• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تراویح

385mushahidi

مبتدی
شمولیت
مئی 25، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
2
السلام علیکم
سوال میرا یے ہے کی کیا رسول کے زمانے میں تراویح
با جماعت پڑہی گئی ہے ..... یا نہی
یا کس دور سے پڑہنا شروع کیا گیا ہے
اور اگر رسول کے دور سے نہی پڑہی گئی
تو سنت کیسے ہو گئ
اور ایک سوال میرے ذہن میں یےکہٹکتا ہے کی قرآن رسول کے آخری عرصہ دور وفات کے قبل رمضان کامل ہوا تو تراویح
کیسے باجماعت پڑہی گئ
اور اگر کسی صحابی نے رائج کیا تو تراویح کا پڑہنا سنت رسول کیسے ہوا .سنت صحابہ ہو نا چاہیئے
مع دلیل جواب کا منتظر
صابر مشاہدی

Sent from my GT-I9300 using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں باجماعت قیام اللیل ( جنہیں بعد میں تراویح کہا جانے لگا) کیا گیاہے۔
وہی کام جو فرضیت کے خدشہ سے آپ نے تین دن کرکے ترک فرمادیا، صحابہ کرام نے اسے پورا مہینہ مکمل کیا، کیونکہ اب وہ خدشہ موجود نہیں تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے دور میں صحابہ کرام قرآن کریم اتنا ہی پڑھتے تھے، جتنا نازل ہو چکا تھا۔
ویسے آج بھی رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کریم کو ایک مرتبہ مکمل پڑھنا ضروری نہیں۔
ایک سے کم مرتبہ بھی پڑھا جاسکتاہے، اور ایک سے زائد مرتبہ بھی۔ منتخب سورتیں بھی بار بار پڑھی جاسکتی ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم
سوال میرا یے ہے کی کیا رسولﷺ کے زمانے میں تراویح ۔۔۔۔۔با جماعت پڑہی گئی ہے ..... یا نہیں؟
یا کس دور سے پڑہنا شروع کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے نہیں پڑھی گئی تو سنت کیسے ہو گئی ؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
نماز تراویح کے سنت ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ پیارے نبی ﷺ نے اس کی فضیلت بیان کرکے اس کی ترغیب دی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں (بیدار رہ کر) نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔امام ابنؒ شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور لوگوں کا یہی حال رہا (الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے) اس کے بعد سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اورجناب عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا۔(صحیح بخاری ، كتاب صلاة التراويح )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عملاً کچھ روز باجماعت ادا فرما کر اس کی کیفیت و تعداد اور وقت بھی سکھلایا ؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، ثُمَّ يَقُولُ: " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر تاکیدی حکم دئیے رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، پھر فرماتے: ”جس نے رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع تک یہی معاملہ رہا ۔

سنن ابي داود 1375، صحیح مسلم/المسافرین ۲۵ (۷۵۹)، سنن الترمذی/الصوم ۱ (۶۸۳)، ۸۳ (۸۰۸)، سنن النسائی/قیام اللیل ۳ (۱۶۰۴)، والصوم ۳۹ (۲۰۰۲)، والإیمان ۲۲ (۲۱۹۶)، ۲۲ (۵۰۲۷)، (تحفة الأشراف:۱۲۲۷۷، ۱۵۲۷۰، ۱۵۲۴۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان ۲۷ (۳۷)، والصوم ۶ (۱۹۰۱)، والتراویح ۱ (۲۰۰۹)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۷۳ (۱۳۲۶)، موطا امام مالک/ الصلاة فی رمضان ۱ (۲)، مسند احمد (۲/۲۳۲، ۲۴۱، ۳۸۵، ۴۷۳، ۵۰۳)، سنن الدارمی/الصوم ۵۴ (۱۸۱۷) (صحیح)

_________________________
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: "صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے مہینے کی کسی رات میں بھی ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا یہاں تک کہ (مہینے کی) سات راتیں رہ گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا یعنی تیئیسویں (۲۳) یا چوبیسویں (۲۴) رات کو یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی اور جب چھ راتیں رہ گئیں یعنی (۲۴) ویں یا (۲۵) ویں رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، اس کے بعد (۲۵) ویں یا (۲۶) ویں رات کو جب کہ پانچ راتیں باقی رہ گئیں آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس رات کاش آپ اور زیادہ قیام فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کو ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے“، پھر چھبیسویں (۲۶) یا ستائیسویں (۲۷) رات کو جب کہ چار راتیں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قیام نہیں کیا، پھر ستائیسویں (۲۷) یا اٹھائیسویں (۲۸) رات کو جب کہ تین راتیں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ ہمیں خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ ابوذر نے کہا: سحر کا کھانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کی بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا ۔

سنن ابي داود 1375 ، سنن الترمذی/الصوم ۸۱ (۸۰۶)، سنن النسائی/السہو۱۰۳ (۱۳۶۵)، قیام اللیل ۴ (۱۶۰۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۷۳ (۱۳۲۷)، (تحفة الأشراف:۱۱۹۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۵۹، ۱۶۳)، سنن الدارمی/ الصوم ۵۴ (۱۸۱۸) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیل نمبر 1
عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، ‏‏‏‏‏‏انه سال عائشة رضي الله عنها:‏‏‏‏ "كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت:‏‏‏‏ ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، ‏‏‏‏‏‏يصلي اربعا، ‏‏‏‏‏‏فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ‏‏‏‏‏‏ثم يصلي اربعا، ‏‏‏‏‏‏فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ‏‏‏‏‏‏ثم يصلي ثلاثا، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏اتنام قبل ان توتر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ يا عائشة، ‏‏‏‏‏‏إن عيني تنامان ولا ينام قلبي".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیاکہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تراویح یا تہجد کی نماز) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
(صحیح بخاری 2013 )
دلیل نمبر 2
عن جابر بن عبد الله قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا أن يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد حتى أصبحنا، فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله، رجونا أن تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال: «كرهت أن يكتب عليكم الوتر»
ترجمہ :
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں کو رمضان میں کے مہینے میں نماز(تراویح ) آٹھ رکعات پڑھائی اِس کے بعد وتر پڑھا دوسرے روز جب رات ہوئی تو ہم لوگ پھر مسجد میں جمع ہوگئے امید کہ آپ نکلیں گے اور نماز پڑھائیں گے مگر آپ ﷺ تشریف نہ لائے، ہم صبح تک مسجد میں رہ گئے پھر ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ بات بیان کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہو ا کہ کہیں یہ نماز تم لوگوں پر فرض نہ ہوجائے (اس لئے میں گھر سے نہیں نکلا) (ابنِ حبان 2409،ابنِ خزیمہ1070،طبرانی فی الصغیر525،محمد بن نصر مروزی فی قیام اللیل ص ۹۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیل نمبر
سیدنا جابر بن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

صلٰي بنا رسول الله صلٰي الله عليه وسلم فى شهر رمضان ثمان ركعات و‍أوتر۔
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ماہ رمضان میں آٹھ رکعت نماز تراویح اور وتر پڑھائے۔“ [مسند ابي يعليٰ : 326/2، المعجم الصغير للطبراني : 190/1، فتح الباري : 12/3، وسنده حسن]
↰ اس روایت کے راوی عیسیٰ بن جاریہ، جمہورمحد ثین کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہیں۔
اس حدیث کو امام ابن خذیمہ
[1070] اور امام ابن حبان [2409] رحمہ اللہ نے ”صحیح ”کہا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
واسنادہ وسط ”اس کی سنداچھی ہے۔“ [ميزان الا عتدال : 311/3]
◈ امام عینی حنفی [عمد ة القاري7 /177] اور دیگر فقہا ء نے اس حدیث کو آٹھ رکعت نماز تراویح پر دلیل بنا یا ہے۔
——————

دلیل نمبر 4
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آج رات مجھ سے ایک کام ہوا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کیا اے ابی ؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا : ہم قرآن کریم پڑھی ہوئی نہیں، اس لیے ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی :

فصليت بهن ثمان ركعات، ثم أوترت، فكانت سنة الرضا، ولم يقل شيئا۔
”میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں، پھر وتر پڑھائے، اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی اظہار فرمایا اور کچھ نہیں کہا۔“ [مسند ابي يعليٰ : 362/2، زوائد مسند الامام احمد : 115/5، المعجم الا وسط للطبراني 141/4، قيام الليل للمروزي : 217، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [2550] نے ”صحیح“ کہا ہے، حافط ہیثمی نے اس کی سند کو ”حسن“ کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 742]
——————
دلیل نمبر 5
صحابی رسول سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں :

أمر عمربن الخطاب أبى بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس باحدي عشرة ركعة
”سیدنا عمر خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت نماز تراویح (مع وتر) پڑھایا کریں۔“ [ موطا امام مالك : 138، شرح معاني الآ ثار للطحاوي : 293/1، السنن الكبري للبهيقي : 496/2، مشكاة المصابيح : 1/407، وسنده صحيح]
↰ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم صحیح بخاری و صحیح مسلم والی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ کے موافق ہے، سیدنا امیر المومنین، شہید محراب کا حکم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے عین مطابق ہے، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا اور اس سے بیس رکعت تراویح کے قائلین و عاملین کا رد ہوتا ہے اور ان کا یہ قول کہ وہ بیس رکعت نماز تراویح اس لیے پڑھتے ہیں کہ سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیس پڑھی تھیں، یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر بہتان اور سراسر جھوٹ ہے، کسی وضعی (من گھڑت) روایت سے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیس رکعت تراویح پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
↰ ثابت ہوا کہ عہد فاروقی میں آٹھ رکعت تراویح پر صحابہ کرام کا اجماع تھا۔
——————

دلیل نمبر 6
سیدنا سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

ان عمر جمع الناس على أبى وتييم، فكانا يصليان احدي عشرة ركعة۔
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ پر جمع کر دیا، وہ دونوں گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبة : 392-391/2، تاريخ المدينة للامام عمر بن شيبه : 713/2 وسندة صحيح]
——————
دلیل نمبر 7
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب باحدي عشرة ركعة۔۔۔۔۔
”ہم (صحابہ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ رکعت (نماز تراویح) پڑھتے تھے۔“ [سنن سعيد بن منصور بحواله الحاوي للفتاوي للسيوطي : 349/1، حاشية آثار السنن للنيسوي : 250 وسنده صحيح]
◈ علامہ سبکی لکھتے ہیں : اسنادۂ فى غاية الصحة ”اس کی سندا انتہا درجہ کی صحیح ہے۔“ [ شرح المنهاج بحواله الحاوي للفتاوي : 350/1]
↰ مذکور ہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ آٹھ رکعت نماز تراویح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب و سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کو وتر سمیت گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور انہوں نے آپ کے حکم کی تعمیل و تکمیل میں گیارہ رکعت نماز تراویح پرھائی اور صحابہ کرام نے پڑھی۔
↰ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
 
Last edited:
Top