ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
عن بشير بن يسار الأنصاري،
عن أنس بن مالك، أنه قدم المدينة فقيل له ما أنكرت منا منذ يوم عهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما أنكرت شيئا إلا أنكم لا تقيمون الصفوف. وقال عقبة بن عبيد عن بشير بن يسار قدم علينا أنس بن مالك المدينة بهذا.
بشیر بن یسار انصاری سےروایت ہے کہ انہوں نے
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب وہ ( بصرہ سے ) مدینہ آئے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور ہمارے اس دور میں آپ نے کیا فرق پایا۔ فرمایا کہ اور تو کوئی بات نہیں صرف لوگ صفیں برابر نہیں کرتے۔ اور عقبہ بن عبید نے بشیر بن یسار سے یوں روایت کیا کہ انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ تشریف لائے۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
صحیح بخاری حدیث نمبر : 724 کتاب الاذان
باب : اس بارے میں کہ صفیں پوری نہ کرنے والوں پر ( کتنا گناہ ہے)
تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث لاکر صف برابر کرنے کا وجوب ثابت کیا ہے کیوں کہ سنت کے ترک کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرنا نہیں کہہ سکتے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرنا بموجب نص قرآنی باعث عذاب ہے۔
( فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ او یصیبہم عذاب الیم ( النور:63 )
تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے سنت کے موافق صفیں برابر کرنا چھوڑ دی ہیں کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ آگے پیچھے بے ترتیب کھڑے ہوتے ہیں کہیں برابر بھی کرتے ہیں تو مونڈھے سے مونڈھا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملاتے۔ بلکہ ایسا کرنے کو نازیبا جانتے ہیں۔ خدا کی مار ان کی عقل اور تہذیب پر۔ نمازی لوگ پروردگار کی فوجیں ہیں۔ فوج میں جو کوئی قاعدے کی پابندی نہ کرے وہ سزائے سخت کے قابل ہوتا ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم)
عن أنس،
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " أقيموا صفوفكم فإني أراكم من وراء ظهري". وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سےروایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، صفیں برابر کر لو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ ( صف میں ) اپنا مونڈھا ( کندھا ) اپنے ساتھی کے مونڈھے ( کندھے ) سے اور اپنا قدم ( پاؤں ) اس کے قدم ( پاؤں ) سے ملا دیتا تھا۔صحیح بخاری حدیث نمبر : 725 کتاب الاذان
باب : صف میں مونڈھے سے مونڈھا ( کندھے سے کندھا ) اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا
تشریح : حضرت امام الدین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں متفرق ابواب منعقد فرما کر اور ان کے تحت متعدد احادیث لاکر صفوں کو سیدھا کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلہ کا یہ آخری باب ہے۔ جس میں آپ نے بتلایا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صف میں ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔ جیسا کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا بیان نقل ہوا کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوا کرتے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان بھی موجو دہے۔
نیز فتح الباری، جلد:2 ص:176 پر
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ
لو فعلت ذلک باحدہم الیوم لنفر کانہ بغل شموس
''اگر میں آج کے نمازیوں کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اس سے سرکش خچر کی طرح دور بھاگتے ہیں۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس درجہ غافل ہونے لگے تھے کہ ہدایت نبوی کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدموں سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بننے لگ گیا تھا۔ جس پر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو ایسا کہنا پڑا۔ اس بارے میں اور بھی کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔
روی ابوداود و الامام احمد عن ابن عمر انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال اقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینوا بایدی اخوانکم لا تذروا فرجات الشیطان من وصل صفا و صلہ اللہ و من قطع صفا قطعہ اللہ و روی البزار باسناد حسن عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام من سد فرجۃ فی الصف غفر اللہ و فی ابی داود عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام قال خیارکم الینکم مناکب فی الصلوٰۃ۔
یعنی ابوداؤد اور مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کو برابر کرو۔ یعنی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو سوراخ دو نمازیوں کے درمیان نظر آئے اسے بند کردو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے گھسنے کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔ یاد رکھو کہ جس نے صف کو ملایا اللہ اس کو بھی ملا دے گا اور جس نے صف کو قطع کیا اللہ اس کو قطع کرے گا۔ بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کی دراڑ کو بند کیا خدااس کو بخشے۔ ابوداؤد میں ہے کہ تم میں وہی بہتر ہے جو نماز میں کندھوں کو نرمی کے ساتھ ملائے رکھے۔
وعن النعمان بن بشیر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا کانما یسوی بہ القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد ان یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم رواہ الجماعۃ الا البخاری فان لہ منہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم۔ ولاحمد و ابی داود فی روایۃ قال فرایت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ و رکبتہ برکبتہ و منکبہ بمنکبہ۔ ( نیل الاطار ج:3ص:199 )
یعنی سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔ ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان باہمی طور پر اختلاف ڈال دے گا۔ بخاری شریف میں یوں ہے کہ اپنی صفوں کو بالکل برابر کر لیا کرو۔ ورنہ تمہارے چہروں میں آپس میں اللہ مخالفت ڈال دے گا۔ اور احمد اور ابوداؤد کی روایات میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھے اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملایا کرتا تھا۔
امام محمد کتاب الآثار باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں: عن ابراہیم انہ کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم تراصوا و لایتخللنکم الشیطان الخ قال محمد و بہ ناخذ لا ینبغی ان یترک الصف و فیہ الخلل حتی یسووا و ہو قول ابی حنفیۃ
یعنی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔ جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
نیز بحر الرائق و عالمگیری و درمختار میں بھی یہی ہے کہ ینبغی للمامون ان یتراصوا و ان یسدو الخلل فی الصفوف و یسووا مناکبہم وینبغی للامام ان یامرہم بذلک و ان یقف وسطہم
یعنی مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو چونا گچ کریں صفوں میں درازوں کو بند کردیں اور شانوں کو ہموار رکھیں بلکہ امام کے لیے لائق ہے کہ مقتدیوں کو اس کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو۔ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کرلیں۔ ( شامی، ج:1ص:595 )
یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، پیر سے پیر ملاکر کھڑا ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود آج کل مساجد میں صفوں کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ہر نمازی دوسرے نمازی سے دور بالکل ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ اچھوتوں سے اپنا جسم دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قدم سے قدم ملانے کی کوشش کی جائے تو ایسے سرک کر الگ ہو جاتے ہیں جیسے کہ کسی بچھو نے ڈنک ماردی ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملت کے باہمی طور پر دل نہیں مل رہے ہیں۔ باہمی اتفاق مفقود ہے سچ ہے
صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق
کہ انداز جنوں باقی نہیں ہے
عجیب فتوی:
ہمارے محترم دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد پوری طرح صفوں کو درست کرنا ہے تاکہ درمیان میں کسی قسم کی کوئی کشادگی باقی نہ رہے۔ ( تفہیم البخاری پ:3 ص:108 ) بالکل درست اور بجا ہے کہ شارع کا یہ مقصد ہے اور لفظ تراصوا کا یہی مطلب ہے کہ نمازیوں کی صفیں چوناگچ دیواروں کی طرح ہونی ضروری ہیں۔ درمیان میں ہرگز ہرگز کوئی سوراخ باقی نہ رہ جائے۔ مگر اسی جگہ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ فقہائے اربعہ کے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہونا چاہئے۔ ( حوالہ مذکور )
تفصیلات بالا میں شارع کا مقصد ظاہر ہوچکا ہے کہ صف میں ہر نمازی کا دوسرے نمازی کے قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملانا مقصود ہے۔ اکابر احناف کا بھی یہی ارشاد ہے پھر یہ " دو آدمیوں کے درمیان چار انگل کے فرق کا فتوی " سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مطلب رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کی جاسکتی ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی قول۔ پھر یہ چار انگل کے فاصلے کی اختراع کیا وزن رکھتی ہے؟
اسی فتویٰ کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ مساجد میں جماعتوں کا عجیب حال ہے۔ چار انگل کی گنجائش پاکر لوگ ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی قدم مل جانے کو انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس پرہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتاہے۔ کیا ہمارے انصاف پسند و حقیقت شناس علمائے کرام اس صورت حال پر محققانہ نظر ڈال کر اصلاح حال کی کوشش فرما سکیں گے۔ ورنہ ارشاد نبوی آج بھی پکار پکا ر کر اعلان کر رہا ہے۔ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین قلوبکم صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی صفیں برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں باہمی اختلاف ڈال دے گا۔
(مولانا داؤد راز رحمہ اللہ)
عن أنس بن مالك، أنه قدم المدينة فقيل له ما أنكرت منا منذ يوم عهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما أنكرت شيئا إلا أنكم لا تقيمون الصفوف. وقال عقبة بن عبيد عن بشير بن يسار قدم علينا أنس بن مالك المدينة بهذا.
بشیر بن یسار انصاری سےروایت ہے کہ انہوں نے
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب وہ ( بصرہ سے ) مدینہ آئے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور ہمارے اس دور میں آپ نے کیا فرق پایا۔ فرمایا کہ اور تو کوئی بات نہیں صرف لوگ صفیں برابر نہیں کرتے۔ اور عقبہ بن عبید نے بشیر بن یسار سے یوں روایت کیا کہ انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ تشریف لائے۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
صحیح بخاری حدیث نمبر : 724 کتاب الاذان
باب : اس بارے میں کہ صفیں پوری نہ کرنے والوں پر ( کتنا گناہ ہے)
تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث لاکر صف برابر کرنے کا وجوب ثابت کیا ہے کیوں کہ سنت کے ترک کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرنا نہیں کہہ سکتے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرنا بموجب نص قرآنی باعث عذاب ہے۔
( فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ او یصیبہم عذاب الیم ( النور:63 )
تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے سنت کے موافق صفیں برابر کرنا چھوڑ دی ہیں کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ آگے پیچھے بے ترتیب کھڑے ہوتے ہیں کہیں برابر بھی کرتے ہیں تو مونڈھے سے مونڈھا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملاتے۔ بلکہ ایسا کرنے کو نازیبا جانتے ہیں۔ خدا کی مار ان کی عقل اور تہذیب پر۔ نمازی لوگ پروردگار کی فوجیں ہیں۔ فوج میں جو کوئی قاعدے کی پابندی نہ کرے وہ سزائے سخت کے قابل ہوتا ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم)
عن أنس،
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " أقيموا صفوفكم فإني أراكم من وراء ظهري". وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سےروایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، صفیں برابر کر لو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ ( صف میں ) اپنا مونڈھا ( کندھا ) اپنے ساتھی کے مونڈھے ( کندھے ) سے اور اپنا قدم ( پاؤں ) اس کے قدم ( پاؤں ) سے ملا دیتا تھا۔صحیح بخاری حدیث نمبر : 725 کتاب الاذان
باب : صف میں مونڈھے سے مونڈھا ( کندھے سے کندھا ) اور قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونا
تشریح : حضرت امام الدین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں متفرق ابواب منعقد فرما کر اور ان کے تحت متعدد احادیث لاکر صفوں کو سیدھا کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلہ کا یہ آخری باب ہے۔ جس میں آپ نے بتلایا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صف میں ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔ جیسا کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا بیان نقل ہوا کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوا کرتے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان بھی موجو دہے۔
نیز فتح الباری، جلد:2 ص:176 پر
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ
لو فعلت ذلک باحدہم الیوم لنفر کانہ بغل شموس
''اگر میں آج کے نمازیوں کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اس سے سرکش خچر کی طرح دور بھاگتے ہیں۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس درجہ غافل ہونے لگے تھے کہ ہدایت نبوی کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدموں سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بننے لگ گیا تھا۔ جس پر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو ایسا کہنا پڑا۔ اس بارے میں اور بھی کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔
روی ابوداود و الامام احمد عن ابن عمر انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال اقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینوا بایدی اخوانکم لا تذروا فرجات الشیطان من وصل صفا و صلہ اللہ و من قطع صفا قطعہ اللہ و روی البزار باسناد حسن عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام من سد فرجۃ فی الصف غفر اللہ و فی ابی داود عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام قال خیارکم الینکم مناکب فی الصلوٰۃ۔
یعنی ابوداؤد اور مسند احمد میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کو برابر کرو۔ یعنی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو سوراخ دو نمازیوں کے درمیان نظر آئے اسے بند کردو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے گھسنے کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔ یاد رکھو کہ جس نے صف کو ملایا اللہ اس کو بھی ملا دے گا اور جس نے صف کو قطع کیا اللہ اس کو قطع کرے گا۔ بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کی دراڑ کو بند کیا خدااس کو بخشے۔ ابوداؤد میں ہے کہ تم میں وہی بہتر ہے جو نماز میں کندھوں کو نرمی کے ساتھ ملائے رکھے۔
وعن النعمان بن بشیر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا کانما یسوی بہ القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد ان یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم رواہ الجماعۃ الا البخاری فان لہ منہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم۔ ولاحمد و ابی داود فی روایۃ قال فرایت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ و رکبتہ برکبتہ و منکبہ بمنکبہ۔ ( نیل الاطار ج:3ص:199 )
یعنی سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔ ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان باہمی طور پر اختلاف ڈال دے گا۔ بخاری شریف میں یوں ہے کہ اپنی صفوں کو بالکل برابر کر لیا کرو۔ ورنہ تمہارے چہروں میں آپس میں اللہ مخالفت ڈال دے گا۔ اور احمد اور ابوداؤد کی روایات میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھے اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملایا کرتا تھا۔
امام محمد کتاب الآثار باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں: عن ابراہیم انہ کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم تراصوا و لایتخللنکم الشیطان الخ قال محمد و بہ ناخذ لا ینبغی ان یترک الصف و فیہ الخلل حتی یسووا و ہو قول ابی حنفیۃ
یعنی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔ جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
نیز بحر الرائق و عالمگیری و درمختار میں بھی یہی ہے کہ ینبغی للمامون ان یتراصوا و ان یسدو الخلل فی الصفوف و یسووا مناکبہم وینبغی للامام ان یامرہم بذلک و ان یقف وسطہم
یعنی مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو چونا گچ کریں صفوں میں درازوں کو بند کردیں اور شانوں کو ہموار رکھیں بلکہ امام کے لیے لائق ہے کہ مقتدیوں کو اس کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو۔ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کرلیں۔ ( شامی، ج:1ص:595 )
یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، پیر سے پیر ملاکر کھڑا ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود آج کل مساجد میں صفوں کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ہر نمازی دوسرے نمازی سے دور بالکل ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ اچھوتوں سے اپنا جسم دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قدم سے قدم ملانے کی کوشش کی جائے تو ایسے سرک کر الگ ہو جاتے ہیں جیسے کہ کسی بچھو نے ڈنک ماردی ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملت کے باہمی طور پر دل نہیں مل رہے ہیں۔ باہمی اتفاق مفقود ہے سچ ہے
صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق
کہ انداز جنوں باقی نہیں ہے
عجیب فتوی:
ہمارے محترم دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد پوری طرح صفوں کو درست کرنا ہے تاکہ درمیان میں کسی قسم کی کوئی کشادگی باقی نہ رہے۔ ( تفہیم البخاری پ:3 ص:108 ) بالکل درست اور بجا ہے کہ شارع کا یہ مقصد ہے اور لفظ تراصوا کا یہی مطلب ہے کہ نمازیوں کی صفیں چوناگچ دیواروں کی طرح ہونی ضروری ہیں۔ درمیان میں ہرگز ہرگز کوئی سوراخ باقی نہ رہ جائے۔ مگر اسی جگہ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ فقہائے اربعہ کے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہونا چاہئے۔ ( حوالہ مذکور )
تفصیلات بالا میں شارع کا مقصد ظاہر ہوچکا ہے کہ صف میں ہر نمازی کا دوسرے نمازی کے قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملانا مقصود ہے۔ اکابر احناف کا بھی یہی ارشاد ہے پھر یہ " دو آدمیوں کے درمیان چار انگل کے فرق کا فتوی " سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مطلب رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کی جاسکتی ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی قول۔ پھر یہ چار انگل کے فاصلے کی اختراع کیا وزن رکھتی ہے؟
اسی فتویٰ کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ مساجد میں جماعتوں کا عجیب حال ہے۔ چار انگل کی گنجائش پاکر لوگ ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی قدم مل جانے کو انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس پرہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتاہے۔ کیا ہمارے انصاف پسند و حقیقت شناس علمائے کرام اس صورت حال پر محققانہ نظر ڈال کر اصلاح حال کی کوشش فرما سکیں گے۔ ورنہ ارشاد نبوی آج بھی پکار پکا ر کر اعلان کر رہا ہے۔ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین قلوبکم صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی صفیں برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں باہمی اختلاف ڈال دے گا۔
(مولانا داؤد راز رحمہ اللہ)