کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
تخلیق آدم، قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں
[SUP]ڈاکٹر راشد سیالچیف ایگزکٹیو سیال میڈیکل سینٹر[/SUP]
قرآن کریم کو جدید دور کے سائنسی تقاضوں کے تناظر میں پڑھنا اور سمجھنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ جدید سائنسی نظریات کے تناظر میں اگر ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی نہ کی گئی تو وہ دین سے بہت دور ہو جائے گی اور ان کی سمجھ میں نہیں آئے گاکہ کس نظریہ کو تسلیم کرے۔ اگر یہ نسل تخلیق آدم کے بارے میں ہماری روایتی دینی تعلیم اور اس میں بیان کردہ نظریہ کو سامنے رکھ کر جدید سائنسی نظریہ پر غور کرتی ہے جو انسان کی تخلیق کے ارتقائی عمل سے متعلق ہے تو دورِ جدید کے ذہن کے لئے ہر دو نظریات پر بیک وقت یقین کرنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ بادی النظر میںیہ دونوں نظریے آپس میں متضاد و متصادم دکھائی دیتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں نظریوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ذہنی انتشار کا شکارہوکر رہ جاتا ہے۔ ہمیں ان خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہمیں جدید سائنس خصوصاً [SUP](Creation & Evolution )[/SUP] کا بھی پوری طرح سے ادراک ہو۔
2006ء تک تخلیق آدم کے سلسلہ میں [SUP]Evolutionist[/SUP] کے مقابل [SUP]Creationist[/SUP] اس بات کو چیلنج کرتے تھے کہ تدریجی ارتقائی عمل تو ایک عام پروٹین کی تخلیق کی بھی وضاحت نہیں کرسکتا جب کہ تخلیق آدم میں [SUP]DNA[/SUP] اور [SUP]RNA[/SUP] جو جینوم کی اکائیاں ہیں اور انتہائی پیچیدہ پروٹین کی شکلیں ہیں وہ صرف اور صرف ارتقائی عمل سے کیسے وجود میں آ سکتی ہیں؟
میں نے اس سلسلہ میں امریکہ کے ایک موقر جریدے ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کو ایک مراسلہ لکھا کہ آپ قرآن حکیم کی آیاتِ کریمہ [SUP](الحجر15:26، الرحمن 55:14)[/SUP] کو اگر غور سے پڑھیں تو یہ زمین کی عمیق گہرائیوں میں بتدریج تخلیق کی اکائی [SUP](DNA اور RNA )[/SUP] کی طرف اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
بعد ازاں ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے 2009ء ستمبر کے شمارے میں ایک مضمون شائع ہوا جس کی تفصیل آگے آئے گی اور وہ تقریباً ان آیاتِ کریمہ کی مکمل تفسیر بیان کرتا ہے۔
پیشتر اس کے کہ ہم اس مضمون کو آگے بڑھائیں ہمارے لئے سائنس کی اصطلاح میں انسانی روح اور بدنی اکائی کا جاننا ضروری ہے۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ ہماری روح اور بدنی اکائی جینوم [SUP](Genome )[/SUP] ہے جس کے ڈی این اے [SUP](DNA )[/SUP] اور آر این اے [SUP](RNA )[/SUP] دو جزو ہیں آئندہ سطور میں ہم قرآن کریم کی روشنی میں زمین پر جینوم کی پیدائش اور ارتقاء کی وضاحت کریں گے
تخلیق آدم کی ابتداء کے ضمن میں قرآن کریم میں جو الفاظ آتے ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:
اَرْض ، تُرَاب ، طِیْن ، سلالۃ من طین ،
صلصال من حما مسنون ، صَلْصَال کالفخار
قرآن کریم میں آدم کی پیدائش کے لئے جو الفاظ آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
خلق ، انشأ ، انبت ۔
سب سے پہلے ہم ان الفاظ کے لغوی معانی تحقیق کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
انبت
اگانا، پروان چڑھانا، بتدریج بڑھانا، حیاتیاتی عمل وقوع پذیر ہونا۔ نامیاتی عمل وقوع پذیر ہونا۔ [SUP](dictionary.sensagent.com )[/SUP] (لسان العرب)
انشأ
ابتداء کرنا، پیدا کرنا، اٹھانا، بلند کرنا۔ (لسان العرب)
خلق
پیدا کرنا، ابتداء کرنا، بنیاد رکھنا۔ (لسان العرب)
ارض
زمین، خشکی، مٹی، فرش۔ [SUP](dictionary.sensagent.com )[/SUP]
طین
(گارا، کیچڑ، دلدل۔) طین
تراب
(زمین، سطح زمین، مٹی۔) تراب
(۱) صَلْصَال
ایسی مٹی جس میں ریت بھی شامل ہو اور جب وہ سوکھ جائے تو آواز دینے لگے۔
(۲) فَخّار
جب ’’صلصال‘‘ کو آگ دی جائے تو وہ ’’فخّار‘‘ کہلاتی ہے۔ (انتہائی گرم سطح پر زمین کی ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے)
(۳) حما
سیاہ مٹی زمین کی عمیق گہرائیوں میں موجود مختلف معدنیات اور نمکیات وغیرہ کی طرف اشارہ ہے
(۴) مسنون
ایسی چیز جس کی حالت بدل دی گئی ہو اور بدبودار ہو۔ جس کی شکل تبدیل کردی گئی ہو۔ جس کو ڈھالا گیا ہو۔ جس کو رگڑا گیا ہو۔ (لسان العرب) معدنیات و نمکیات کا مسلسل اور متواتر انتہائی گرم اور انتہائی سرد طبقات الارض کے درمیان گردش رگڑ اورڈھلنے کا عمل۔
(۵) سُلالۃ
اصل، جوہر۔
(۱ - ۵) ان تمام الفاظ کی تفصیل اور تفسیر کے تناظر میں اگر ہم آدم کی تخلیقی اکائی یعنی ابتدائی جزو ’’جین‘‘ کی مرحلہ وار تخلیق کو پرکھیں اور زمین کی عمیق گہرائیوں پہ نظر دوڑائیں تو یہ سڑا ہوا گارا (سیاہ مٹی)، آگ، ریت، ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی زمین وغیرہ ہمیں تخلیق آدم کی ابتداء میں [SUP]DNA[/SUP] ، اور [SUP]RNA[/SUP] کے پیدا کرنے سے متعلق بہت سے اشارے دیتی ہے۔
ﷲ رب العزت نے انسان کی تخلیق اسی زمین پر کی ہے۔ اور اس کی تخلیق کے لئے تمام ضروری اجزاء بھی اسی زمین سے مہیا کئے ہیں۔ ارشاد ہے:
ھُوَ اَنْشَأَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ
[SUP](ہود 11:61)[/SUP]
اس [SUP](ﷲ)[/SUP] نے تمہیں زمین [SUP](میں)[/SUP] سے بنایا۔
اسی طرح قرآن حکیم میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ تخلیق انسان کے ضمن میں جتنے بھی مراحل درکار تھے وہ بھی تمام کے تمام اسی زمین پر مکمل کیے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں انسان کی زمین سے بتدریج تخلیق کے بارے میں ارشاد ہے:
(ارض) قرآن کریم میں انسان کی تبدریج مٹی سے تخلیق کے بارے میں ارشاد ہے:
وَ اللّٰہُ اَ نْبَتَــکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَـبَـا تًا
[SUP](نوح 71:17)[/SUP]
اور ﷲ نے تم کو زمین سے [SUP](بتدریج)[/SUP] ایک [SUP]( خاص)[/SUP] اہتمام سے اگایا [SUP](یعنی پروان چڑھایا)[/SUP] ہے۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تخلیق آدم کا تمام ارتقائی عمل اسی زمین پر مکمل ہوا تو درج ذیل آیت ملاحظہ فرمائیں جس میں اﷲ رب العزت نے تخلیق آدم کی ابتداء کے بارے میں ایک نہایت ہی اہم بات ارشاد فرمائی ہے۔ ارشاد ہے:
وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
[SUP](الحجر15:26)[/SUP]
اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے بے شک میں تخلیق کرنے والا ہوں بشر کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے۔
بالکل اسی طرح کا مضمون اسی سورۃ کی آیت نمبر26 اور 33 میں بھی وارد ہوا ہے جبکہ اسی طرح کا ایک اور مضمون قدرے تغیر کے ساتھ سورۃ رحمن کی آیت نمبر 14 میں آیا ہے۔ ارشاد ہے:
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ
[SUP](الرحمٰن 55:14) [/SUP]
اس [SUP](ﷲ)[/SUP] نے انسان کو کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا جیسے ٹھیکرا۔
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں سائنٹفک امریکن کے جریدہ ستمبر 2009 کے صفحہ نمبر 38 پر دیے گئے مضمون [SUP]Life on Erarth[/SUP] جسے [SUP]David Attenborough[/SUP] نے ترتیب دیا توجہ سے پڑھنے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مضمون در اصل سورۃ الحجر15 آیت نمبر 26,28 اور سورۃ رحمن 55 آیت 14 کی تفسیر ہے اس مضمون میں تخلیق آدم سے متعلق [SUP]DNA[/SUP] کے لازمی جزو یعنی [SUP]Nucliac Acid[/SUP] کی تخلیق کے عمل میں [SUP]Peptide Nucliac Acid[/SUP] کی تخلیق کے عمل کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ یہ زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں کھنکھناتی مٹی اور سڑے ہوئے گارے کے مابین وقوع پذیر ہونے والا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ آپ لفظ ’’صلصال کالفخار‘‘ اور ’’صلصال من حما مسنون‘‘ کے عربی تراجم دیکھیں تو آپ حیران ہوجائیں گے کہ خداوند قدوس نے کس خوبصورتی سے تخلیق آدم کے عمل کو چند الفاظ میں بیان کردیا ہے۔
[SUP]
Researchers have found that the genetic molecule RNA could have formed from chemicals (black earthy material) present in the early earth. Other studies have supported this concept that primitive cells containing molecules similar to RNA could assemble spontaneously, reproduce and evolve, giving rise to nucleobases, peptide nucleic acid the proto cells and hence forming the basis of life.
(Life on Earth-Scientific American Sep 2009 )
(Salsal Kalfakhar" and "Hama Masnoon " صلصال کالفخار، حما مسنون, if we carefully concentrate on the meaning of these two words mentioned in the Holy Qur'an are referring to the details of the chemical process taking place deep down in the early Earth)
[/SUP](Life on Earth-Scientific American Sep 2009 )
(Salsal Kalfakhar" and "Hama Masnoon " صلصال کالفخار، حما مسنون, if we carefully concentrate on the meaning of these two words mentioned in the Holy Qur'an are referring to the details of the chemical process taking place deep down in the early Earth)
[SUP] جاری ھے[/SUP]