• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تراویح سےمتعلقہ مسائل

شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
850
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
69
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مسلسل تین راتیں تراویح پڑھائیں ، چوتھی رات صحابہ کرام جمع ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح نہیں پڑھائیں اور فرمایا: مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں تم رات کی نماز فرض نہ کردی جائےاور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ۔ (صحیح مسلم: 761)

لہذا باجماعت تراویح پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدشہ کے پیش نظر اس عمل کو مسلسل نہیں کیا کہ کہیں یہ امت پر فرض نہ ہو جائیں۔

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو وہ رمضان کی ایک رات مسجد میں گئے تو دیکھا کو کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہے، اور کوئی چند لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھ رہا ہے، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ا ور رات کی نماز کے فرض ہونے کا خدشہ ختم ہو گیا تھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھ کر تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کرنے کی غرض سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کاامام مقرر کر دیا۔ (صحیح بخاری: 2010)

تراویح کی رکعات:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گھر میں قیام اللیل کرتے ہوئے گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، وہ تین راتیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو نماز تراویح پڑھائیں ان میں رکعات کی تعداد کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی حدیث صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں تراویح کی رکعات کم یا زیادہ پڑھنے کا تعلق نمازیوں سے ہے، اگر وہ لمبا قیام کر سکتے ہوں تو تیرہ رکعات پڑھنا افضل ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، اگر لمبا قیام نہیں کر سکتے تو بیس پڑھنا افضل ہے، اگر چالیس رکعات پڑھ لیں تو بھی جائز ہے، جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ تراویح کی خاص تعداد متعین ہے اس سے زیادہ یاکم نہیں کی جا سکتی تو وہ غلطی پر ہے۔ (دیکھیں: مجموع الفتاوی، جلد نمبر 22، صفحہ نمبر 272)
 
Top