حرب بن شداد
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2012
- پیغامات
- 2,149
- ری ایکشن اسکور
- 6,345
- پوائنٹ
- 437
تربیت نفس!۔
کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ تربیت نفس کا مقصد کیا ہے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مختلف تربیتی اسلوب ہیں جن کی ایک مسلمان مرد ہو یا عورت اپنے آپ کو علمی، ایمانی، اخلاقی اور اجتماعی پہلوؤں سے ایک مکمل اسلامی شخصیت میں ڈھالنے کی ہدایت ورہنمائی کرتا ہے اور اسے بشرٰی کمال کی سب سے اونچی سیڑھیوں میں پہنچاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں انسان کا اپنے نفس وذات کی مختلف اسالیب کے تحت اور تمام پہلوؤں سے تربیت کرنا ہے۔
اور اس معنی میں یہ تربیت اجتماعی تربیت کے روبرو ہوتی ہے یا ان عام میدانوں کا سامنا کرتی ہے کہ جن پر ایک انسان عملا چل رہا ہے اور وہ میدانوں میں دوسروں کا شریک کار ہے یا وہ ان میں ان کے ساتھ نشوونما پارہا ہے مثلا مسجد، مدرسہ، خاندان ذرائع ابلاغ ووسائل اعلام، صحبت ورفاقت، سفر وزیارت وغیرہ متعدد سرگرمیاں اور عمومی پروگرام۔
ذاتی تریبت کی اہمیت!۔
ذاتی تربیت کے اسلوب اور ایک مسلمان پر اس کے دنیا وآخرت میں اثرات ونتائج پر گفتگو سے قبل یہ مناسب ہے کہ ہم اس کی اہمیت اور ہر مسلمان مرد وعورت کو اس کی حاجت وضرورت کے بارے میں بیان کریں تاکہ یہ ہمارے لئے اس پر کاربند ہونے اور اس کی پابندی کرنے کا سب سے بڑا باعث ومحرک بنے اور خصوصا اس دور میں۔
اولا!۔ جان کی حفاظت دوسری تمام باتوں پر مقدم ہے!۔
ایک مسلمان کی اپنے نفس کی تربیت اللہ تعالٰی کے عذاب اور جہنم سے اس کی حفاظت وبچاؤ کا سبب ہے اور بلاشبہ اپنی جان کی حفاظت دوسرے تمام جانوں کی حفاظت سے مطلقا مقدم ہوتی ہے جیسا کہ ایک انسان اس وقت کرتا ہے جب اس کے گھر میں یا کسی دوسرے مکان میں آگ لگ جائے تو سب سے پہلے وہ اپنی جان بچانے کی فکر کرتا ہے اس کے بعد دوسروں کے جان ی اس حقیقت کی اللہ تعالٰی کا یہ فرمان تائید کرتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴿التحریم ٦﴾
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔
اور بقول علامہ عبدالرحمٰن ناصر السعدی رحمہ اللہ نفس کو بچانے کا معنی یہ ہے کہ نفس کو اللہ تعالٰی کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا پابند بنایا جائے اور ہر اس بات سے توبہ کی جائے جس سے اللہ تعالٰی ناراض ہو اور اس کے عذاب کا موجب ہو۔
یہی ذاتی تربیت کا معنی ومفہوم ہے اور یہی اس کی غرض وغایت (تیسیر الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان صفحہ ٨٠٩)۔
ثانیا! اگر آپ خود اپنے نفس کی تربیت نہ کریں تو پھر آپ کی تربیت کون کرے گا؟۔
کون آدمی کی تربیت کرے جس وہ اپنی عمر کی پندرہویں یا بیسویں یا تیسویں یا اس سے زیادہ کی بہار کو دیکھ کر دیکھ لے حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب خود اپنے نفس کی تربیت نہ کرے تو کوئی بھی شخص اس کی تربیت نہیں کرسکتا اور نہ اس پر کوئی اپنا اثر ڈال ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے والدین خصوصا اور تمام لوگ عموما سمجھ لیتے ہیں کہ لڑکا اب بڑا ہوچکا ہے اور وہ اپنے نفس کے مصالح سے زیادہ واقف ہوچکا ہے یا وہ لوگ اب اس سے بےپروا ہو کر دنیوی امور میں مشغول ہوگئے ہیں جو اس کے طاعت کے موقعوں اور خیر کے مناسبتوں کے ضائع ہونے کا سبب ہے اگر وہ بذات خود اپنے نفس کی تربیت کا بیڑا نہ اٹھائے اس کا وقت گزرتا چلا جائے گا اس کی عمر ضائع ہوتی رہے گی اور وہ اپنی کمی کا تدارک وتلافی نہیں کرسکے گا، یا وہ کمال بشرٰی کی تگ ودو کرے گا جو اس سے فوت ہوچکا ہے اور موت کی گھڑیوں میں کف افسوس ملے گا اور تغابن (ہارجیت) کے دن بھی۔
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ(التغابن ٩)۔
جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا وہی دن ہے ہارجیت کا۔
ثالثا! حساب وکتاب انفرادی طور پر ہوگا۔
کیونکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے بروز قیامت بندوں کا حساب وکتاب انفرادی طور پر ہوگا اجتماعی طور پر نہیں یعنی ہر انسان اپنے نفس اور اپنے تمام اچھے وبرے عمل وتصرف کا ذمہ دار خود ہوگا اور تنہا اس سے ہی ان اعمال کا حساب لیا جائے گا خواہ وہ اس بات کا دعوٰی کرے کہ اس کے ان عملوں کے ارتکاب میں، یا ان میں کوتاہی واہمال میں، یا اس کے انحراف وگمراہی میں دوسرے لوگ سبب رہے ہیں اور اس کے اس زعم باطل کے مطابق اس کے ساتھ ان لوگوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے۔
وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا (سورہ مریم ٩)۔
یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں
نیز ارشاد ربانی ہے
وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا الاسراء ١٣-١٤)۔
ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگادیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے، آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔
اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ارشاد ہے
مامنکم من احد الا سیکلمہ ربہ لیس بینہ وبینہ ترجمان۔
تم میں سے کوئی نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے ہم کلام ہوگا اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔
لہذا جس نے اپنے نفس کی حقیقی معنی میں تربیت کی ہوگی اللہ کے اذن سے اس کے حساب میں تخفیف ہوگی اور اس کی رحمت کے سبب وہ عذاب سے نجات پاجائے گا۔
رابعا! اصلاح نفس پر سب سے بڑا قادر۔
کوئی بھی انسان عیوب اور نقائص سے پاک نہیں ہے، یا کوئی شخص بھی کوتاہی وگناہ کے ارتکاب سے چاہے کم ہو یا زیادہ، خالی نہیں ہے جب یہ ایک قطعی امر ہے تو ان پہلوؤں کا علاج اور اول امر میں، یاپانی سر سے اونچا ہوجانے سے قبل ہی اس کی اصلاح کی سخت حاجت وضرورت ہوگی اور کوئی بھی انسان اپنی غلطیوں کی اصلاح یا اپنے عیوب کا علاج وتدارک کامل اور مستقل طور پر نہیں کرسکتا، الا یہ کہ ذاتی تربیت کے راستے سے اس مہم جوئی کا بیڑا اٹھائے، کیونکہ وہ اپنے نفس کے احوال کا سب سے زیادہ جانکار اور اس کے پوشیدہ راز واسرار سے زیادہ واقف ہے لہذا اگر وہ خود اپنی تربیت کرنا چاہے تو نفس کو قابو وکنٹرول کرکے متعین طریق، اچھے سلوک وبرتاؤ اور مفید سرگرمی وحرکت اور عمل کی جانب موڑ سکتا ہے۔
خامسا! ثبات اور استقامت کا وسیلہ وذریعہ!۔
کیونکہ تربیت ہی ایک مسلمان کے ایمان وہدایت کے طریقہ پر باذن الٰہی زندگی کے آخری سانسوں تک ثابت قدم رکھنے کا اولین سبب وذریعہ ہے اور یہی ان فتنوں اور ورغلانے والی باتوں کے مقابلے کا دفاعی خط ہے جو دور حاضر میں ایک مسلمان پر منڈلا رہی ہیں اور اسے انحراف وانحطاط، ضعف وگمنامی یا مستقبل میں خوف کا شعور واحساس اور عصر حاضر کے حقائق سے نچلی سطح تک گرجانے پر شدت کے ساتھ ورغلا رہی ہیں اور اس پہلو سے ذاتی تربیت کی مثال ایک درخت کی سی ہے کہ جتنا زیادہ اس کی جڑیں زمین میں پھیلتی جائیں گی اتنا ہی وہ آندھیوں اور بگولوں کے آگے ڈٹ کر ثابت رہ سکے گا۔
سادسا! تربیت ہی دعوت کی سب سے بڑی موثر چیز ہے۔
دراصل ہر مسلمان مردوعورت کو ایک داعی کا رول ادا کرنا چاہئے جو اصلاح کرے، تعلیم دے رہنمائی کرے اور اپنے علم وقدرت کے مطابق تربیت کرے اس سبب سے کہ وہ اپنے وپرائے لوگوں میں مقبول ہے اور ان کی زندگی میں اصلاح وتاثیر پر قدرت رکھتا ہے اس لئے وہ طاقتور زاد سفر اور کارگر ہتھیار کا سخت احتیاج مند ہے اور ان کی دعوت اور قبولیت میں اس سے زیادہ گہرا اثر انداز شئے اور کوئی نہیں ہے کہ ایک انسان لوگوں کے لئے نیک قدوہ بن جائے اور اپنے ایمان، علم اور اخلاق میں ممتاز ترین اسوہ ثابت ہو اور فقط کثرت تقریر وخطبہ اسے اس مثالی قدوہ اور عوام میں کافی طاقتور اثر ڈالنے کے درجہ پر فائز نہیں کرسکتے، بلکہ ایک داعیہ کے اندر یہ خوبی اس کی حقیقی ذاتی تربیت ہی پیدا کرسکتی ہے۔
سابعا! اصلاح احوال کا صحیح طریقہ!۔
کیا مسلمانوں میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جو امت اسلامیہ کے تمام پہلوؤں سے حالت زار کا، خواہ وہ دینی حالت ہو، یااقتصادی، سیاسی حالت ہو یا ذرائع ابلاغی اور یا اجتماعی حالت ہو شاکی نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک بھی ایسا انسان نہیں ہے لیکن آپ کے خیال میں اس کڑوی صورت حال کی اصلاح کا کیا طریقہ ہے جس سے آج امت اسلامیہ دوچار ہے؟ اور اس کے علاج کے لئے صحیح سمت پر چلنے کا محفوظ صحیح اقدام کیا ہے؟ کیا وہ صرف شکوہ وشکایت کا طریقہ اور لاحول پڑھنا رہ گیا ہے؟ یا مختصر لفظوں میں اپنی جدوجہد اور دیگر وسائل کو ترک کئے بغیر ذاتی تربیت سے اس اصلاح کا آغاز ہوتا ہے جب تمام افراد خواہ مرد ہوں یا عورت اس مہم جوئی کا بیڑا احسن پیرائے اور پوری جامعیت وتوازن کے ساتھ اٹھالے، کیونکہ جب فرد کی اصلاح ہوگی تو باذن اللہ خاندان کی اصلاح ہو جائے گی اور پھر اس طریقہ سے معاشرہ کی اصلاح ہوتی جائے گی تو پھر رفتہ رفتہ پوری امت اسلامیہ کے حالات سدھرتے وبدلتے چلے جائیں گے۔
ثامنا! اس تربیت کے امتیاز وتفوق کے لئے۔
اور اخیر میں۔۔۔۔۔۔ تربیت کی اہمیت اس پر کاربند ہونے کی سہولت وآسانی، اس اسلوب کے تنوع وتعداد اور ہرحال، ہر وقت اور ہرجگہ اس کے ایک مسلمان کو دستیاب ہونے کے سبب ظاہر ہوجاتی ہے۔
کوئی یہ سوال کرسکتا ہے کہ تربیت نفس کا مقصد کیا ہے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مختلف تربیتی اسلوب ہیں جن کی ایک مسلمان مرد ہو یا عورت اپنے آپ کو علمی، ایمانی، اخلاقی اور اجتماعی پہلوؤں سے ایک مکمل اسلامی شخصیت میں ڈھالنے کی ہدایت ورہنمائی کرتا ہے اور اسے بشرٰی کمال کی سب سے اونچی سیڑھیوں میں پہنچاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں انسان کا اپنے نفس وذات کی مختلف اسالیب کے تحت اور تمام پہلوؤں سے تربیت کرنا ہے۔
اور اس معنی میں یہ تربیت اجتماعی تربیت کے روبرو ہوتی ہے یا ان عام میدانوں کا سامنا کرتی ہے کہ جن پر ایک انسان عملا چل رہا ہے اور وہ میدانوں میں دوسروں کا شریک کار ہے یا وہ ان میں ان کے ساتھ نشوونما پارہا ہے مثلا مسجد، مدرسہ، خاندان ذرائع ابلاغ ووسائل اعلام، صحبت ورفاقت، سفر وزیارت وغیرہ متعدد سرگرمیاں اور عمومی پروگرام۔
ذاتی تریبت کی اہمیت!۔
ذاتی تربیت کے اسلوب اور ایک مسلمان پر اس کے دنیا وآخرت میں اثرات ونتائج پر گفتگو سے قبل یہ مناسب ہے کہ ہم اس کی اہمیت اور ہر مسلمان مرد وعورت کو اس کی حاجت وضرورت کے بارے میں بیان کریں تاکہ یہ ہمارے لئے اس پر کاربند ہونے اور اس کی پابندی کرنے کا سب سے بڑا باعث ومحرک بنے اور خصوصا اس دور میں۔
اولا!۔ جان کی حفاظت دوسری تمام باتوں پر مقدم ہے!۔
ایک مسلمان کی اپنے نفس کی تربیت اللہ تعالٰی کے عذاب اور جہنم سے اس کی حفاظت وبچاؤ کا سبب ہے اور بلاشبہ اپنی جان کی حفاظت دوسرے تمام جانوں کی حفاظت سے مطلقا مقدم ہوتی ہے جیسا کہ ایک انسان اس وقت کرتا ہے جب اس کے گھر میں یا کسی دوسرے مکان میں آگ لگ جائے تو سب سے پہلے وہ اپنی جان بچانے کی فکر کرتا ہے اس کے بعد دوسروں کے جان ی اس حقیقت کی اللہ تعالٰی کا یہ فرمان تائید کرتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴿التحریم ٦﴾
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔
اور بقول علامہ عبدالرحمٰن ناصر السعدی رحمہ اللہ نفس کو بچانے کا معنی یہ ہے کہ نفس کو اللہ تعالٰی کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا پابند بنایا جائے اور ہر اس بات سے توبہ کی جائے جس سے اللہ تعالٰی ناراض ہو اور اس کے عذاب کا موجب ہو۔
یہی ذاتی تربیت کا معنی ومفہوم ہے اور یہی اس کی غرض وغایت (تیسیر الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان صفحہ ٨٠٩)۔
ثانیا! اگر آپ خود اپنے نفس کی تربیت نہ کریں تو پھر آپ کی تربیت کون کرے گا؟۔
کون آدمی کی تربیت کرے جس وہ اپنی عمر کی پندرہویں یا بیسویں یا تیسویں یا اس سے زیادہ کی بہار کو دیکھ کر دیکھ لے حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب خود اپنے نفس کی تربیت نہ کرے تو کوئی بھی شخص اس کی تربیت نہیں کرسکتا اور نہ اس پر کوئی اپنا اثر ڈال ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے والدین خصوصا اور تمام لوگ عموما سمجھ لیتے ہیں کہ لڑکا اب بڑا ہوچکا ہے اور وہ اپنے نفس کے مصالح سے زیادہ واقف ہوچکا ہے یا وہ لوگ اب اس سے بےپروا ہو کر دنیوی امور میں مشغول ہوگئے ہیں جو اس کے طاعت کے موقعوں اور خیر کے مناسبتوں کے ضائع ہونے کا سبب ہے اگر وہ بذات خود اپنے نفس کی تربیت کا بیڑا نہ اٹھائے اس کا وقت گزرتا چلا جائے گا اس کی عمر ضائع ہوتی رہے گی اور وہ اپنی کمی کا تدارک وتلافی نہیں کرسکے گا، یا وہ کمال بشرٰی کی تگ ودو کرے گا جو اس سے فوت ہوچکا ہے اور موت کی گھڑیوں میں کف افسوس ملے گا اور تغابن (ہارجیت) کے دن بھی۔
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ(التغابن ٩)۔
جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا وہی دن ہے ہارجیت کا۔
ثالثا! حساب وکتاب انفرادی طور پر ہوگا۔
کیونکہ اللہ تعالٰی کی طرف سے بروز قیامت بندوں کا حساب وکتاب انفرادی طور پر ہوگا اجتماعی طور پر نہیں یعنی ہر انسان اپنے نفس اور اپنے تمام اچھے وبرے عمل وتصرف کا ذمہ دار خود ہوگا اور تنہا اس سے ہی ان اعمال کا حساب لیا جائے گا خواہ وہ اس بات کا دعوٰی کرے کہ اس کے ان عملوں کے ارتکاب میں، یا ان میں کوتاہی واہمال میں، یا اس کے انحراف وگمراہی میں دوسرے لوگ سبب رہے ہیں اور اس کے اس زعم باطل کے مطابق اس کے ساتھ ان لوگوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہئے اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے۔
وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا (سورہ مریم ٩)۔
یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں
نیز ارشاد ربانی ہے
وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا الاسراء ١٣-١٤)۔
ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگادیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پالے گا لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے، آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے۔
اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ارشاد ہے
مامنکم من احد الا سیکلمہ ربہ لیس بینہ وبینہ ترجمان۔
تم میں سے کوئی نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے ہم کلام ہوگا اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔
لہذا جس نے اپنے نفس کی حقیقی معنی میں تربیت کی ہوگی اللہ کے اذن سے اس کے حساب میں تخفیف ہوگی اور اس کی رحمت کے سبب وہ عذاب سے نجات پاجائے گا۔
رابعا! اصلاح نفس پر سب سے بڑا قادر۔
کوئی بھی انسان عیوب اور نقائص سے پاک نہیں ہے، یا کوئی شخص بھی کوتاہی وگناہ کے ارتکاب سے چاہے کم ہو یا زیادہ، خالی نہیں ہے جب یہ ایک قطعی امر ہے تو ان پہلوؤں کا علاج اور اول امر میں، یاپانی سر سے اونچا ہوجانے سے قبل ہی اس کی اصلاح کی سخت حاجت وضرورت ہوگی اور کوئی بھی انسان اپنی غلطیوں کی اصلاح یا اپنے عیوب کا علاج وتدارک کامل اور مستقل طور پر نہیں کرسکتا، الا یہ کہ ذاتی تربیت کے راستے سے اس مہم جوئی کا بیڑا اٹھائے، کیونکہ وہ اپنے نفس کے احوال کا سب سے زیادہ جانکار اور اس کے پوشیدہ راز واسرار سے زیادہ واقف ہے لہذا اگر وہ خود اپنی تربیت کرنا چاہے تو نفس کو قابو وکنٹرول کرکے متعین طریق، اچھے سلوک وبرتاؤ اور مفید سرگرمی وحرکت اور عمل کی جانب موڑ سکتا ہے۔
خامسا! ثبات اور استقامت کا وسیلہ وذریعہ!۔
کیونکہ تربیت ہی ایک مسلمان کے ایمان وہدایت کے طریقہ پر باذن الٰہی زندگی کے آخری سانسوں تک ثابت قدم رکھنے کا اولین سبب وذریعہ ہے اور یہی ان فتنوں اور ورغلانے والی باتوں کے مقابلے کا دفاعی خط ہے جو دور حاضر میں ایک مسلمان پر منڈلا رہی ہیں اور اسے انحراف وانحطاط، ضعف وگمنامی یا مستقبل میں خوف کا شعور واحساس اور عصر حاضر کے حقائق سے نچلی سطح تک گرجانے پر شدت کے ساتھ ورغلا رہی ہیں اور اس پہلو سے ذاتی تربیت کی مثال ایک درخت کی سی ہے کہ جتنا زیادہ اس کی جڑیں زمین میں پھیلتی جائیں گی اتنا ہی وہ آندھیوں اور بگولوں کے آگے ڈٹ کر ثابت رہ سکے گا۔
سادسا! تربیت ہی دعوت کی سب سے بڑی موثر چیز ہے۔
دراصل ہر مسلمان مردوعورت کو ایک داعی کا رول ادا کرنا چاہئے جو اصلاح کرے، تعلیم دے رہنمائی کرے اور اپنے علم وقدرت کے مطابق تربیت کرے اس سبب سے کہ وہ اپنے وپرائے لوگوں میں مقبول ہے اور ان کی زندگی میں اصلاح وتاثیر پر قدرت رکھتا ہے اس لئے وہ طاقتور زاد سفر اور کارگر ہتھیار کا سخت احتیاج مند ہے اور ان کی دعوت اور قبولیت میں اس سے زیادہ گہرا اثر انداز شئے اور کوئی نہیں ہے کہ ایک انسان لوگوں کے لئے نیک قدوہ بن جائے اور اپنے ایمان، علم اور اخلاق میں ممتاز ترین اسوہ ثابت ہو اور فقط کثرت تقریر وخطبہ اسے اس مثالی قدوہ اور عوام میں کافی طاقتور اثر ڈالنے کے درجہ پر فائز نہیں کرسکتے، بلکہ ایک داعیہ کے اندر یہ خوبی اس کی حقیقی ذاتی تربیت ہی پیدا کرسکتی ہے۔
سابعا! اصلاح احوال کا صحیح طریقہ!۔
کیا مسلمانوں میں ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جو امت اسلامیہ کے تمام پہلوؤں سے حالت زار کا، خواہ وہ دینی حالت ہو، یااقتصادی، سیاسی حالت ہو یا ذرائع ابلاغی اور یا اجتماعی حالت ہو شاکی نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک بھی ایسا انسان نہیں ہے لیکن آپ کے خیال میں اس کڑوی صورت حال کی اصلاح کا کیا طریقہ ہے جس سے آج امت اسلامیہ دوچار ہے؟ اور اس کے علاج کے لئے صحیح سمت پر چلنے کا محفوظ صحیح اقدام کیا ہے؟ کیا وہ صرف شکوہ وشکایت کا طریقہ اور لاحول پڑھنا رہ گیا ہے؟ یا مختصر لفظوں میں اپنی جدوجہد اور دیگر وسائل کو ترک کئے بغیر ذاتی تربیت سے اس اصلاح کا آغاز ہوتا ہے جب تمام افراد خواہ مرد ہوں یا عورت اس مہم جوئی کا بیڑا احسن پیرائے اور پوری جامعیت وتوازن کے ساتھ اٹھالے، کیونکہ جب فرد کی اصلاح ہوگی تو باذن اللہ خاندان کی اصلاح ہو جائے گی اور پھر اس طریقہ سے معاشرہ کی اصلاح ہوتی جائے گی تو پھر رفتہ رفتہ پوری امت اسلامیہ کے حالات سدھرتے وبدلتے چلے جائیں گے۔
ثامنا! اس تربیت کے امتیاز وتفوق کے لئے۔
اور اخیر میں۔۔۔۔۔۔ تربیت کی اہمیت اس پر کاربند ہونے کی سہولت وآسانی، اس اسلوب کے تنوع وتعداد اور ہرحال، ہر وقت اور ہرجگہ اس کے ایک مسلمان کو دستیاب ہونے کے سبب ظاہر ہوجاتی ہے۔