باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ مل جاتا ہے اور جو نعمت بھی عطا کر دی جاتی ہے ، چھوٹی ہو یا بڑی ، اسے بہت زیادہ اور بہت بڑی نعمت تصور کرتا ہے۔ اپنی ذات کو وہ اس سے کمتر سمجھتا ہے ، حقیر سے حقیر نعمت کا بھی اپنے کو مستحق نہیں سمجھتا اور اپنے آپ کو نہ صرف ہر ابتلاء و مصیبت کا اہل اور مستحق ، بلکہ بڑی سے بڑی مصیبت کا بھی اپنی ذات کو مستوجب سمجھتا ہے۔ اور یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ احسان ہی کیا ہے کہ گناہ و جرم کی مقدار کے مقابلے میں اسے کچھ بھی سزا نہیں دی ، کیونکہ جرم کے مقابلے میں جس سزا کے وہ لائق تھا ، وہ ایسی تھی کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اسے برداشت نہیں کر سکتے ، چہ جائیکہ ایک عاجز و کمزور بندہ؟
کیونکہ گناہ اگرچہ چھوٹے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ، مگر اس عظیم ترین ذات کے مقابلے میں ہے ، جس سے کوئی بھی بڑا نہیں ، جس سے کوئی جلیل و بزرگ اور کبیر و برتر نہیں۔ چھوٹی بڑی تمام نعمتوں کا دینے والا وہی ایک اکیلا ہے ، دوسرا کوئی نہیں۔ اس کا مقابلہ کس قدر قبیح ، شنیع اور ناجائز ہو سکتا ہے۔
دنیا کی ہر قوم ۔۔۔ مومن اور کافر ۔۔۔ اپنے عظماء اجلاء اور سرداروں کا مقابلہ ایک قبیح ترین حرکت سمجھتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ وہی آدمی کرتا ہے جو سب سے زیادہ رذیل ہوتا ہے جس میں جوہرِ مروت نام کو نہیں ہوتا۔
اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ اگر ذلیل ترین حرکت ہے تو پھر اس ذات کا مقابلہ کس قدر رذیل و ذلیل حرکت ہوگی ، جو سب سے بڑی سب سے زیادہ بااختیار اور زمینوں آسمانوں کی مالک ، حاکم اور سلطان و معبود ہے۔
اگر اس کی رحمت اس کے غضب پر ، اس کی مغفرت اس کی عقوبت پر غالب نہ آتی تو ساری زمین زلزلوں سے پاش پاش ہو جاتی۔
اگر حلم و بردباری اور مغفرت و بخشش نہ ہوتی تو بندوں کے گناہوں کی وجہ سے آسمان و زمین اپنی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے اور دنیا تباہ ہو جاتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إن الله يمسك السماوات والأرض أن تزولا ولئن زالتا إن أمسكهما من أحد من بعده إنه كان حليما غفورا
بےشک اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ، اپنی جگہ سے ٹل جائیں۔ تو پھر اس کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں جو انہیں تھام سکے۔ بےشک اللہ تعالیٰ بڑا تحمل والا اور بخشنے والا ہے۔
( فاطر:35 - آيت:41 )
آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے دو نام آئے ہیں۔ ان پر غور کیجیے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام اسماء میں سے ان دو ناموں کا ذکر فرمایا ہے اور آیت کو ان دو پر ختم کیا ہے کہ وہ حلیم و غفور ہے۔
سوچیے کہ اللہ کے کیا کیا راز اس میں مضمر اور پوشیدہ ہیں؟ اللہ تعالیٰ اگر مجرموں اور گنہ گاروں کے ساتھ حلم و بردباری اور مغفرت و درگزر سے کام نہ لیتا تو آسمان و زمین اپنی جگہ سے ٹل جاتے اور دنیا تباہ ہو جاتی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ بندہ توبہ کرنے کے بعد قبل گناہ سے بھی بہتر ہو جاتا ہے ، جو درجہ اسے پہلے حاصل تھا ، اس سے بلند تر مقام پر جا پہنچتا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرض زائل ہو جاتا ہے اور اسے وہی صحت حاصل ہو جاتی ہے جو پہلے حاصل تھی ، اب وہ اسی کے مثل عمل کرنے لگتا ہے اور اپنے اصل درجے کو پا لیتا ہے۔
کیونکہ گناہ اگرچہ چھوٹے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ، مگر اس عظیم ترین ذات کے مقابلے میں ہے ، جس سے کوئی بھی بڑا نہیں ، جس سے کوئی جلیل و بزرگ اور کبیر و برتر نہیں۔ چھوٹی بڑی تمام نعمتوں کا دینے والا وہی ایک اکیلا ہے ، دوسرا کوئی نہیں۔ اس کا مقابلہ کس قدر قبیح ، شنیع اور ناجائز ہو سکتا ہے۔
دنیا کی ہر قوم ۔۔۔ مومن اور کافر ۔۔۔ اپنے عظماء اجلاء اور سرداروں کا مقابلہ ایک قبیح ترین حرکت سمجھتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ وہی آدمی کرتا ہے جو سب سے زیادہ رذیل ہوتا ہے جس میں جوہرِ مروت نام کو نہیں ہوتا۔
اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ اگر ذلیل ترین حرکت ہے تو پھر اس ذات کا مقابلہ کس قدر رذیل و ذلیل حرکت ہوگی ، جو سب سے بڑی سب سے زیادہ بااختیار اور زمینوں آسمانوں کی مالک ، حاکم اور سلطان و معبود ہے۔
اگر اس کی رحمت اس کے غضب پر ، اس کی مغفرت اس کی عقوبت پر غالب نہ آتی تو ساری زمین زلزلوں سے پاش پاش ہو جاتی۔
اگر حلم و بردباری اور مغفرت و بخشش نہ ہوتی تو بندوں کے گناہوں کی وجہ سے آسمان و زمین اپنی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے اور دنیا تباہ ہو جاتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إن الله يمسك السماوات والأرض أن تزولا ولئن زالتا إن أمسكهما من أحد من بعده إنه كان حليما غفورا
بےشک اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ، اپنی جگہ سے ٹل جائیں۔ تو پھر اس کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں جو انہیں تھام سکے۔ بےشک اللہ تعالیٰ بڑا تحمل والا اور بخشنے والا ہے۔
( فاطر:35 - آيت:41 )
آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے دو نام آئے ہیں۔ ان پر غور کیجیے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام اسماء میں سے ان دو ناموں کا ذکر فرمایا ہے اور آیت کو ان دو پر ختم کیا ہے کہ وہ حلیم و غفور ہے۔
سوچیے کہ اللہ کے کیا کیا راز اس میں مضمر اور پوشیدہ ہیں؟ اللہ تعالیٰ اگر مجرموں اور گنہ گاروں کے ساتھ حلم و بردباری اور مغفرت و درگزر سے کام نہ لیتا تو آسمان و زمین اپنی جگہ سے ٹل جاتے اور دنیا تباہ ہو جاتی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ بندہ توبہ کرنے کے بعد قبل گناہ سے بھی بہتر ہو جاتا ہے ، جو درجہ اسے پہلے حاصل تھا ، اس سے بلند تر مقام پر جا پہنچتا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرض زائل ہو جاتا ہے اور اسے وہی صحت حاصل ہو جاتی ہے جو پہلے حاصل تھی ، اب وہ اسی کے مثل عمل کرنے لگتا ہے اور اپنے اصل درجے کو پا لیتا ہے۔
اقتباس : دوائے شافی (امام ابن قیم رحمۃ اللہ)