ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
ترجمان القرآن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما
آپ کا نام عبداللہ (رضی اللہ عنہ)، ابوالعباس کنیت تھی۔ آپ کے والد کا نام سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور والدہ کا نام ام الفضل لبابہ رضی اللہ عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
انہوں نے اپنی کم سنی اور نو عمری کے باوجود حصولِ علم کے ہر طریقے کو اختیار کیا اور اس راہ میں انتہائی جاں فشانی اور ان تھک محنت سے کام لیا ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چشمہ صافی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھر سیراب ہوتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ باقی ماندہ علماء صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے بھرپور استفادہ فرمایا۔ وہ اپنے شوقِ علم کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
” جب کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی حدیث ہے تو میں قیلولہ کے وقت دوپہر میں ان کے دروازے پر پہنچ جاتا اور اپنی چادر کو سرہانے رکھ کر ان کے گھر کی چوکھٹ پر لیٹ جاتا۔ اس وقت دوپہر کی تیز اور گرم ہوائیں بہت سا گردو غبار اڑا کر میرے اوپر ڈال دیتیں۔ حالانکہ اگر میں ان کے گھر داخل ہونے کی اجازت مانگتا تو مجھے اجازت مل جاتی۔ لیکن میں ایسا اس لیے کرتا تھا کہ ان کی طبیعت مجھ سے خوش ہو جائے، جب وہ صحابی گھر سے نکلتے اور مجھے اس حال میں دیکھتے تو کہتے؛ ابن عمِ رسول ! آپ نے کیوں یہ زحمت گوارا کی، آپ نے میرے یہاں اطلاع بھجوا دی ہوتی، میں خود حاضر ہو جاتا لیکن میں جواب دیتا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا زیادہ حقدار ہوں کیونکہ حصول علم کے لیے صاحب علم کے پاس جایا جاتا ہے۔ صاحب علم خود طالب علم کے پاس نہیں جایا کرتے۔ پھر میں ان سے حدیث پوچھتا۔
زندگیاں صحابہ کی: ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا
ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدارہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا کان پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کر لیا۔ صحیح بخاری كتاب الدعوات
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں ( قضاء حاجت کے لئے ) گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر نکلے تو پوچھا کہ یہ پانی کس نے رکھا ہے؟ لوگوں نے یا میں نے کہا کہ ابن عباس نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اے اللہ ! اس کو دین میں سمجھ عطا فرما۔
صحیح مسلم ۔کتاب فضائل صحابہ کرام
باب : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھے (اپنی مجلس مشاورت میں) بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ بلالیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ کو یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگے:''آپ اسے ہمارے ساتھ بلالیتے ہیں جبکہ ہمارے بیٹے اس جیسے ہیں'' سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ''اس کی وجہ تم جانتے ہو'' چنانچہ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بھی بزرگ صحابہ کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دن آپ نے مجھے صرف اس لیے بلایا کہ انہیں کچھ دکھائیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ:''اللہ تعالیٰ کے قول
(اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ) نصر"1)
سے تم کیا سمجھتے ہو؟'' بعض لوگوں نے کہا: ''اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں فتح حاصل ہو تو ہمیں چاہیے کہ اللہ کی تعریف کریں اور اس سے بخشش چاہیں'' اور بعض خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ پھر مجھے پوچھا گیا: ''کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟'' میں نے کہا: ''نہیں'' کہنے لگے:''پھر تم کیا کہتے ہو؟'' میں نے کہا: اس سورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے جس سے اللہ نے اپنے رسول کو آگاہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب اللہ کی مدد آپہنچی اور مکہ فتح ہوگیا اور یہی تمہاری وفات کی علامت ہے۔ سو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی تعریف کیجیے، اس سے بخشش مانگیے وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے:''میں بھی اس سے وہی کچھ سمجھاہوں جو تم کہہ رہے ہو'' (بخاری، کتاب التفسیر)
آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے خوارج کے ساتھ مناظرہ کیا
جس کے نتیجے میں دو ہزار خارجی تائب ہوگئے
ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورة فجر کی تفسیر میں آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کا واقعہ بیان کیا ہے
''ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی
سیدنا عبداللہ بن عباس مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی
آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے خوارج کے ساتھ مناظرہ کیا
جس کے نتیجے میں دو ہزار خارجی تائب ہوگئے
ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورة فجر کی تفسیر میں آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کا واقعہ بیان کیا ہے
''ابن ابی حاتم میں یہ روایت بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی
سیدنا عبداللہ بن عباس مفسر القرآن کا طائف میں انتقال ہوا تو ایک پرندہ آیا جس طرح کا پرندہ کبھی زمین پر دیکھا نہیں گیا وہ نعش میں چلا گیا پھر نکلتے ہوئے دیکھا گیا جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو قبر کے کونے سے اسی آیت کی تلاوت کی آواز آئی
(يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً
۔ اے اطمینان والی روح (27) تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وه تجھ سے خوش (28)
اور یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کون پڑھ رہا ہے یہ روایت طبرانی میں بھی ہے ''
اس روایت کی تخریج :
اور یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کون پڑھ رہا ہے یہ روایت طبرانی میں بھی ہے ''
اس روایت کی تخریج :
أخرج الإمام أحمد في ( فضائل الصحابة ) (1879) ــــ ومن طريقه الطبراني في ( الكبير ) (10581) ــــ والحسن بن عرفة في ( جزئه ) (50) والآجري في ( الشريعة ) (1758) وابن سعد في ( الطبقات / الجزء المتمم ) (136) والحاكم في ( المستدرك ) (6312) وابن أبي حاتم في ( تفسيره ) (19299) والثعلبي في (تفسيره ) (10/ 204) والواحدي في ( الوسيط ) (1350) والخطيب البغدادي في ( موضح أوهام الجمع والتفريق ) (2/ 145) وقاضي المارستان في ( مشيخته الكبرى ) (503) : من طرق متعددة عن مروان بن شجاع الجزري عن سالم الأفطس عن سعيد بن جبير قال: مات ابن عباس بالطائف فجاء طير لم ير على خلقه، فدخل نعشه ثم لم ير خارجا منه، فلما دفن تليت هذه الآية عن شفير القبر ما يدرى من تلاها : يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية فادخلي في عبادي وادخلي جنتي .
وقال الهيثمي في ( مجمع الزوائد ) (9/ 285) :" رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح".
قلت : في مروان بن شجاع كلام يسير لا يضر وقد روى له البخاري في الصحيح .
وقد رويت القصة من وجوه أخر عن غير سعيد بن جبير .
وقال الهيثمي في ( مجمع الزوائد ) (9/ 285) :" رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح".
قلت : في مروان بن شجاع كلام يسير لا يضر وقد روى له البخاري في الصحيح .
وقد رويت القصة من وجوه أخر عن غير سعيد بن جبير .