• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحیدِ طاعت اور عبودیتِ خالصہ کا مفقود مفہوم

ابن انور

مبتدی
شمولیت
نومبر 01، 2022
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
24
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
توحیدِ طاعت اور عبودیتِ خالصہ کا مفقود مفہوم

اے صاحبِ ادراکِ دقیق و سالکِ راہِ تمییز! اپنے گوشِ خرد کو از نو معطَّرِ التفات کر اور دیدۂ بصیرت کو از سرِ نو منور کر، کہ مطلقِ اطاعتِ غیرِ الٰہی دراصل اصل الاصولِ کفر و منشأ الفسادِ عقیدت ہے۔

یہ وہ رازِ مکشوف و پردہ‌نشینِ ضلالت ہے، جس پر جہلِ مرکب کی گردِ کثیف جم چکی اور وہم و وسواس کے دخانی پردوں نے شریعتِ غرّاء کے شمسِ درخشاں کو مضمحل و مدھم کر دیا۔

حقِّ سبحانہٗ و تعالیٰ نے کلامِ ازلی میں ارشاد فرمایا:
«یٰأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ»
یعنی اے اربابِ ایمان و اربابِ ایقان! تم اطاعت گزاری کرو اللہ کی، اور اطاعت‌پذیر رہو اس کے رسولِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم کے، اور ان صاحبانِ امر کے جو تم میں سے ہوں، بشرطِ آنکہ وہ شرعِ مطہر کے حدود سے ماورا نہ ہوں۔

یہاں لفظِ «أَطِیْعُوا» کا تکرار دراصل رمزی اشارت ہے، اس معنی پر کہ اطاعتِ رسالت درحقیقت ظلّ اطاعتِ الوہیت ہے؛ لیکن اولی الامر کی اطاعت، اگر وہ شریعتِ ربّانی کی قید میں محصور نہ ہو، تو عبودیتِ حق سے انحراف اور وادیِ شرکِ اطاعت میں غوطہ زن ہونا ہے۔

اور جو شخص اس ضابطۂ وحیانی کو پسِ پشت ڈالے، وہ گویا خود کو از دائرۂ عبودیت برون کر کے شرکِ طاعت کے کفرنامہ پر دستخط کرتا ہے۔

پھر ربّ العالمین نے ایک اور مقام پر فرمایا:
«یٰأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیْبُوا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ»
یعنی اے اہلِ تصدیقِ ایمانی! لبیک کہو ربِّ کریم و رسولِ عظیم صلی اللہ علیہ وسلم کے نداپرور پکار پر، جب وہ تمہیں اس امرِ ربانی کی طرف بلائیں جو روحِ حیات اور سرّ بقا سے معمور ہے۔

پس واضح ہوا کہ زندگیِ قلبی و جاں کی طراوت اطاعتِ الوہیت و رسالت کے جامِ فرمانبرداری کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، اور غیرِ اللہ کی غیر مشروط متابعت، ہلاکتِ وجدان و فنائے ایمان کا زہرِ مہلک ہے۔

بلکہ ربِّ قدیر جلَّ مجدُہٗ نے شیطان کی اطاعت کو بھی عبادت سے موسوم فرمایا، چنانچہ ارشاد ہے:
«أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ وَ أَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ»
یعنی اے ذریتِ آدم! کیا میں نے تمہیں وصیت نہ کی تھی کہ شیطان کی پرستش نہ کرو؟ وہ تمہارا دشمنِ جَلی و مبین ہے؛
بلکہ میری بندگی کرو کہ یہی صراطِ مستقیم و راہِ نجات ہے۔

پس جس نے بھی، خواہ وہ فردِ واحد ہو یا جماعتِ منظمہ، امرِ الٰہی و رسالتی کی قیود سے باہر نکل کر کسی اور کے لیے مطلق اطاعت کا جواز تراشا، تو درحقیقت اس نے اس غیر کو الوہیت کے تخت پر بٹھایا، اور وہی تعظیم بجا لائی جو جز للّٰہ کے کسی کے لائق نہیں۔

یہی مفہومِ لطیف اس آیتِ مبارکہ میں مصوَّر ہے:
«اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰہِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَ مَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ»
یعنی انہوں نے اپنے علما و رہبان، بلکہ مسیحِ ابنِ مریمؑ تک کو الوہیت کا شریک ٹھہرا لیا، حالانکہ ان پر فرضِ قطعی یہی تھا کہ وہ محض ایک ہی الٰہِ برحق کی بندگی بجا لائیں، وہی ہے جو وحدہٗ لا شریک، منزہ و متعالی ہے اُن کی خرافاتِ شرکیہ سے۔

پس اے اربابِ تمییز و اصحابِ درایت! یاد رکھو کہ جب مطلق اطاعت حدودِ وحیِ الٰہی کے حصار سے نکل جائے، تو وہ دراصل عبادتِ غیر اور کفرِ خفی کا مستور نقاب ہے۔ عبودیتِ خالصہ کا زیور، فقط اسی ذاتِ سبحانہٗ کے گلے کا ہار ہے، جو ربُّ السمواتِ العُلیٰ و ربُّ الأرضینِ السفلیٰ ہے۔ اللہُ وحدہٗ لا شریک لہ، لہ الحمدُ فی الأُولیٰ و الآخرة، و لہ الحکمُ و إلیه تُرجَعون۔
 
Top