ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 574
- ری ایکشن اسکور
- 184
- پوائنٹ
- 77
تدلیس کی معرفت کے ذرائع
تدلیس کی معرفت کے چھ ذرائع حسب ذیل ہیں:
(❶) مدلس خود صراحت فرما دے کہ میں نے تدلیس کی ہے۔
(❷) دوسرا ذریعہ: قوتِ حافظہ، فہم و فراست اور تخریج وتحقیق الحدیث کی طویل عملی مشق ہے۔ اسی بنا پر ناقدینِ فن رواۃ، ان کے احوال، مرویات، اسانید، صحیح اور معلول کی پہچان رکھتے تھے۔ ان اوصاف کی بدولت وہ راوی کی سنی اور ان سنی مرویات اور ان کی کیفیات بھی جان لیتے تھے کہ موصوف (مدلس) نے اپنے استاد سے براہِ راست سماع کیا ہے یا کسی وساطت سے بیان کرتا ہے، وہ ثقہ ہے یا مجروح وغیرہ۔
(❸) تیسرا ذریعہ: بعض راوی اپنے شیخ سے حدیث سنتے ہوئے اس کی مرویات کے سماع کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ بالخصوص جب وہ محسوس کرتے کہ شیخ کسی حدیث کے سماع میں متشکک ہے تو بہ اصرار اس کی توضیح چاہتے یا استاد کے چہرے کے تأثرات اور الفاظ نوٹ کرتے کہ اس نے سماع کی صراحت کی ہے یا محتمل صیغہ سے بیان کیا ہے۔
(❹) چوتھا ذریعہ: اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک حدیث کی دو سندیں مروی ہیں:
(①) پہلی سند میں راوی اپنے شیخ، جس سے بعض احادیث سنی ہوتی ہیں، سے محتمل علی السماع صیغے سے بیان کرتا ہے۔ مگر یہی حدیث اسی راوی سے (②) دوسری سند سے مروی ہوتی ہے، مگر اس کے اور اس کے استاد کے مابین ایک زائد راوی موجود ہوتا ہے۔ بالخصوص جب وہ زائد راوی مجروح ہو۔ واضح نشانی ہے کہ اس نے پہلی سند میں اس زائد راوی کو گرایا اور اپنے شیخ سے سماع کا وسوسہ ڈالا ہے۔
(✬) امام ابن حبان (٣٥٤ه) فرماتے ہیں:
’’ابراہیم بن زکریا الواسطی: ثقات سے ایسی احادیث بیان کرتا ہے جو اثبات کی حدیث سے مشابہ نہیں ہوتیں۔ اگر وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا تو وہ کذابوں سے تدلیس کرتا ہے کیونکہ میں نے اسے دیکھا وہ مالک موضوع چیزیں بیان کرتا ہے پھر اسی سند کو موسیٰ بن محمد بن البلقاوی عن مالک بیان کرتا ہے۔‘‘
[ المجروحين، ج:١، ص:١١٦ ]
(❺) پانچواں ذریعہ: اہلِ علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ محدث جو حدیث بیان کر رہا ہے اس سے صرف ایک شاگرد احادیث بیان کرتا ہے۔ جب اس راوی کا کوئی ہم عصر اسی حدیث کو اس کے استاد سے کسی واسطے اور سماع کی صراحت کے بغیر بیان کرتا ہے، تو یہ محدث اپنے ظن غالب کی بنیاد پر سمجھ لیتا ہے کہ اس راوی نے اس روایت کو بیان کرنے میں میرے شاگرد سے تدلیس کی ہے۔
یا پھر دوسری صورت یوں بھی ہے کہ کسی ایک شاگرد نے اپنے شیخ کی سبھی روایات جمع کی ہوتی ہیں، جب کوئی دوسرا راوی اس شیخ سے ایسی حدیث بیان کرتا ہے جسے یہ (جامع) جانتا نہیں تو اس روایت کو وہم کی بنا پر غلط قرار دیا جائے گا یا یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس نے یہ روایت ان مجروحین سے سنی ہے، جن کی روایات میں مناکیر کثرت سے ہیں، اور یہ ان سے تدلیس کرتا ہے۔
(❻) چھٹا ذریعہ: تراجم، تواریخ، علل الاحادیث وغیرہ پر مشتمل کتب کی مراجعت سے راویان کی مسموع اور مراسیل روایات کی پہچان ہوجاتی ہے۔
مثال کے طور پر کسی ماہرِ فن کا یہ فیصلہ دینا کہ فلاں راوی نے فلاں شیخ سے صرف فلاں فلاں حدیث سنی ہے۔ یا اتنی احادیث سماعت کی ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اسی راوی کی اسی شیخ سے دیگر ایسی احادیث دستیاب ہوں، جنھیں سماع اور عدمِ سماع پر محتمل صیغے سے بیان کیا گیا ہو تو ہم ان مرویات پر تدلیس کا حکم لگائیں گے۔
تحریر : محمد خبیب احمد