اسلام علیکم۔۔۔
عابد عبدالرحمٰن صاحب۔۔۔
میں آپ کی بات سے کافی حد تک متفق ہوں۔۔۔ کے اعتدال ضروری ہے ہر حالت میں۔۔۔لیکن اگر میں تقلید کے عقیدے پر اعتدال کی راہ اختیار کروں تو پھر اختلاف کہاں بچا؟؟؟۔۔۔ اور جب اختلاف ختم ہوا تو اعتدال کی کیا ضرورت۔۔۔بسااوقات کسی بڑی چیز کی بنیاد بہت معمولی ہوتی ہے لیکن آثار ونتائج بڑے دور رس ہوا کرتے ہیں مثلا برگد کے درخت کو دیکھیں کہ کیسا تناور اور کتنا بڑا ہے اور اس کی شاخیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں مگر اس کے بیج کو دیکھیں تو وہ رائی کے دانے سے بھی شرمندہ نظر آئے گا۔۔۔ یہی مثال اختلاف کی ہے اس کا نقطہ آغاز نہایت معمولی بلکہ غیر مرئی ہوا کرتا ہے۔۔۔ لیکن رفتہ رفتہ اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی رہتی ہے۔۔۔
اور بقول آپ کے
اور بسا اوقات اپنی چرب زبانی سے عالموں کو بھی شرمندہ کرتا ہے۔۔۔
اس سلسلے میں حدیث پیش خدمت ہے۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔
من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیقل خیرا او لیصمت۔۔۔
جو اللہ تعالٰی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ یا تو خیر کی بات کرے، یا سکوت اختیار کرے۔۔۔ (متفق علیہ)۔۔۔
لیکن آج کل جو مشکل درپیش ہے وہ ہمارے داعی اخوان کے مابین ظاہر ہوئی ہے۔۔۔ سب کی نیت کو ہم نیک ہی سمجھتے ہیں۔۔۔ لیکن جس مشکل کی طرف نشاندہی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے پر کلام کرنے لگے ہیں۔۔۔ وہ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ اُس کا بھائی فلاں معاملہ میں جہالت وبے خبری کا شکار ہے اس کا انداز درست نہیں، وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے اور اُسے حقیقت کا کچھ علم نہیں۔۔۔
آپ بالکل درست فرمارہے ہیں کے بعض دوست احباب اس طرح کے معاملات میں لب کشائی کرنے لگے ہیں۔۔۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے۔۔۔ اس سے خود داعی کا وقار خواہ وہ کسی بھی درجہ میں شمار ہوتا ہے گرجاتا ہے۔۔۔اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کے ان باتوں کے اثرات بھی ضرور مرتب ہوتے ہیں۔۔۔۔
آپ نے بہت اچھی بات کی اعتدال کی۔۔۔ لیکن اس اعتدال کے پہلو پر عمل کرنا ہی ہے تو کیوں نا اس کی ابتداء اختلاف سے پہلے شروع کریں۔۔۔ یہاں پر ایک سوال ہے۔۔۔
اہلسنت والجماعت کے چار آئمہ جن میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر سب کا اتفاق ہے۔۔۔ اب وہ حضرات جو امام مالک کے مسلک پر ہوں، امام شافعی کے مسلک پر ہوں، امام احمد بن حنبل کے مسلک پر یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک پر ہوں۔۔۔
تو ان چاروں معتقدین سے ہم سوال کریں گے۔۔۔
آپکے اعتقاد کے مطابق آپ کے امام حق پر ہیں یا باطل؟؟؟۔۔۔ تو وہ جواب دیں گے ہمارے امام حق پر ہیں۔۔۔ پھر دوسرا سوال کریں کہ آپ کے امام حق کو چاہتے ہیں یا باطل کو؟؟؟۔۔۔ تو وہ جواب دیں گے وہ حق کو چاہتے ہیں۔۔۔ پھر تیسرا سوال کریں کہ آپ لوگوں کے امام معصوم ہیں یا غیرمعصوم؟؟؟۔۔۔ اگر وہ جواب میں یہ کہیں کے وہ معصوم ہیں، تو وہ یقینا اپنے جواب میں غیرمعصوم ہیں۔۔۔ اور اگر کہیں کے امام غیرمعصوم ہیں تو ہم کہیں گے بحمداللہ ہم یہی چاہتے ہیں۔۔۔
یہ سوال اعتدال کی طرف پہلی پیش قدمی کہلائے گی۔۔۔ کیونکہ ہمارے سلف وصالحین کا یہ ہی طریقہ تھا جس پر وہ گامزن تھے۔۔۔ اس طرح سلف وصالحین کا طریقہ کار پیش کرکے ہم اختلاف کی نوعیت کو دیکھیں گے اگر ان کا اختلاف سلف کے طریقے کے موافق ہے تو وہ درست ہیں اور اگر سلف وصالحین کے طریقے کے مخالف ہے تو وہ یقینا غلط اور باطل ہیں۔۔۔خواہ!۔ وہ فیصلہ۔۔۔ امام مالک، امام شافعی، یا امام احمد یا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حق میں ہو۔۔۔ اور اس وقت ضروری ہوگا کہ ہر شخص جس کی غلطی واضح ہوگئی ہے کہ وہ صحیح بات کی طرف پلٹ آئے تو اللہ کے اس فرمان کی طرف رجوع کرے۔۔۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔۔۔ (النساء ٦٥)۔۔۔
اب ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کے ہر وہ شخص جو کسی مسلک پر برقرار رہ جائے گرچہ وہ دوسرے مسلک کے مقابلہ میں غلطی سے مامون ہو اعتدال یہ ہی کہلائے گا کے تمام مسالک کے ماننے والوں اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جائے۔۔۔
لہذا اب خاموش رہنا بھی غلط ہے۔۔۔ کیونکہ اعتدال کا جو صحیح طریقہ تھا وہ پیش کیا جاچکا ہے۔۔۔
واللہ اعلم۔۔۔
والسلام علیکم۔۔۔