غزنوی
رکن
- شمولیت
- جون 21، 2011
- پیغامات
- 177
- ری ایکشن اسکور
- 659
- پوائنٹ
- 76
تلاش حق کتاب کےمصنف کی روداد
مجھے یہ معلوم ہو کر بڑی مسرت ہوئی ہے کہ میرے اور جناب سید مسعود احمد صاجب بی۔ ایس ۔ سی۔ کے مابین جو خط و کتابت ہوئی ہے اس کو جماعت اہلحدیث کراچی شائع کرا رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا یہ تعارفی خط بھی اس میں شائع کر دیا جاۓ ۔ڈاؤنلوڈ لنکزیر نظر کتاب مؤلف کی سالہا سال کی تحقیق وکاوش کاماحاصل ہے ان کی زندگی کاآغاز تقلید اور خانقاہی سلسلوں سے ہوا پھر اللہ تعالی نےانہیں حق کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائی اس دوران انہوں نے مختلف مسالک او ران کے عقائد ونظریات کا گہرائی سے مطالعہ کرکے کتاب وسنت سے ان کاتقابل کیا یوں صراط مستقیم اپنی تمام ترحقانیت کےساتھ ان پر واضح ہوا انہی تفصیلات کو انہوں نے کتابی شکل میں جمع کےکے اس کانام ''تلاش حق'' رکھا تاکہ ان کی یہ بے پناہ ریاضت متلاشیان حق کےلیے سہولت بن جائے کتاب کو کبار اہل علم کی تصدیق وتائید حاصل ہے عقیدہ سے لےکر عبادات تک جملہ اختلافی مسائل کے حل کے لیے انتہائی مدلل او ربہترین کتاب ہے ہر مسلمان کو اس کامطالعہ کرنا چاہیے -
قارئین سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ ان خطوط کو خالی الذہن ہو کر بڑی توجہ اور غور سے پڑھیں۔ پھر آپ کو معلوم ہو جاۓ گا کہ جناب سید مسعود احمد صاجب کے دلائل کس قدر ٹھوس اور وزنی ہیں اور عقل کی کسوٹی پر بھی پورے پورے اترتے ہیں اور دل میں پیوست ہوتے چلے جاتے ہیں میرے ابتدائی خطوط سے آپ کو انداز ہو گا کہ میں اپنے عقیدہ اور مسلک حنفی پر کس قدر سختی سے پابند تھا۔ اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ جو کچھ علماء احناف کہتے ہیں وہی حق ہے۔ میری نظر میں حنفی مسلک دیگر سارے مسلکوں سے بر تر افضل و اعلیٰ تھا اور اس کے باہر جو کچھ تھا وہ غلط بلکہ غلط تھا۔ اسی لیئے ابتدا ہی سے حنفی مسلک کی کتابیں میرے زیر مطالعہ رہیں ۔ اس دور میں میں دن رات حنفی علماء کی صحبت میں رہا کرتا تھا ۔ مولوی الیاس صاجب کی تبلیغی جماعت میں بڑی شدومد سے حصہ لیا کرتا تھا۔ تعلقہ سجاول ضلع ٹھٹھہ کے مدرسہ دارالفیوس باشیمیہ میں جو اساتذہ صاحبان اس وقت تھے ان سے حنفی مذہب کی معلومات حاصل کرتا۔ علماء احناف کی کتب تفاسیر ، فقہ، سیرت وغیرہ بڑے ذوق اور شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ کس قدر فرسودہ خیالات تھے میرے کہ میں یہ ایمان رکھتا تھا یہ جو کچھ ہمارے علماۓ احناف کہتے ہیں بس وہی حق ہے۔ یہاں مجھے قرآن شریف کی یہ آیت یاد آتی ہے جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے یہ یہود و نصاری نے اپنے علماءکو اپنا رب بنا رکھا ہے۔ آیت شریف
اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ
میں نےکبھی قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کیا کیوں کہ مجھے علماء احناف نے ڈرا دیا تھا کہ قرآن و حدیث بہت مشکل کتابیں ہیں ۔ کانٹوں سے بھری وادی کی مثال ہیں اس لیے ان کو نہ پڑھو ورنہ بھٹک جاؤ گے اس لیے میری ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ہر مسئلہ میں علماء احناف کے فتووں پر عمل کروں بس یہی اسلام ہے اور یہی اصل دین ہے ۔ چنانچہ مجھے اپنے حنفی ہونے پر بڑا ناز تھا ۔ میں ایک پیر صاحب کا مرید بھی ہو گیا تھا اور ان سے بیعت کرنے کے بعد میں اپنے آپ کو صوفی تصور کیا کرتا تھا ۔ ذکر و اذکار و ظیفہ و ظائف وغیرہ جو حنفی مذہب میں رائج ہیں ان پر سختی سے عامل تھا۔ خوب سر پٹک پٹک کر ضربیں لگائیں ، مراقبے کئے اور سمجھتا رہا کہ بس اب یہ ہوا اور وہ ہوا۔ میرے دن رات اسی طرح بسر ہوا کرتے تھے کہ ایک روز میرے ایک دوست جناب ڈاکڑ علیم الدین صاحب نے جو ہمارے ساتھ تبلیغی جماعت میں شریک رہتے تھے۔ مجھ سے کہا کہ ان کا ایک لڑکا اپنا دین چھوڑ کر اہل حدیث ہو گیا ہے جس کی وجہ سے سارے خاندان میں بے چینی پیدا ہو گئ ہے۔ خاندان کے دوسرے افراد بھی اس بات سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ موصوف نے خواہش ظاہر کی کہ ان کے ہمراہ کراچی چلوں اور ان کے بہنوئی جناب مسعود صاحب سے جو اس تحریک کو ہوا دے رہے ہیں بحث مباحثہ کر کے ان لوگوں کو سمجھاؤں تاکہ وہ پھر حنفیت میں واپس آ جائیں۔ چنانچہ میں اس کار خیر کے لیے تیار ہو گیا ۔ کیونکہ میرے نزدیک اس وقت حنفیت ہی سچا دین تھا۔ میں نے اس بات کا تذکرہ اپنے استاد مولوی نور محمد صاحب مہتمم مدرسہ ہاشمیہ سجاول سے کیا تو صاحب موصوف نے میرے جانے کی مخالفت کی اور کہا کہ تم جاؤ گے تو اپنا ایمان بھی کھو دو گے کیونکہ وہ لوگ ضدی ہیں ہر گز تمہاری بات نہیں مانیں گے ۔ استاد صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ وہ خود ایک دفعہ ان لوگوں کے پاس گئے تھے مگر وہ نہ مانے لہذا مجھے منع کر دیا کہ ہر گر نہ جاؤ۔ مگر مجھے کچھ ایسا جوش پیدا ہوا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ضرور جا کر گمراہوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا۔ چنانچہ میں اپنے دوست علیم الدین صاجب کے ہمراہ کراچی چل پڑا ان لوگوں سے ملاقات ہوئی بات چیت کے لیے عصر کے بعد کا وقت مقرر ہوا۔ چنانچہ بعد نماز عصر محترم مسعود صاحب کے دولت خانہ پر محفل جمی ۔ سوال و جواب شروع ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے محسوس کر لیا کہ میرے پاس سوائے تقلیدی علم کے اور کچھ نہیں ہے۔ ادھر محترم مسعود صاحب کے پاس قرآن و حدیث کا ایک سمندر ہے ۔ جناب مسعود صاحب قرآن کی آیت پڑھتے حدیث رسول معصومﷺ پڑھ کر جواب طلب کرتے کہ فلاں مسئلہ میں اللہ تعالی کا اور اس کے رسولﷺ کا یہ حکم اور ارشاد ہے لیکن آپ کا حنفی مسلک اس کے خلاف حکم دیتا ہے۔ میں جواب میں فقہ کی کتب کا حوالہ دیتا۔ بدایہ شریف ، در مختار ، فتاوی عالمگیری ، بہشتی زیور وغیرہ وغیرہ سے فتویٰ پیش کرتا۔ ادھر قرآن شریف کی آیتیں ، بخاری و مسلم کی حدیثیں۔ ابوداؤد ، موطا امام مالک ، ترمذی ، ابن ماجہ جیسی کتب سے احکام رسولﷺ پیش کیے جانےلگے ۔ میں ان کتب کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ کیوں؟ کیوں کہ حنفی علماء نے مجھ سے فرمایا تھا کہ قرآن و حدیث کانٹوں بھری وادی کی مثال ہیں۔ ان کو ہر گز نہ پڑھنا اس لیے میں نے کبھی ان کتب کو دیکھنے اور پڑھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی تھی ۔ صرف نام سن رکھے تھے ناظرین اندازہ فرمائیں کہ اس وقت میری کیا حالت ہوئی ہو گی ۔ میں حیران تھا بغلیں جھانک رہا تھا دل میں ایک جوش تھا کہ کسی طرح حنفی مذہب کو اس وقت سچا ثابت کر دکھاؤں کہ ان کی یہ ساری دلیلیں غلط ثابت ہو جائیں ۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ ہمارے علمائے احناف اپنے وعظوں میں تقریروں میں کتب میں تفسیروں میں تو ہمیشہ یہ کہا کرتے ہیں کہ قرآن کے بعد روئے زمین پر بخاری شریف سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے ۔ مگر آج اس بخاری و مسلم شریف سے حنفی مذہب چوپٹ ہو رہا ہے ۔ کیا کیا جائے کس طرح حنفیت کو ثابت کیا جائے۔ میں دل میں پیچو تاب کھانے لگا مگر میرا تقلیدی علم قرآن و حدیث کا مقابلہ نہ کر سکا ۔ میں خاموش ہو گیا جیسے مجھ پر سکتہ ہو گیا ہے ۔ میرے مخاطب جناب مسعود صاحب کا انداز گفتگو نہایت شیریں اور نرم تھا ۔ دوران مباحثہ میں نے ان کے چہرے سوائے مسکراہٹ اور نرمی کے کچھ نہ دیکھا۔ ان کی گفتگو بڑی عالمانہ تھی۔ ایک ایک مسئلہ کے لے وہ کئی کئی آیتیں اور حدیثیں پیش کرتے جاتے تھے ۔