نصر اللہ خالد
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2012
- پیغامات
- 188
- ری ایکشن اسکور
- 143
- پوائنٹ
- 70
تربیتِ اولاد اور اسلامی اسلوب:
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد۔۔!
وقت کی رفتار گزشتہ ایام سے بے تحاشہ تیز تر ہو گئی ہے اور اس وقت کی رفتار میں انسان بھی خوب ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آسمانوں تک جا پہنچا ہے، لیکن جہاں اس ترقی نے بنی نوع انسان کو چاند پر جانے کا راستہ دیا اور مریخ تک رسائی دی وہاں ہی اس جدید ٹیکنالوجی نے معاشرتی طورپر بہت زیادہ مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں،آج لو گ موبائلز اور انٹرنیٹ کے سبب بہت سارے پیاروں سے ہزاروں میل دور بات کر لیتےہیں لیکن پاس بیٹھے انسان کو بھول گئے ہیں، ایسے بہت سارے مسائل میں سے ایک مسئلہ تربیت اولاد ہے جو آج کے دور کا سب سے سنگین مسئلہ بن چکاہے، تربیت اولاد ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جو انسان کے ساتھ نسلوں تک منقتل ہوتا چلا جاتاہے اور اس کا اثر کئی کئی ادوارپر مشتمل نظر آتاہے۔
آج ماں باپ اولاد کو نصیحت اول تو کرتے ہیں نہیں اور اگر کریں تو وہ بے معنی و بے سود ثابت ہوتی ہے، جبکہ باپ کا اولاد کو نصیحت کرنا اور اس کی تربیت کرنا ایک اہم اسلامی فرض ہے،والدین اور اولاد کا رشتہ دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو کسی بھی مفاد سے بالاتر ہے ۔والدین کی اولاد کو نصیحت ہی اس کے درست و غلط راستے کا تعین کرتی ہے، اسکی طرف حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اشارہ یوں ملتاہے:
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ،
صحیح البخاری: 1358
یہ حدیث ہمارے لئے بالکل واضح طورپریہ اعلان کر رہی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتاہے،لیکن اس کے ماں باپ جو اس کو نصیحت کریں گے اسی لحاظ سےوہ یہودی وعیسائی اور مجوسی بن جاتا ہے، اس سے ہم نصیحت والدین کا باخوبی اندازہ لگا سکتےہیں۔
والدین بچوں کی تربیت پر مسئول ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔ (بخاری 893)
اس لئے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اگر آج ہم اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کریں گے تو کل اس پر ہم سے سوال ہو گا جس کا جواب ہم نے کیا دینا ہے یہ ہمیں آج ہی سوچنا ہوگا۔
اسلام نے ہمیں اس تربیت اولاد کی طرف بہت ہی اچھےانداز سے ناصرف دعوت دی ہے بلکہ ہمارےلئے اسلوب بھی وضع کر دیئے ہیں، ذیل میں ہم ان اسالیب کا احاطہ قرآن مجیدکی سورۃ لقمان کی روشنی میں کرتےہیں۔
اللہ رب العزت نے لقمان کو بڑی حکمت و دانائی سے نوازا تھا،اور اسی حکمت کے انداز سے انہوں اپنے بیٹے کو نصیحت کی جو اللہ کے ہاں اس قدر مقبول ٹھری کے قیامت تک کے لئےہمارے لئے ایک قدوۃ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
پہلا اسلوب:
(اسلام) اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور شرک سے دوری۔ (ذاتی پہلو)
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ۔ (لقمان13:)
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک بہت بڑا ظلم (گناہ)ہے۔
تربیت اولاد میں سب سے پہلے بچوں کے دلوں میں اس بات کو راسخ کرنا چاہئے کہ زمین و آسمان کا مالک ایک اللہ ہے جس نےہمیں پیدا کیا جو ہمارے رزق کا ذمہ دار ہے جس نے ہمیں اس دنیا میں کچھ مقاصد کےلئے بھیجا جن میں سے سب سے پہلااور اہم مقصد یہ ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے، کیونکہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہی وہ کام ہے جو انسان کی نجات کا ذریعہ ہے، اور انسان کی نیکیوں کی مقبولیت کا یہ ہی واحد راستہ ہے،بچوں کے دلوں میں شرک سے خوف کو بھرنا چاہئے کیونکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
(النسا116)
بے شک اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کریں گے اور اسکے سوا جو بھی وہ معاف کر دے گا جس کو چاہے گا، اور جس نے شرک کیا یقینا وہ گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔
ان کو یہ بات اس انداز سے سیکھانی چاہئے کہ ان کو قتل ہو جانا شرک کرنے سے کہیں زیادہ آسان لگے جس کےلئے صحابہ کرام کے ایمان کے واقعات ان کو سننانے چاہیں تاکہ ان کے اندر ایمان کی پختگی آجائے۔
دوسرا اسلوب:
والدین کی فرماں برداری: (ذاتی پہلو)
لقمان کے پند و نصائح کی طرف نظر جائے تو ہمیں معلوم ہوگا ہےکہ توحید کے اقرارکے بعد سب سے افضل عمل ماں باپ کی فرماں برداری کرنا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
(لقمان:14)
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے ۔ اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ ( اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
ایک دوسری آیت سے بھی اس کی طرف یوں راہنمائی ملتی ہے:
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ۔
(بنی اسرائیل ۲۳)
تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ، مگر صرف اُس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک ، یا دونوں ، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ،بلکہ ان سے احترام کے ساتھ (شریفانہ) بات کرو،
یہ ایک کھلی اور آزمودہ حقیقت ہے کہ بچے اگر والدین کے فرماں بردار بن جائیں تو گھر بھی جنت بن جاتا ہے اور ماں باپ کو وفات کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہتا ہے،آج ہمارے ہاں عموما یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ بچے والدین کے ساتھ احترام و شفقت سے پیش ہی نہیں آتے جس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے بچوں کی تربیت اسلامی نھج پر کرنا چھوڑ دی ہے ہم نے ان کو دنیا کی ہر نعمت تو فراہم کر دی ہےلیکن ان کی روح کی غذا اور اس کے درست راستے کا تعین نہیں کیا، ہمارے بچوں کی تربیت آج کے دور میں میڈیا اور مغرب کر رہا ہے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
جہاں والدین کی تعظیم کا اس قدر حکم ہے وہاں ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر وہ تمہیں اللہ کی طرف شرک کرنے کی دعوت دیں یا کوشش کریں تو ان کی بات نہیں ماننی ہے لیکن پھر بھی ان کے ساتھ شفقت سے پیش آنا ہے، قرآن کی اس آیت کی طرف نظر دوڑائیں۔
وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔
(لقمان 15)
لیکن اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے ۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔
اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
لاَ طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوفِ
( صحیح البخاری:7257)
اللہ کی معصیت میں کوئی اطاعت نہیں ہے بے شک اطاعت نیکی کے کاموں میں ہے۔
تیسرا اسلوب:
اللہ کی صفات کا اقرار کروانا: (ذاتی پہلو)
اگر ہم پہلے دو اسلوبوں کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گے کہ جب بچے کو ایمان کی طرف دعوت دی جائے اللہ کے فرامین بتائیں جائیں نیکی پر جنت کی بہاروں کی نوید اور نافرمانی پر جہنم کی ہولناکیاں بتائی جائیں تو بچے کے ذہن میں یہ باتیں ضرور آئیں گیں کہ اللہ کی صفات کیسی ہیں،اگر میں کچھ کرتا ہوں تو اللہ کو کیسے معلوم کے میں نے کیا ہے۔!
اس لئے قرآن نے اس اسلوب کی طرف بطریق احسن دعوت دی ہے، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں کہ لقمان اپنے بیٹے کو کس انداز سے اللہ کی صفات کی طرف بلا رہے ہیں:
يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ
(لقمان 16)
(اور لقمان نے کہا تھا ) کہ ’’ بیٹا کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو ، اللہ اُسے نکال لائے گا وہ باریک بین اور باخبر ہے۔
اللہ کی صفات پر یقن لانے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ بچے بڑے ہو کر بھی کچھ کرنے لگیں کے تو ان کے دل میں یہ خیال ہوگا ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جو ان کی حرکتوں کو دیکھ رہی ہے جو یہ جانتی ہے کہ رات کے اندھیروں میں اور لوگوں سے چھپ کر کیا جانے والا عمل لوگوں سے تو اوجھل ہو سکتا ہے لیکن اللہ رب العزت سے نہیں اور پھر اللہ تعالی ان اعمال کو قیامت کے دن لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا تو کیا حالت ہو گی، اسی پر اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے اور لوگوں کی حالت کی عکاسی اس طرح سے ہو رہی ہے:
وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۭ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا ۔
(الکھف :49)
ور نامہ ٔ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ’’ ہائے ہماری کم بختی ! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہو گئی ہو۔‘‘ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔
ایسے ہی اللہ کی صفات باریک بینی اور خبر گیری کا یقین رکھنے والی تربیت ہی انسان کو نیکی کی طرف راغب کرتے ہوئے برائی سے دور لے جاتی ہےجو صرف اس انسان کےلئے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کےلئے فائد ہ مند ثابت ہوتی ہے۔
چوتھا اسلوب:
نماز کی ادئیگی کے ساتھ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ،(ذاتی ومعاشرتی پہلو)
بچوں کی ان بنیادی تربیتوں کے بعد اس کو شعائز اسلام اور احکامات کی طرف دعوت دینا بے حد ضروری امر ہے اگر آپ بچے کو اسلام کے بنیادی اصول اور اراکین سے بے بہرہ رکھیں گے تو وہ دنیاوی لحاظ سے کتنا ہی ترقی پر کیوں نہ چلا جائے، دینی لحاظ سے بے فائدہ ہی رہے گا اس پر قرآن کی طرف رجوع کریں:
يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔
(لقمان 17)
بیٹا ، نماز قائم کر ، نیکی کا حکم دے ، بدی سے منع کر ، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔
اس اسلوب میں انسان کی ذات کے ساتھ خاص چار بڑی باتیں ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہیں:
1: نماز
2:نیکی کا حکم دینا
3: برائی سے روکنا:
4: پریشانی پر صبر سے کام لینا،
یہ چار چیزیں ایسی ہیں جو انسان ان پر عمل پیرا ہو جاتا ہے وہ دنیاوی اوراخروی طور پر سرخرور ہو جاتا ہے اگر ہم جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ ان ہی چیزوں کے گرد گردش کرتاہے ۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایمان کی علامات میں سے، جبکہ نماز دین کا اولین فرض ہے جس کی نماز درست ہوجائے اس کے باقی امور با لاولی درست ہوتے چلے جاتے ہیں، نیز تکلیف پر صبر انسان کو مضبوط بناتا ہے اور اللہ پر مکمل بھروسے کی طرف راغب کرتا ہے۔
پانچواں اسلوب:
تکبر سے دوری،( ذاتی ومعاشرتی پہلو)
قرآن نے بڑے خوب تر انداز سے تربیت اولاد کو بیان کیا اگر ہم تھوڑی سی توجہ سے دیکھیں تو سب سے پہلے انسان کی ذات کو مقدم کیا گیا جب اس کی اصلاح ہو گئی تو معاشرتی طور پر اس کو اچھا انسان بننے کی تلقین کی گئی تاکہ معاشرے میں امن بھی قائم رہ سکے اور عدل و اعتدال بھی لھذا بچوں کی یہ تربیت کرنی چاہئے جس کی طرف قرآن مجید فرقان حمید میں یو ارشاد ہوتاہے:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۔
(لقمان:18)
اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔
اپنی چال میں اعتدال رکھیں اللہ کی نعمتوں پر فخر و تکبر نہ کریں کیوں کہ اگر اللہ نعمتیں دے سکتا ہے تو وہ نعمتیں لے بھی سکتاہے، لہذا نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے نہ کہ تکبر و غرور کے ساتھ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا چاہئے ،اس کی مثالیں ہمیں جابجا ملتی ہیں فرعون و نمرود کا واقعہ اسی طرح قارون اور شیطان کے تکبر کا واقعہ تو ایسے واقعات بچوں کو سنانے چاہیں تاکہ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ سکے کہ اللہ کو تکبر ناپسند اور عاجزی سے محبت ہے۔
چھٹا اسلوب:
چال میں اعتدال اور آواز کی پستگی،(ذاتی ومعاشرتی پہلو)
قرآن کی اس آیت پر غور کریں اور پھر اس کی گہرائیوں کا اندازہ کریں کے اسلام نے تربیت اولاد کے ساتھ معاشرے کو کس طرح سے محفوظ کر دیا ہے :
وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ۔(19)
اپنی چال میں اعتدال اختیار کر۔ اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔
اس آیت کے دو جز ہیں اور دونوں میں ہی کنایہ کر کے معاشرتی سکون کا اجمالی احاطہ کیا گیاہے، اپنی چال میں اعتدال سے صرف چلانا ہی مراد نہیں ہے بلکہ کنایہ کیا گیا ہے کہ اپنے معاملات چاہئے وہ معاشی ہوں ،معاشرتی ہوں، سیاسی ہوں یا عائلی ہوں سب میں اعتدال و قناعت کو ملحوظ رکھا جائے کیونکہ کسی بھی قسم کی زیادتی خواہ وہ مثبت کام میں ہو یا منفی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام نے عبادات میں بھی اعتدال کی راہ کو اختیار کیا ہے،اگر ایک ہی وقت میں پانچ نمازوں کے پڑھنے کا حکم دے دیا جاتا تو کون پڑھتا۔! اگر ہر سال حج فرض کر دیا جاتاہے تو کون کرتا۔۔! اگر چھے ماہ کے روزے فرض ہو جاتے تو کیسے نیکی کو پہنچ پاتے۔۔! علی ھذا القیاس، اسی طرح معاشرے میں بھی اعتدال کو ہی اہمیت دی گئی ہے۔
آیت کے دوسرے جز میں آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جو کہ ایک معاشرتی اچھائی پر دلالت کرتا ہے، اور کنایہ کیا گیاہے کہ اونچی اونچی آوازیں تو گدھوں کی ہوتی ہیں، تاکہ اچھے انداز سے گفتگو کا ڈھنگ آئے ، تاکہ جب آپ محفل میں بیٹھے ہوں تو لوگ آپ سے محبت کریں نہ کہ آپ کی موجودگی ان کےلئے باعث اذیت ہو۔
آج اگر ہم صرف انہی پہلوں کو سامنے رکھ کر اپنے بچوں کی تربیت کریں تو ان شا اللہ ہم معاشرے کو اچھے لو گ فراہم کرنے میں کامیاب ہوں گے جو ہر لحاظ سے سود مند ثابت ہوگا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو اپنے دین کی خاطر پسند فرما لیں اور آج جو معاشرتی برائیاں پیدا ہو گئی ہیں ان سے محفوظ فرما کر ہمیں اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کی توفیق عطا فرمائیں ۔اپنے اس مضمون کو اس دعا کے ساتھ ختم کرتاہوں۔
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًاز
(الفرقان 74)
جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔
الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد۔۔!
وقت کی رفتار گزشتہ ایام سے بے تحاشہ تیز تر ہو گئی ہے اور اس وقت کی رفتار میں انسان بھی خوب ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آسمانوں تک جا پہنچا ہے، لیکن جہاں اس ترقی نے بنی نوع انسان کو چاند پر جانے کا راستہ دیا اور مریخ تک رسائی دی وہاں ہی اس جدید ٹیکنالوجی نے معاشرتی طورپر بہت زیادہ مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں،آج لو گ موبائلز اور انٹرنیٹ کے سبب بہت سارے پیاروں سے ہزاروں میل دور بات کر لیتےہیں لیکن پاس بیٹھے انسان کو بھول گئے ہیں، ایسے بہت سارے مسائل میں سے ایک مسئلہ تربیت اولاد ہے جو آج کے دور کا سب سے سنگین مسئلہ بن چکاہے، تربیت اولاد ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جو انسان کے ساتھ نسلوں تک منقتل ہوتا چلا جاتاہے اور اس کا اثر کئی کئی ادوارپر مشتمل نظر آتاہے۔
آج ماں باپ اولاد کو نصیحت اول تو کرتے ہیں نہیں اور اگر کریں تو وہ بے معنی و بے سود ثابت ہوتی ہے، جبکہ باپ کا اولاد کو نصیحت کرنا اور اس کی تربیت کرنا ایک اہم اسلامی فرض ہے،والدین اور اولاد کا رشتہ دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو کسی بھی مفاد سے بالاتر ہے ۔والدین کی اولاد کو نصیحت ہی اس کے درست و غلط راستے کا تعین کرتی ہے، اسکی طرف حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اشارہ یوں ملتاہے:
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ،
صحیح البخاری: 1358
یہ حدیث ہمارے لئے بالکل واضح طورپریہ اعلان کر رہی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتاہے،لیکن اس کے ماں باپ جو اس کو نصیحت کریں گے اسی لحاظ سےوہ یہودی وعیسائی اور مجوسی بن جاتا ہے، اس سے ہم نصیحت والدین کا باخوبی اندازہ لگا سکتےہیں۔
والدین بچوں کی تربیت پر مسئول ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔ (بخاری 893)
اس لئے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اگر آج ہم اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کریں گے تو کل اس پر ہم سے سوال ہو گا جس کا جواب ہم نے کیا دینا ہے یہ ہمیں آج ہی سوچنا ہوگا۔
اسلام نے ہمیں اس تربیت اولاد کی طرف بہت ہی اچھےانداز سے ناصرف دعوت دی ہے بلکہ ہمارےلئے اسلوب بھی وضع کر دیئے ہیں، ذیل میں ہم ان اسالیب کا احاطہ قرآن مجیدکی سورۃ لقمان کی روشنی میں کرتےہیں۔
اللہ رب العزت نے لقمان کو بڑی حکمت و دانائی سے نوازا تھا،اور اسی حکمت کے انداز سے انہوں اپنے بیٹے کو نصیحت کی جو اللہ کے ہاں اس قدر مقبول ٹھری کے قیامت تک کے لئےہمارے لئے ایک قدوۃ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
پہلا اسلوب:
(اسلام) اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور شرک سے دوری۔ (ذاتی پہلو)
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ۔ (لقمان13:)
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا بے شک شرک بہت بڑا ظلم (گناہ)ہے۔
تربیت اولاد میں سب سے پہلے بچوں کے دلوں میں اس بات کو راسخ کرنا چاہئے کہ زمین و آسمان کا مالک ایک اللہ ہے جس نےہمیں پیدا کیا جو ہمارے رزق کا ذمہ دار ہے جس نے ہمیں اس دنیا میں کچھ مقاصد کےلئے بھیجا جن میں سے سب سے پہلااور اہم مقصد یہ ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے، کیونکہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہی وہ کام ہے جو انسان کی نجات کا ذریعہ ہے، اور انسان کی نیکیوں کی مقبولیت کا یہ ہی واحد راستہ ہے،بچوں کے دلوں میں شرک سے خوف کو بھرنا چاہئے کیونکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
(النسا116)
بے شک اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کریں گے اور اسکے سوا جو بھی وہ معاف کر دے گا جس کو چاہے گا، اور جس نے شرک کیا یقینا وہ گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔
ان کو یہ بات اس انداز سے سیکھانی چاہئے کہ ان کو قتل ہو جانا شرک کرنے سے کہیں زیادہ آسان لگے جس کےلئے صحابہ کرام کے ایمان کے واقعات ان کو سننانے چاہیں تاکہ ان کے اندر ایمان کی پختگی آجائے۔
دوسرا اسلوب:
والدین کی فرماں برداری: (ذاتی پہلو)
لقمان کے پند و نصائح کی طرف نظر جائے تو ہمیں معلوم ہوگا ہےکہ توحید کے اقرارکے بعد سب سے افضل عمل ماں باپ کی فرماں برداری کرنا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
(لقمان:14)
اور یہ حقیقت ہے کہ ہم انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے ۔ اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ ( اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
ایک دوسری آیت سے بھی اس کی طرف یوں راہنمائی ملتی ہے:
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ۔
(بنی اسرائیل ۲۳)
تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ: تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو ، مگر صرف اُس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک ، یا دونوں ، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ،بلکہ ان سے احترام کے ساتھ (شریفانہ) بات کرو،
یہ ایک کھلی اور آزمودہ حقیقت ہے کہ بچے اگر والدین کے فرماں بردار بن جائیں تو گھر بھی جنت بن جاتا ہے اور ماں باپ کو وفات کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہتا ہے،آج ہمارے ہاں عموما یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ بچے والدین کے ساتھ احترام و شفقت سے پیش ہی نہیں آتے جس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے بچوں کی تربیت اسلامی نھج پر کرنا چھوڑ دی ہے ہم نے ان کو دنیا کی ہر نعمت تو فراہم کر دی ہےلیکن ان کی روح کی غذا اور اس کے درست راستے کا تعین نہیں کیا، ہمارے بچوں کی تربیت آج کے دور میں میڈیا اور مغرب کر رہا ہے جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
جہاں والدین کی تعظیم کا اس قدر حکم ہے وہاں ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اگر وہ تمہیں اللہ کی طرف شرک کرنے کی دعوت دیں یا کوشش کریں تو ان کی بات نہیں ماننی ہے لیکن پھر بھی ان کے ساتھ شفقت سے پیش آنا ہے، قرآن کی اس آیت کی طرف نظر دوڑائیں۔
وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔
(لقمان 15)
لیکن اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے ۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔
اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
لاَ طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوفِ
( صحیح البخاری:7257)
اللہ کی معصیت میں کوئی اطاعت نہیں ہے بے شک اطاعت نیکی کے کاموں میں ہے۔
تیسرا اسلوب:
اللہ کی صفات کا اقرار کروانا: (ذاتی پہلو)
اگر ہم پہلے دو اسلوبوں کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گے کہ جب بچے کو ایمان کی طرف دعوت دی جائے اللہ کے فرامین بتائیں جائیں نیکی پر جنت کی بہاروں کی نوید اور نافرمانی پر جہنم کی ہولناکیاں بتائی جائیں تو بچے کے ذہن میں یہ باتیں ضرور آئیں گیں کہ اللہ کی صفات کیسی ہیں،اگر میں کچھ کرتا ہوں تو اللہ کو کیسے معلوم کے میں نے کیا ہے۔!
اس لئے قرآن نے اس اسلوب کی طرف بطریق احسن دعوت دی ہے، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں کہ لقمان اپنے بیٹے کو کس انداز سے اللہ کی صفات کی طرف بلا رہے ہیں:
يٰبُنَيَّ اِنَّهَآ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِيْ صَخْـرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ
(لقمان 16)
(اور لقمان نے کہا تھا ) کہ ’’ بیٹا کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو ، اللہ اُسے نکال لائے گا وہ باریک بین اور باخبر ہے۔
اللہ کی صفات پر یقن لانے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ بچے بڑے ہو کر بھی کچھ کرنے لگیں کے تو ان کے دل میں یہ خیال ہوگا ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جو ان کی حرکتوں کو دیکھ رہی ہے جو یہ جانتی ہے کہ رات کے اندھیروں میں اور لوگوں سے چھپ کر کیا جانے والا عمل لوگوں سے تو اوجھل ہو سکتا ہے لیکن اللہ رب العزت سے نہیں اور پھر اللہ تعالی ان اعمال کو قیامت کے دن لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا تو کیا حالت ہو گی، اسی پر اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے اور لوگوں کی حالت کی عکاسی اس طرح سے ہو رہی ہے:
وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ۭ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا ۔
(الکھف :49)
ور نامہ ٔ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ’’ ہائے ہماری کم بختی ! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہو گئی ہو۔‘‘ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔
ایسے ہی اللہ کی صفات باریک بینی اور خبر گیری کا یقین رکھنے والی تربیت ہی انسان کو نیکی کی طرف راغب کرتے ہوئے برائی سے دور لے جاتی ہےجو صرف اس انسان کےلئے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کےلئے فائد ہ مند ثابت ہوتی ہے۔
چوتھا اسلوب:
نماز کی ادئیگی کے ساتھ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ،(ذاتی ومعاشرتی پہلو)
بچوں کی ان بنیادی تربیتوں کے بعد اس کو شعائز اسلام اور احکامات کی طرف دعوت دینا بے حد ضروری امر ہے اگر آپ بچے کو اسلام کے بنیادی اصول اور اراکین سے بے بہرہ رکھیں گے تو وہ دنیاوی لحاظ سے کتنا ہی ترقی پر کیوں نہ چلا جائے، دینی لحاظ سے بے فائدہ ہی رہے گا اس پر قرآن کی طرف رجوع کریں:
يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔
(لقمان 17)
بیٹا ، نماز قائم کر ، نیکی کا حکم دے ، بدی سے منع کر ، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔
اس اسلوب میں انسان کی ذات کے ساتھ خاص چار بڑی باتیں ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہیں:
1: نماز
2:نیکی کا حکم دینا
3: برائی سے روکنا:
4: پریشانی پر صبر سے کام لینا،
یہ چار چیزیں ایسی ہیں جو انسان ان پر عمل پیرا ہو جاتا ہے وہ دنیاوی اوراخروی طور پر سرخرور ہو جاتا ہے اگر ہم جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ ان ہی چیزوں کے گرد گردش کرتاہے ۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایمان کی علامات میں سے، جبکہ نماز دین کا اولین فرض ہے جس کی نماز درست ہوجائے اس کے باقی امور با لاولی درست ہوتے چلے جاتے ہیں، نیز تکلیف پر صبر انسان کو مضبوط بناتا ہے اور اللہ پر مکمل بھروسے کی طرف راغب کرتا ہے۔
پانچواں اسلوب:
تکبر سے دوری،( ذاتی ومعاشرتی پہلو)
قرآن نے بڑے خوب تر انداز سے تربیت اولاد کو بیان کیا اگر ہم تھوڑی سی توجہ سے دیکھیں تو سب سے پہلے انسان کی ذات کو مقدم کیا گیا جب اس کی اصلاح ہو گئی تو معاشرتی طور پر اس کو اچھا انسان بننے کی تلقین کی گئی تاکہ معاشرے میں امن بھی قائم رہ سکے اور عدل و اعتدال بھی لھذا بچوں کی یہ تربیت کرنی چاہئے جس کی طرف قرآن مجید فرقان حمید میں یو ارشاد ہوتاہے:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۔
(لقمان:18)
اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔
اپنی چال میں اعتدال رکھیں اللہ کی نعمتوں پر فخر و تکبر نہ کریں کیوں کہ اگر اللہ نعمتیں دے سکتا ہے تو وہ نعمتیں لے بھی سکتاہے، لہذا نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے نہ کہ تکبر و غرور کے ساتھ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا چاہئے ،اس کی مثالیں ہمیں جابجا ملتی ہیں فرعون و نمرود کا واقعہ اسی طرح قارون اور شیطان کے تکبر کا واقعہ تو ایسے واقعات بچوں کو سنانے چاہیں تاکہ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ سکے کہ اللہ کو تکبر ناپسند اور عاجزی سے محبت ہے۔
چھٹا اسلوب:
چال میں اعتدال اور آواز کی پستگی،(ذاتی ومعاشرتی پہلو)
قرآن کی اس آیت پر غور کریں اور پھر اس کی گہرائیوں کا اندازہ کریں کے اسلام نے تربیت اولاد کے ساتھ معاشرے کو کس طرح سے محفوظ کر دیا ہے :
وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ۔(19)
اپنی چال میں اعتدال اختیار کر۔ اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ۔
اس آیت کے دو جز ہیں اور دونوں میں ہی کنایہ کر کے معاشرتی سکون کا اجمالی احاطہ کیا گیاہے، اپنی چال میں اعتدال سے صرف چلانا ہی مراد نہیں ہے بلکہ کنایہ کیا گیا ہے کہ اپنے معاملات چاہئے وہ معاشی ہوں ،معاشرتی ہوں، سیاسی ہوں یا عائلی ہوں سب میں اعتدال و قناعت کو ملحوظ رکھا جائے کیونکہ کسی بھی قسم کی زیادتی خواہ وہ مثبت کام میں ہو یا منفی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام نے عبادات میں بھی اعتدال کی راہ کو اختیار کیا ہے،اگر ایک ہی وقت میں پانچ نمازوں کے پڑھنے کا حکم دے دیا جاتا تو کون پڑھتا۔! اگر ہر سال حج فرض کر دیا جاتاہے تو کون کرتا۔۔! اگر چھے ماہ کے روزے فرض ہو جاتے تو کیسے نیکی کو پہنچ پاتے۔۔! علی ھذا القیاس، اسی طرح معاشرے میں بھی اعتدال کو ہی اہمیت دی گئی ہے۔
آیت کے دوسرے جز میں آواز کو پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جو کہ ایک معاشرتی اچھائی پر دلالت کرتا ہے، اور کنایہ کیا گیاہے کہ اونچی اونچی آوازیں تو گدھوں کی ہوتی ہیں، تاکہ اچھے انداز سے گفتگو کا ڈھنگ آئے ، تاکہ جب آپ محفل میں بیٹھے ہوں تو لوگ آپ سے محبت کریں نہ کہ آپ کی موجودگی ان کےلئے باعث اذیت ہو۔
آج اگر ہم صرف انہی پہلوں کو سامنے رکھ کر اپنے بچوں کی تربیت کریں تو ان شا اللہ ہم معاشرے کو اچھے لو گ فراہم کرنے میں کامیاب ہوں گے جو ہر لحاظ سے سود مند ثابت ہوگا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو اپنے دین کی خاطر پسند فرما لیں اور آج جو معاشرتی برائیاں پیدا ہو گئی ہیں ان سے محفوظ فرما کر ہمیں اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کی توفیق عطا فرمائیں ۔اپنے اس مضمون کو اس دعا کے ساتھ ختم کرتاہوں۔
وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًاز
(الفرقان 74)
جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے ربّ ، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔