مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
( وها هم الأئمة من المحدثين الكبار كانوا مذهبيين، فشيخ الإسلام ابن تيمية وابن القيم كانا حنبليين، والإمام النووي وابن حجر كانا شافعيين، والإمام الطحاوي كان حنفياً، والإمام ابن عبد البرّ كان مالكياً.ليس التمذهب بأحد المذاهب الأربعة ضلالاً حتى يعاب به صاحبه، ولا نقصاً في العلم. بل إن الذي يخرج عن أقوال الفقهاء المعتبرين وهو غير مؤهل للاجتهاد المطلق هو الذي يعتبر ضالاً وشاذاً)
ترجمه : اور یہ ہمارے پاس ائمہ محدثین ہیں جو مذاہب اربعہ میں سے کسی مذہب کی پیروی کرتے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ حنبلی تھے، امام نووی رحمہ اللہ اور ابن حجر رحمہ اللہ شافعی تھے، امام طحاوی رحمہ اللہ حنفی تھے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ مالکی تھے.چاروں مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی پیروی کرنا گمراہی نہیں ہے جس کی بدولت کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ بلکہ جو شخص معتبر فقہا کے اقوال کے باہر جاتا ہےاور اس میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے اس کا حق بنتا ہے کہ اس کو گمراہ کہا جائے۔ (اعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید، شیخ صالح الفوزان، جلد 1 صفحہ 12)
شیخ کی اس عبارت کا حوالہ دے کر متعصب مقلدین تقلید کی تائید میں ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ دراصل شیخ نے جن علماء کی طرف اشارے کرکے مذھبی ہونے کی بات کہی ہے اس کا مقصود یہ ہے کہ یہ حضرات ( اپنے آپ کو ائمہ کی طرف فقط منسوب کرتے تھے ، احناف کی طرح اندھی تقلید نہیں کرتے تھے اور مذکورہ عبارت میں تقلید لفظ کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔
مختصر یہ کہ یہ حضرات اپنے اماموں کے فقہ واجتہاد سے علمی فائدہ اٹھاتے اور انہیں کتاب وسنت کی کسوٹی پر پیش کرتے جو دلیل سے موافقت کر جاتی اسے اختیار کرلیتے ،، یہی چیز متعصب مقلد میں مفقود ہوتی ہے ۔
اپنے اس نظرئے کی تائید میں شیخ فوزان کی عبارت میں موجود چند علماء کا موقف اور نظریہ بیان کرتے ہیں جس سے تقلید کی حقیقت واضح ہوجائے گی ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا منہج
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ عوام پر فلاں فلاں کی تقلید واجب ہے تو یہ قول کسی مسلم کا نہیں ہے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ جلد ۲۲ص۹۴۲)
امام ابنِ قیم رحمہ اللہ کا منہج
(1) انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔
تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱)
(2) ”اجمع الناس ان المقلد لیس معدوداً من اھل العلم وان العلم معرفة الحق بدلیلہ“ (اعلام الموقعین:۲۶۰۲)
علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کا شمار علماءمیں نہیں ہوتاکیونکہ علم دلیل کے ساتھ معرفت ِحق کا نام ہے (جبکہ تقلید بغیر دلیل اقوال و آراءکو مان لینے کا نام ہے)۔
(3) مزید لکھتے ہیں:
”وقد اجمع العلماءعلی ان مالم یتبین فلیس بعلم وانماہوظن لا یغنی من الحق شئاً“ (اعلام المو قعین:۲۹۹۱)
علماءکا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو بات یقینی طور پر دلائل سے ثابت نہ ہووہ علم نہیں ہے بلکہ گمان ہے اور گمان کے ذریعے حق کا حصول نا ممکن ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کا موقف
امام نووینے شرح مسلم میں بہت سے مقامات پر ابن خزیمہاور ابن المنذر وغیرہ کا مذہب بعض مسائل میں ذکر کیاہے، جو امام شافعیاور اصحاب شافعیکے اختیار کردہ مسلک کے خلاف اور فقہاء حدیث کے موافق ہے۔ اس کے باوجود مقلدین حضرات امام ترمذیکی طرح انہیں بھی امام شافعیکا مقلد قرار دینے پر مُصر ہیں۔ ان مقلدین کی تصنیف کردہ ''کتب طبقات'' اٹھا کر دیکھئے، بہت سے محدثین ایسے ہیں جن کو ان تمام اصحاب طبقات نے اپنے اپنے طبقات میں ذکر کیا ہے۔
امام مسلمجابر بن سمرہؓ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:''اتوضأ من لحوم الغنم قال ان شئت فتوضأ وان شئت فلا توضا قال اا توضأ من لحوم الابل قال: نعم''
''کیا میں بکری کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ''اگر چاہے تو وضو کرلے او راگر نہ چاہے تو نہ کر'' اس نے عرض کیا ''کیا میں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کروں؟'' آپؐ نے فرمایا : ''ہاں''.(شرح مسلم للنووی جلد4 ص48)
اس حدیث کی شرح میں امام نووی، اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہ ٹوٹنے کے بارے میں جمہور صحابہؓ و تابعین، امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور امام شافعیکا مسلک بیان کرنے کے بعد، فرماتے ہیں:''وذھب الیٰ انتقاض الوضوء بہ احمد بن حنبل و اسحاق بن راھویہ و یحییٰ بن یحییٰ و ابوبکر ابن المنذر و ابن خزیمة و اختارہ الحافظ ابوبکر البیہقی و حکیٰ عن اصحاب الحدیث مطلقا''
''اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کی طرف احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن یحییٰ، ابوبکر ابن المنذر، ابن خزیمہگئے ہیں، حافظ ابوبکر بیہقینے بھی اسی کو اختیار کیاہے او رانہوں نے تمام اہل حدیث کا علی الاطلاق یہی مسلک بیان کیا ہے۔''(شرح مسلم جلد 4 ص49)
آگے چل کر امام نوویان الفاظ میں اس مسلک کی تصویب کرتے ہیں:''ھٰذا المذھب اقویٰ دلیلا وان کان الجمہور علیٰ خلافہ''
''دلیل کے اعتبار سے یہ مذہب زیادہ قوی ہے اگرچہ جمہور اس کے خلاف ہیں۔''
امام ابو جعفر الطحاوی (حنفی) کا منہج
"لا یقلد الا غبی او عصبی "
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
حافظ ابن عبد البر کا منہج
مقلد کے بارے میں حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مقلد اور چوپائے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اور لکھتے ہیں کہ مقلد کے پاس علم ہی نہیں ہوتا ہے ۔ مزید لکھتے ہیں کہ عالم اپنے علم کی فضیلت سے معروف ہوتے ہیں جبکہ جاہل تقلید سے ۔(جامع بيان العلم:2/170 ،173 )
خلاصہ کلام :
شیخ صالح فوزان کی مذکورہ عبارت میں مذکور کوئی بھی ہستی مقلد اعمی نہیں ۔ اسی لئے شیخ صالح بن فوزان نے اس عبارت کے بعد لکھا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اجتہاد کو دلیل کی کسوٹی پہ پرکھتے اور جہاں دلیل ملتی اسے اختیار کرتے ، اس کی حقیقت جاننے کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں تقلید اعمی کا بطلان واضح ہوجائے گا ۔
ترجمه : اور یہ ہمارے پاس ائمہ محدثین ہیں جو مذاہب اربعہ میں سے کسی مذہب کی پیروی کرتے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ حنبلی تھے، امام نووی رحمہ اللہ اور ابن حجر رحمہ اللہ شافعی تھے، امام طحاوی رحمہ اللہ حنفی تھے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ مالکی تھے.چاروں مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی پیروی کرنا گمراہی نہیں ہے جس کی بدولت کسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ بلکہ جو شخص معتبر فقہا کے اقوال کے باہر جاتا ہےاور اس میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے اس کا حق بنتا ہے کہ اس کو گمراہ کہا جائے۔ (اعانۃ المستفید بشرح کتاب التوحید، شیخ صالح الفوزان، جلد 1 صفحہ 12)
شیخ کی اس عبارت کا حوالہ دے کر متعصب مقلدین تقلید کی تائید میں ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ دراصل شیخ نے جن علماء کی طرف اشارے کرکے مذھبی ہونے کی بات کہی ہے اس کا مقصود یہ ہے کہ یہ حضرات ( اپنے آپ کو ائمہ کی طرف فقط منسوب کرتے تھے ، احناف کی طرح اندھی تقلید نہیں کرتے تھے اور مذکورہ عبارت میں تقلید لفظ کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔
مختصر یہ کہ یہ حضرات اپنے اماموں کے فقہ واجتہاد سے علمی فائدہ اٹھاتے اور انہیں کتاب وسنت کی کسوٹی پر پیش کرتے جو دلیل سے موافقت کر جاتی اسے اختیار کرلیتے ،، یہی چیز متعصب مقلد میں مفقود ہوتی ہے ۔
اپنے اس نظرئے کی تائید میں شیخ فوزان کی عبارت میں موجود چند علماء کا موقف اور نظریہ بیان کرتے ہیں جس سے تقلید کی حقیقت واضح ہوجائے گی ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا منہج
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ عوام پر فلاں فلاں کی تقلید واجب ہے تو یہ قول کسی مسلم کا نہیں ہے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ جلد ۲۲ص۹۴۲)
امام ابنِ قیم رحمہ اللہ کا منہج
(1) انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔
تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱)
(2) ”اجمع الناس ان المقلد لیس معدوداً من اھل العلم وان العلم معرفة الحق بدلیلہ“ (اعلام الموقعین:۲۶۰۲)
علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کا شمار علماءمیں نہیں ہوتاکیونکہ علم دلیل کے ساتھ معرفت ِحق کا نام ہے (جبکہ تقلید بغیر دلیل اقوال و آراءکو مان لینے کا نام ہے)۔
(3) مزید لکھتے ہیں:
”وقد اجمع العلماءعلی ان مالم یتبین فلیس بعلم وانماہوظن لا یغنی من الحق شئاً“ (اعلام المو قعین:۲۹۹۱)
علماءکا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو بات یقینی طور پر دلائل سے ثابت نہ ہووہ علم نہیں ہے بلکہ گمان ہے اور گمان کے ذریعے حق کا حصول نا ممکن ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کا موقف
امام نووینے شرح مسلم میں بہت سے مقامات پر ابن خزیمہاور ابن المنذر وغیرہ کا مذہب بعض مسائل میں ذکر کیاہے، جو امام شافعیاور اصحاب شافعیکے اختیار کردہ مسلک کے خلاف اور فقہاء حدیث کے موافق ہے۔ اس کے باوجود مقلدین حضرات امام ترمذیکی طرح انہیں بھی امام شافعیکا مقلد قرار دینے پر مُصر ہیں۔ ان مقلدین کی تصنیف کردہ ''کتب طبقات'' اٹھا کر دیکھئے، بہت سے محدثین ایسے ہیں جن کو ان تمام اصحاب طبقات نے اپنے اپنے طبقات میں ذکر کیا ہے۔
امام مسلمجابر بن سمرہؓ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:''اتوضأ من لحوم الغنم قال ان شئت فتوضأ وان شئت فلا توضا قال اا توضأ من لحوم الابل قال: نعم''
''کیا میں بکری کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ''اگر چاہے تو وضو کرلے او راگر نہ چاہے تو نہ کر'' اس نے عرض کیا ''کیا میں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کروں؟'' آپؐ نے فرمایا : ''ہاں''.(شرح مسلم للنووی جلد4 ص48)
اس حدیث کی شرح میں امام نووی، اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہ ٹوٹنے کے بارے میں جمہور صحابہؓ و تابعین، امام ابو حنیفہ، امام مالک، اور امام شافعیکا مسلک بیان کرنے کے بعد، فرماتے ہیں:''وذھب الیٰ انتقاض الوضوء بہ احمد بن حنبل و اسحاق بن راھویہ و یحییٰ بن یحییٰ و ابوبکر ابن المنذر و ابن خزیمة و اختارہ الحافظ ابوبکر البیہقی و حکیٰ عن اصحاب الحدیث مطلقا''
''اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کی طرف احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن یحییٰ، ابوبکر ابن المنذر، ابن خزیمہگئے ہیں، حافظ ابوبکر بیہقینے بھی اسی کو اختیار کیاہے او رانہوں نے تمام اہل حدیث کا علی الاطلاق یہی مسلک بیان کیا ہے۔''(شرح مسلم جلد 4 ص49)
آگے چل کر امام نوویان الفاظ میں اس مسلک کی تصویب کرتے ہیں:''ھٰذا المذھب اقویٰ دلیلا وان کان الجمہور علیٰ خلافہ''
''دلیل کے اعتبار سے یہ مذہب زیادہ قوی ہے اگرچہ جمہور اس کے خلاف ہیں۔''
امام ابو جعفر الطحاوی (حنفی) کا منہج
"لا یقلد الا غبی او عصبی "
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
حافظ ابن عبد البر کا منہج
مقلد کے بارے میں حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مقلد اور چوپائے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اور لکھتے ہیں کہ مقلد کے پاس علم ہی نہیں ہوتا ہے ۔ مزید لکھتے ہیں کہ عالم اپنے علم کی فضیلت سے معروف ہوتے ہیں جبکہ جاہل تقلید سے ۔(جامع بيان العلم:2/170 ،173 )
خلاصہ کلام :
شیخ صالح فوزان کی مذکورہ عبارت میں مذکور کوئی بھی ہستی مقلد اعمی نہیں ۔ اسی لئے شیخ صالح بن فوزان نے اس عبارت کے بعد لکھا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اجتہاد کو دلیل کی کسوٹی پہ پرکھتے اور جہاں دلیل ملتی اسے اختیار کرتے ، اس کی حقیقت جاننے کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں تقلید اعمی کا بطلان واضح ہوجائے گا ۔