• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعیین قبلہ۔۔ تفسیر السراج۔ پارہ نمبر۲

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۞ سَيَقُوْلُ السُّفَہَاۗءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلىہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِىْ كَانُوْا عَلَيْہَا۝۰ۭ قُلْ لِّلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۝۰ۭ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۱۴۲
عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھرایا ، جس پر وہ تھے۔ تو کہہ، اللہ ہی کی مشرق ومغرب ہے۔ وہ جس کو چاہے سیدھی راہ بتادے۔۱؎
تعیین قبلہ
۱؎ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ جب تک صاف وصریح حکم کسی چیز کے متعلق نازل نہ ہوجاتا، اہل کتاب کی موافقت فرماتے، اس لیے کہ وہ بہرحال مشرکین مکہ سے زیادہ راہِ راست پر تھے۔ اسی بناپر جب تک قبلہ کی تعیین نہ ہوئی آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے۔ سترہ اٹھارہ مہینے تک اسی پر عمل رہا۔ بعد میں قبلہ کی تعیین ہوگئی اور بتادیاگیا کہ بوجوہ اب تمام کائنات اسلامی کا مرکز عبادت کعبہ ہے ، بیت المقدس نہیں۔ اس طرز عمل سے یہودیوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ اب تک تو انھیں یہ حوصلہ تھا کہ ہمارا اورمسلمانوں کا قبلہ مشترک ہے ۔ضرور کسی دن مسلمان یہودیت کو قبول کرلیں گے مگر اس تبدیلی سے انھیں سخت مایوسی ہوئی۔ دوسری جانب مشرکین مکہ بھی طعنہ زن ہوئے کہ دیکھیے کیا بے اصولی ہے ۔ سترہ اٹھارہ ماہ تک تو بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھا۔ اب انکار ہے ۔

قرآن حکیم نے ان شبہات کے متعلق فرمایا کہ یہ محض سفاہمت وعدم تدبرپر مبنی ہیں ورنہ صرف تعیین قبلہ کا مسئلہ اتنا اہم نہ تھا کہ یہ اس پر اس قدر معاندانہ توجہ صرف کرتے۔ جب کہ اصول میں اور عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور جب کہ اب بھی مسلمان ویسے نمازی اور خدا کے فرمانبردار ہیں جیسے کہ پہلے تھے۔ کیا صرف جہت کی تبدیلی سے مسلک تبدیل ہوجاتا ہے ؟ کیا صرف اس لیے کہ مسلمان اب کعبہ کو مرکز سمجھتے ہیں، تمام خوبیوں سے معرا ہوگیے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم ان اعتراضات کو بیوقوفی سے تعبیر کرتا ہے ، کیوں کہ ان میں سے کوئی بات بھی اصول اسلامی پر براہِ راست اثر انداز نہیں ہوتی۔ اصولاً جواب یہ دیا کہ خدائے تعالیٰ جہاں تک جہت الکعبہ کا تعلق ہے کسی جہت خاص سے کوئی اختصاص نہیں رکھتا۔مشرق ومغرب اور شمال وجنوب سب یکساں حیثیت رکھتے ہیں، البتہ خدانے کعبہ کو قبلۂ عبادت ٹھہرایا، تاکہ ہماری نیاز مندیاں ایک نظام میں منسلک ہوجائیں اور مسلمان ہر لحاظ سے وحدت کا جو اس کا فطری خاصہ ہے ، مظہر اتم ہو۔ نہ اس لیے کہ جہت مغربی مشرق سے زیادہ مقدس ہے ۔ صراط مستقیم سے مراد یہی ہے کہ وہ چند نفوس ہوتے ہیں جنھیں مسئلہ کی صحیح حیثیت پر غور کرنے کی توفیق ارزانی ہوتی ہے ۔وہ ہمیشہ مغز وحقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فروع میں الجھ کر ایمان ضائع نہیں کرتے۔
حل لغات
{ قِبْلَۃ ٌ} اصل معنی جانب وطرف کے ہیں جو جاذب التفات ہو۔ اصطلاحاً وہ بیت العبادۃ ہے جس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جائے۔
 
Top