• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعمیل حکم ِالہی، و حکمِ رسول کیلئے جلدی کرو

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مترجم: شفقت الرحمٰن​
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبد الباری بن عواض الثبيتی حفظہ اللہ نے 21 ذوالقعدہ 1434کا خطبہ جمعہ" تعمیل حکم ِالہی، و حکمِ رسول کیلئے جلدی کرو "کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی بات ماننے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احکاماتِ الٰہیہ کی تعمیل اور ممنوعہ کاموں سے رُکنا سچے مؤمن اور ایمانِ کامل کی علامت ہے، یہی حالت صحابہ کرام کی تھی، انہوں نے اس بارے میں سیرتِ صحابہ سے کچھ نمونے بھی پیش کئے، پھر آخر میں انہوں نے کہا کہ حج کرنا بھی اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کی تعمیل ہے۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں،جس نے ہمیں تعمیلِ احکامات کا حکم دیا، اور ہمیں توبہ و دیگر فضائل پانے کیلئے ترغیب دلائی، میں اسی کی تعریف اور شکر بجا لاتا ہوں، کہ اس نے توفیق دیتے ہوئے کامیابی کے راستے پر گامزن کیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، قربانی، نماز، اور عبادت میں اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، آپ نے ہمیں بھلائی پر چلنے کا راستہ دیکھایا،اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل پر، اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائےجو پختہ عزم والے قائد تھے۔
حمد و ثناء کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے [آل عمران: 102]
فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ اے ایمان والو! جب رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لیے زندگی بخش ہو تو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو ۔ [الأنفال: 24]
اللہ اور اسکے رسول کی بات ماننے کا مطلب تمام اسلامی احکامات کی پابندی ہے، اسی کی طرف اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعوت دی ہے۔
مسلمان اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں اللہ کی بات مانتا ہے، نماز، زکاۃ، روزہ، اطاعتِ والدین، صلہ رحمی، لین دین، لباس، شکل و صورت، کاروبار الغرض ہر چیز میں اسی کی بات تسلیم کرتا ہے، ایک خاتون اللہ کے احکامات کی تعمیل کرتی ہے، حجاب، پردہ، بناؤ سنگھار، گھریلو معاملات، خاوند اور بچوں کے ساتھ تعلقات ہر لحاظ سے اللہ کے احکامات کو مقدم رکھتی ہے۔
فوری طور پر حکم کی تعمیل سچے مسلمان کی علامت ہے، اور حقیقت میں یہی علمِ نافع اور عملِ صالح کا نتیجہ ہوتا ہے۔
تعلیماتِ الٰہیہ کی تعمیل کرنے والے ہی اصل میں کامیاب لوگ ہیں، وہ سچے مؤمن ہیں، اپنے اہداف کو پانے والے ہیں، ہر تکلیف سے یہ لوگ بچ جائیں گے، جس سے انکی آنکھیں ٹھنڈی اور روحانی تسکین حاصل ہوگی۔
فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ مومنوں کی تو بات ہی یہ ہوتی ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ''ہم نے سن لیا اور اطاعت کی'' ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ [النور: 51]
حقیقت میں اہل ایمان یہ ہی کہتے ہیں: "ہم نے سُنا اور اطاعت بھی کی"چاہے تنگی ترشی، ہو یا آسانی و خوشحالی، جبکہ منافقین روگردانی، اور منہ پھیر کہ دوسری جانب چل بنتے ہیں، اللہ کے راستے سے روکنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا انکی عادت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کی ہے اور رسول کی طرف آؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں [النساء: 61]
احکاماتِ الہی و فرامین نبوی کی تعمیل میں قلب و عقل کی زندگی پنہاں ہے، یہ ہی افراد اور معاشرے کی زندگی ہے، بلکہ پوری امت کیلئے آبِ حیات ہے، اسی لئے کامل زندگی پانے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے احکامات الہیہ کی تعمیل مکمل طور پر کی اور وہ تھے صحابہ کرام، جسقدر تعمیل میں کمی ہوگی اسی قدر دل کمزور، اور زندگی بے برکت ہوگی، اور جسکا ضمیر مردہ ہوجائے، وہ کسی حکم کی تعمیل نہیں کرتا، جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ نہ تو آپ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ ایسے بہروں کو اپنی پکار سناسکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہوں۔ [النمل: 80]
چنانچہ جو لوگ اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کی تعمیل نہیں کرتے اصل میں یہ لوگ خوشحالی کی زندگی سے انکار کرتے ہیں، یہ لوگ پستی اور تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں، جسکا نتیجہ ہلاکت، اور تباہی کی شکل میں نکلتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ کیا آپ نے ان لوگوں کی حالت پر غور نہیں کیا جنہوں نے اللہ کی نعمت (ایمان) کو کفر سے بدل ڈالا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر جا اتارا[28] جو جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بہت بری قیام گاہ ہے [إبراهيم: 28، 29]
پھر اسکے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ اور اس مصیبت سے بچ جاؤ جو صرف انہی لوگوں کے لئے مخصوص نہ ہوگی جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو۔ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے [الأنفال: 25]
شرعی احکامات کی تعمیل سے اعراض کرنے پر اختلافات جنم لیتے ہیں، حالات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، جس سے معاشرے میں توازن قائم نہیں رہتا ، فساد بپا ہوجاتا ہے، جسے فتنے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن سرخ چہرے کے ساتھ گھبرائے ہوئے، نکلے، آپ فرما رہے تھے: (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، قریب ہی آنے والے شر سے عرب کیلئے ہلاکت ہو، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے، -آپ نے انگوٹھے اور انگشتِ شہادت سے ایک دائرہ بنایا-) زینب کہتی ہیں، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے اور ہمارے اندر نیک لوگ بھی موجود ہونگے!؟، آپ نے فرمایا: (ہاں، جب خباثت بڑھ جائےگی )
وہ امت جو اپنے رب کی طرف سے آنے والی وحی پر عمل پیرا ہو، وہ اپنا تن من سب اپنے خالق کے سپرد کردے تو ، اسکی حالت بہتر ہوجاتی ہے، اس کی زندگی میں روز بروز آسودگی پیدا ہوتی ہے، اور اس کیلئے امن وامان قائم اور زندگی سنور جاتی ہے، مؤمنین آپس میں سچائی کی بنیاد پر متحد ہوتے ہیں،جسکی وجہ سے دشمنی، بغض اللہ کی رحمت سے اخوت میں بدل جاتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آپس میں پیار و محبت کے متعلق مؤمنین کی مثال ایک جسم کی مانند ہے، اگر جسم کا ایک حصہ بیمار ہو تو سارے کا سارا بدن بے چینی اور بخار کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے)
اگر بندے احکامات کی تعمیل کریں تو اللہ تعالی بھی انکی دعاؤں کو شرفِ قبولیت سے نوازتا ہے، وہ حکمت سے بھر پور اندازے کے مطابق قبولیت کا وقت مقرر کرتا ہے، فرمانِ نبوی ہے: (جب تک جلد بازی نہ کرو اس وقت تک اللہ تعالی دعاؤں کو قبول کرتا ہے، -جلد بازی یہ ہے کہ - بندہ یہ کہہ دے: "میں نے دعائیں تو کی ہیں لیکن دعا قبول ہی نہیں ہوتی") بخاری و مسلم
اللہ تعالی اسی کو مثبت جواب دیتا ہے، جواحکام کی تعمیل کرے، فرمایا: فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ سو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا: ''میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کروں گا کیونکہ تم دونوں ایک دوسرے کا حصہ ہو[آل عمران: 195]
اور جوں ہی تعمیل میں کمی اور خلل واقع ہو ، اللہ کی جانب سے قبولیت بند کردی جاتی ہے، اور انہیں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے، اور جسے اللہ تعالی تنہا چھوڑ دے خسارہ، کمزوری، اور ذلت اسکا مقدر بن جاتی ہے۔
سلف نے فوراً احکامات کی تعمیل کیلئے ہمیشہ یاد رکھے جانے والے نقوش کنداں کئے ہیں، انہیں جیسےہی کوئی حکم ملتا یا کسی کام سے روکا جاتا وہ فوراً اسکی تعمیل کرتے ، اور اس حکم کا عملی و حِسّی نمونہ پیش کردیتے، یہ چیز پختہ ایمان اور سچی اطاعت کی علامت ہے۔
چنانچہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "میں ابو طلحہ اور دیگر لوگوں کو شراب کے جام دے رہا تھا، میں نے آواز سنی، کوئی کہہ رہا تھا: "خبردار! شراب کو حرام کردیا گیا ہے"انس کہتے ہیں: ہمارے پاس نہ کوئی آیا اور نہ ہی تاکید کیلئے باہر نکلا، ہم نے ساری شراب انڈیل دی، شراب کے مٹکوں کو توڑ دیا، اور کچھ نے اٹھ کر وضو کیا تو کچھ نے غسل بھی کیا، پھر ہم نے ام سلیم کے پاس موجود خوشبو لگائی اور مسجد کی طرف چل دئیے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ رہے تھے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اے ایمان والو! یہ شراب اور یہ جوا یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں لہذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاسکو [المائدة: 90]"
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "قریشی خواتین کی خاص فضیلت ہے، جبکہ اللہ کی قسم انصاری خواتین سے بڑھ کر کتاب اللہ کی تصدیق کرنے والی خواتین نہیں میں نے نہیں دیکھیں، جب یہ آیت نازل ہوئی: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ [النور: 31] تو مرد حضرات انہیں یہ آیت پڑھ پڑھ کر سنانے لگے، ایک شخص اپنی بیوی، بیٹی، بہن اور دیگر رشتہ دار خواتین کو آیت سناتا،تو تمام خواتین نے مختلف نقوش والی چادریں لے لیں، اور اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس پر ایمان لاتے ہوئے ان میں اپنے آپ کو چُھپا لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں -بالوں سے بنی ہی چادریں سر پر ہونے کی وجہ سے-ایسے لگتا جیسے انکے سروں پر کوّے ہوں "
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار کر پھینک دیا، اور فرمایا: (کوئی آگ کے انگارے کو اٹھا کر اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہے گا؟)جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو اسکے ساتھیوں نے کہا: "اپنی انگوٹھی اٹھا لو، اور بیچ کر اس سے فائدہ اٹھاؤ" تو اس نے کہا: " اللہ کی قسم جس انگوٹھی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتار کر پھینکا ہو ، میں اسے نہیں اٹھاؤں گا"
اللہ کے بندو!
حج اللہ کے احکامات کی تعمیل کیلئے شریعت میں مقرر کیا گیا ہے، اور اللہ اسکے رسول کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دور دور سے حجاج کرام تشریف لاچکے ہیں، حج کے دوران ایک ایک لمحے میں تعمیل ِ حکم ہونا چاہئے، ان حجاج کرام نے اہل و عیال، مال ودولت اور اپنے علاقے کو صرف اسی مقصد کیلئے چھوڑا ہے۔
اللہ تعالی نے ان حجاج کو بیت اللہ کے طواف کیلئے صدا لگائی تو انہوں نے اس پر لبیک کہا، حجر اسود کو بوسہ یا اشارے کے ساتھ استلام کرنے کی دعوت دی انہوں نے اس کو قبول کیا، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ پتھر کوئی نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان۔
اللہ تعالی نے انہیں منی کی طرف جانے کا کہا، کہ وہیں پر راتیں بھی گزاریں، انہوں نے اللہ کےحکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا، انکا مقصد ریاء کاری اور شہرت نہیں ہے، اخلاص ہی انکا شعار ہے، اور اطاعتِ نبوی انکا اوڑھنا بچھونا ہے، "لبَّيك اللهم لبَّيك" ہی مکمل اطاعت کی علامت ہے، یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ: اے اللہ میں یہ تلبیہ تیری دعوت اورتیرے حکم پر عمل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں، جس نبی نے فرمایا: (حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہی ہے) متفق علیہ
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں ہدایت دی، میں اسی کی حمداور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے ہمیں اپنی محبت اور ولایت سے نوازا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر آپکی آل اور تمام صحابہ کرام پر سلامتی نازل فرمائے۔
حمدوشکر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے بعد!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں ہی آئے [آل عمران: 102]
تعمیلِ احکام کی کچھ علامات ہیں جن میں : نماز کی ادائیگی، نظام شوری کا قیام، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا شامل ہے، اسی بارے میں فرمایا: وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ اور جو اپنے پروردگار کا حکم مانتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں [الشورى: 38]
جبکہ تکبر، منصب کی لالچ، اور عیش پرستی میں پڑنے کی وجہ سے فرامین الٰہیہ کی تعمیل میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، لیکن خواہش پرستی انسان کو بالکل بے عمل بنا دیتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ پھر اگر وہ کوئی جواب نہ دے سکیں تو جان لیجئے کہ وہ صرف اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ [القصص: 50]
اسلامی بھائیو!
جو اللہ کے احکامات پر عمل کریگا وہ جنت میں اچھا مقام پائے گا، اور جس نے روگردانی یا منہ پھیرنے کی کوشش کی اسکا انجام بہت ہی بر ہوگا، پھر اسے کوئی چیز بھی فائدہ نہیں دے گی، نہ کنبہ قبیلہ اور نہ ہی جائیداد، چاہے زمین کو دو بار سونے سے بھر کر لے آئے اُس کیلئے کوئی چیز بھی سود مند نہیں ہوگی، انہی کے بارے میں فرمانِ الہی ہے: لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم مان لیا ان کے لئے بھلائی ہے اور جنہوں نے نہیں مانا تو اگر وہ سب کچھ انھیں میسر آجائے جو زمین میں ہے بلکہ اتنا اور بھی تو وہ سب کچھ دے کر اللہ کی گرفت سے بچنے پر تیار ہوجائیں گے۔ یہی لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا۔ ان کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا جو بہت بری جگہ ہے [الرعد: 18]
اللہ کے بندو!
رسولِ ہدی پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتابِ عزیز میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
یا اللہ اپنے بندے، اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر درود و سلام بھیج، یا اللہ! خلفائے اربعہ ابو بکر ، عمر ، عثمان، اور علی سے راضی ہوجا، تمام اہل بیت اور صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! انکے ساتھ ساتھ اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت نصیب فرما،کافروں اور کفر کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے، یا اللہ! اس ملک اور تمام مسلم ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے یا رب العالمین۔
یا اللہ ! ہم تجھ سے ہدایت ، تقوی، پاکدامنی، اور غنی کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کوغلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ!ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے،ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کردے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت کا سوال کرتے ہیں، اور تجھ سے تیری ناراضگی اور جہنم سے پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! تما مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام فوت شدگان پر رحمت فرما، مریضوں کو شفا یاب فرما، قیدیوں کو بری فرما، ہمارے معاملات کو سنبھال لے، غموں کو دور فرما، یا ارحم الرحمین۔
یا اللہ! حجاج کرام کی حفاظت فرما، یا اللہ! حجاج کرام کی حفاظت فرما، یا اللہ ! حجاج کرام کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں ہمہ قسم کے شر اور گناہوں سے بچا، یا اللہ! انہیں امن و سلامتی اور حج مقبول کے ساتھ وطنوں کو واپس لوٹا، یا اللہ! انکے حج کو مبرور بنا، انکی نیکی کیلئے کوششوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت نواز، اور انکے تمام اعمالِ صالحہ بھی قبول فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی مصر، سوریا، شام اور ہرجگہ حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں اپنے اور تیرے دشمنوں پر غلبہ عنائت فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی راہنمائی کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، اور اسے تندرستی بھی نصیب فرما، اے اللہ ! تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ رب العالمین! تمام مسلم حکمرانوں کی شریعت نافذ کرنے کی توفیق دے۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے [الأعراف: 23] رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ اے ہمارے پروردگا ر! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے [الحشر: 10] رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی, اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔[البقرة: 201]
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو اوہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔
لنک
 
Top