محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
ترغیب و ترھیب (2)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب امر المومنین تھے تو آپؓ کی مجلس میں ملک شام کا ایک بڑا طاقتور شخص آیا کرتا تھا۔ پھر آپؓ نے محسوس کیا کہ کچھ عرصہ سے وہ شخص نہیں آرہا ہے تو آپؓ نے پوچھا:
لوگوں نے کہا:
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ اسے میری طرف سے ایک مکتوب روانہ کرو‘ اس خط میں لکھا:
حم ﴿١﴾ تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٢﴾ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿٣) سورة غافر
ترجمہ:’’ حٰم۔ اس کتاب (قرآن) کا نزول اس اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ جو گناہ معاف کرنے والا (اور) توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا (اور) عطا و بخشش والا ہے اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے۔ ‘‘
یہ آیتیں لکھ کر اُس شخص کی طرف بھیجا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
جب اُس شخص کوا میر المؤمنین حضرت عمرؓ کا خط ملا تو اُس نے اسے پڑھا اور یہ کہنا شروع کیا کہ:
وہ خط کو بار بار پڑھتا جاتا اور روتا جاتا۔
پھر اُس نے توبہ کی اور سچی توبہ کی۔
جب حضرت فاروق اعظمؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
سبحان اللہ ! ترغیب و ترھیب کا کیا سادہ مگر پُر حکمت انداز ہے یعنی کسی مسلمان بھائی کے گناہوں میں ملوث ہونے کا پتہ چلے تو
تاکہ گناہ گار مسلمان بھائی راہِ راست پر آجائے اور توبہ کرلے‘
نہ کہ اُسے برا بھلا کہا جائے اور اُس پر چڑھ دوڑا جائے اور اُسے مزید شیطان کے حوالے کر دیا جائے۔
افسوس کہ اب ہم مسلمانوں میں حکمت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی اور ترغیب و ترھیب کیلئے ہم جھوٹے قصے کہانیوں کا سہارا تو لیتے ہیں لیکن قرآن و صحیح احادیث کی سیدھی سادھی پُرحکمت باتوں کو بھول جاتے ہیں اور پیارے نبی ﷺ‘ و سلف صالحین ( صحابہ،تابعین اور تبع تابعین) کا طریقہ نہیں اپناتے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں جھوٹ سے بچنے اور قرآن و سنت کی پرُ حکمت باتوں کو اپنانے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کریں ۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
نوٹ: حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس واقعے کیلئے دیکهیں تفسیر ابن کثیر سورہ غافر
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب امر المومنین تھے تو آپؓ کی مجلس میں ملک شام کا ایک بڑا طاقتور شخص آیا کرتا تھا۔ پھر آپؓ نے محسوس کیا کہ کچھ عرصہ سے وہ شخص نہیں آرہا ہے تو آپؓ نے پوچھا:
’’ فلاں شامی کو کیا ہوگیا ‘وہ کیوں نظر نہیں آتا؟‘‘
’’ امیر المومنین! اس کا آپ سے کیا ذکر کریں‘ اس کو تو نشے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اکثر اوقات وہ نشے میں دھت پڑا رہتا ہے۔‘‘
حم ﴿١﴾ تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٢﴾ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿٣) سورة غافر
ترجمہ:’’ حٰم۔ اس کتاب (قرآن) کا نزول اس اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ جو گناہ معاف کرنے والا (اور) توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا (اور) عطا و بخشش والا ہے اس کے سوا کوئی الٰہ (خدا) نہیں ہے سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے۔ ‘‘
یہ آیتیں لکھ کر اُس شخص کی طرف بھیجا اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
’’اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالٰی اُس کے دل کو اپنی طرف متوجہ کر دےاور اُسے توبہ کی توفیق عطا کرے اور اُس کی توبہ قبول فرمائے‘‘
جب اُس شخص کوا میر المؤمنین حضرت عمرؓ کا خط ملا تو اُس نے اسے پڑھا اور یہ کہنا شروع کیا کہ:
’’ اللہ تعالٰی نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی اُمید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے‘‘
وہ خط کو بار بار پڑھتا جاتا اور روتا جاتا۔
پھر اُس نے توبہ کی اور سچی توبہ کی۔
جب حضرت فاروق اعظمؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
’’ لوگو! جب تم دیکھو کہ تمہارا مسلمان بھائی لغزش کھا گیا ہے تو اسے سیدھا کرو ‘ اسےمضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو۔ شیطان کے مددگار نہ بنو۔‘‘
سبحان اللہ ! ترغیب و ترھیب کا کیا سادہ مگر پُر حکمت انداز ہے یعنی کسی مسلمان بھائی کے گناہوں میں ملوث ہونے کا پتہ چلے تو
اُسے اللہ کی یاد دلائی جائے‘
اُسے اللہ کی صفات بتائی جائے‘
اُسے اللہ کی سخت سزاسے ڈرایا جائے‘
اُسے اللہ کی مغفرت اور خوشنودی کی ترغیب دلائی جائے‘
اور اس کیلئے دعا کرکے اُسے شیطان کے شر سے نکالنے کی سعی کی جائے۔
اُسے اللہ کی صفات بتائی جائے‘
اُسے اللہ کی سخت سزاسے ڈرایا جائے‘
اُسے اللہ کی مغفرت اور خوشنودی کی ترغیب دلائی جائے‘
اور اس کیلئے دعا کرکے اُسے شیطان کے شر سے نکالنے کی سعی کی جائے۔
تاکہ گناہ گار مسلمان بھائی راہِ راست پر آجائے اور توبہ کرلے‘
نہ کہ اُسے برا بھلا کہا جائے اور اُس پر چڑھ دوڑا جائے اور اُسے مزید شیطان کے حوالے کر دیا جائے۔
افسوس کہ اب ہم مسلمانوں میں حکمت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی اور ترغیب و ترھیب کیلئے ہم جھوٹے قصے کہانیوں کا سہارا تو لیتے ہیں لیکن قرآن و صحیح احادیث کی سیدھی سادھی پُرحکمت باتوں کو بھول جاتے ہیں اور پیارے نبی ﷺ‘ و سلف صالحین ( صحابہ،تابعین اور تبع تابعین) کا طریقہ نہیں اپناتے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں جھوٹ سے بچنے اور قرآن و سنت کی پرُ حکمت باتوں کو اپنانے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کریں ۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
نوٹ: حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس واقعے کیلئے دیکهیں تفسیر ابن کثیر سورہ غافر