکے ہیں۔اور ان دنوں اہم علمی رسائل کے اشاریہ کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنےمیں مصروف ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں اس اہم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق دے اور ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین)(م۔ا)