• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید کی حقیقت

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
توحید الوہیت کی حقیقت

¤ توحيد سے مراد:اللہ عزوجل کو اس کی ساری عبادتوں میں ایک ماننا ہے.
اس پر مندرجہ ذیل امور دلالت کرتے ہیں:
أ- *لغوی دلیل* :
لفظ" *توحید* " فعل" *وحد* " کا مصدر ہے، جو انفرادیت پر دلالت کرتا ہے(تفصیل کے لئے رجوع کریں:معجم مقاييس اللغة:6/90).
اللہ تعالٰی کی ذات اپنی ربوبیت، وکمال صفات میں منفرد ہے، لہذا افرادیت کا امر بندوں کے افعال سے متعلق ہے، چنانچہ بندوں کا اپنے قصد و افعال کے ساتھ اللہ تعالٰی کی طرف متوجہ ہونا ہی" *عبودیت و الوہیت* " ہے.

ب- *شرعی دلیل* :
شریعت میں بھی توحید سے یہی معنی مراد لیا گیا ہے، چنانچہ ہر رسول کو اسی کا حکم دیا گیا:{وما أمروا إلا ليعبدوا إلها واحدا لا إله هو}[سورة التوبة:31]، جب مشرکین مکہ کے سامنے دعوت توحید پیش کی گئی تو ان کا جواب یہ تھا کہ:{أجعل الآلهة إلها واحدا}[سورة ص:3]، جب نبی کریم - صلی اللہ علیہ وسلم- نے حضرت معاذ بن جبل- رضی اللہ عنہ- کو یمن کی طرف بحیثیت داعی بنا کر بھیجا تو فرمایا تھا:" فليكن أول ماتدعوهم إلى أن *يوحدوا الله* "(صحيح البخاري -7372-)، اور حضرت جابر - رضی اللہ عنہ- نبی اکرم - صلی اللہ علیہ وسلم- کے حج کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ:《 *فأهل بالتوحيد* " لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك"》(صحيح مسلم-832-).
ج- *دلیل إجماع* :
اللہ کی ربوبیت ( *خلق،ملک،تدبیر* ) پر کسی کا اختلاف نہیں، اگر کسی نے کبھی اختلاف کیا تو وہ محض زبانی دعوی تھا، حالانکہ اس کا دل ربوبیت الہی پر مقر تھا، چنانچہ فرعون- رئیس الملحدین- نے یہ دعوی کیا تھا:{أنا ربكم الأعلى}[سورة النازعات:24]، لیکن اللہ نے اس کی حقیقت حال کو یہ کہہ کر واضح فرما دیا:[وجحدوا بها واستيقنتها أنفسهم ظلما وعلوا]{سورة النمل:14}.
• مذکورہ بالا سطور سے واضح ہوتا ہے کہ لفظ" *توحید* " سے مراد: *اللہ تعالٰی کو اس کی ساری عبادتوں میں ایک ماننا ہے* (تفصیل کے لئے رجوع کریں:أهمية دراسة التوحيد،ص:11- 19).
¤ واضح رہے کہ توحید الوہیت ہی بندوں سے مطلوب ہے، مگر شریعت اسلامیہ میں مطلق طور جہاں *توحید* بولا گیا ہے، وہاں ایک ساتھ تین معانی مطلوب ہیں:
1- اللہ تعالٰی اپنی ربوبیت( خلق،ملک، وتدبیر) میں منفرد ہے.
2- اللہ کی ذات کامل الصفات ہے.
3- اللہ تعالٰی ہی کے لئے ساری عبادتوں کو خاص کرنا ہے.
¤ ان تینوں معانی کو بیک وقت ثابت کرنا ضروری ہے، کیونکہ:
1- جو خالق، مالک، و مدبر ہے، وہی حقیقی معبود بھی ہے.
2- جو معبود حقیقی ہے، ضروری ہے کہ وہ کامل الصفات بھی ہو.
3- خالق، مالک، ومدبر کے بغیر کوئی معبود حقیقی ہو ہی نہیں سکتا ہے.
¤ بنا بریں ان معانی ثلاثہ پر یہ قاعدہ نافذ کرنا ضروری ہے:" *إذا اجتمعت افترقت، وإذا افترقت اجتمعت* "
¤ نصوص شرعیہ کے استقراء، و مذکورہ بالا قاعدہ کی رو سے توحید کی تین قسمیں بنتی ہیں:
1- توحید ربوبیت.
2- توحید اسماء وصفات.
3- توحید الوہیت.
ان تینوں قسموں کا ذکر ایک ہی آیت کریمہ میں آیا ہے:{رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا}[سورة مريم:65].
¤ بندوں پر اللہ تعالٰی کے بے شمار احسانات و انعامات ہیں، لہذا اس کےحقوق بھی لا تعداد ہیں، جن کی معرفت حقیقت توحید پرمنحصر ہے، اور یہ مندرجہ ذیل امور سے واضح ہوتا ہے.
*معرفت توحید کی دو قسمیں ہیں* :
1- *اصل توحید کی معرفت* ؛ جو اللہ کے لئے کمال درجے کی محبت اور غایت درجے کی عاجزی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.
2- *فروع توحید کی معرفت* ؛ جو اعمال وطاعات کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.

¤ پہلی قسم مقصود بالذات ہے، لہذا ہر حال میں اسے بروئے کار لانا انسان پر واجب و ضروری ہے، کیونکہ:
1- اس کا تعلق ذات الہی سے ہے، نبی کریم - صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"حق الله على العباد أن يعبدوه ولا يشركوا به شيأ"(صحيح البخاري-2856-، وصحيح مسلم-49-).
2- اللہ تعالٰی نے جن و انسان کو اسی توحید کی خاطر پیدا فرمایا:{وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون}[سورة الذاريات:56]
3- اسی توحید پر قبولیت اعمال کا دار مدار ہے:{فاعلم أنه لا إله إلا الله واستغفر لذنبك}[سورة محمد:19].
4- توحید الوہیت ہی جزاء کا معیار ہوگا:{حق العباد على الله أن لا يعذب من لا يشرك به شيأ}[صحيح البخاري-2856-، و صحيح مسلم-49-].
¤ جبکہ معرفت توحید کی دوسری قسم سے توحید کی تحقیق و تکمیل ہوتی ہے، اور اسی سے ا س کے نواقض وقوادح کی پہچان ہوتی ہے(تفصیل کے لئے رجوع کریں:مقاصد دراسة التوحيد وأسسها،ص:8-9).

¤ " *الوہیت* " کے معنی میں لفظ" *عبادت* " مستعمل ہے، عبادت؛ تواضع، اور عاجزی و انکساری کا نام ہے، مگر شرعی اعتبار سے ہر وہ ظاہری و باطنی قول و عمل عبادت میں شامل ہے جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے،اور اس سے راضی بھی ہوتا ہے، یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ -رحمة الله عليه- نے کہی ہے:" *اسم جامع لكل مايحبه الله ويرضاه من الأقوال والأفعال الظاهرة والباطنة* "(العبودية لابن تيمية،ص:23).
اس اعتبار سے انسان کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا غرض کہ زندگی سے متعلق سارے امور عبادت میں بدل سکتے ہیں، جس کے لئے دو چیزوں کو ملحوط خاطر رکھنا ضروری ہے:
1- *اخلاص*
2- *کوئی چیز سنت نبویہ کے مخالف نہ ہو* .
¤ واضح رہے کہ *سنت کے مخالف اور سنت کے موافق* میں ایک بنیادی فرق ہے، سنت کے موافق؛ جس کے جواز پر *نص صریح* موجود ہو، جہاں تک سنت کے مخالف نہ ہونے کی بات ہے تو اس سے مراد : *جس کے لئے کوئی دلیل نہ ہو مگر اس سے اصول شریعت کی مخالفت نہیں ہوتی ہے* .

¤ *عبادت کے دو اہم ارکان ہیں* :
1- *کمال محبت*
2- *کمال عاجزی*
بناء بریں اللہ کے سامنے نہایت عاجزی اور کمال درجے کی محبت و تعظیم کے ساتھ جھکنا جانا ہے عبات ہے.
• *کمال محبت تین امور سے حاصل ہوتا ہے* :
1- غایت درجے کی محبت کو اللہ کے لئے خاص کر دینا.
2- " *الحب في الله والبغض في الله* " کو معیار بنا کر محبت کے تمام انواع پر اللہ کی محبت کو مقدم کرنا.
3- محبت الہیہ کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں سے اس کا ہر اعتبار سے دفاع کرنا.
ان تینوں امور پر یہ حدیث رسول-صلی اللہ علیہ وسلم- دلالت کرتی ہے:"ثلاثٌ من كن فيه وجد بهن حلاوة الإيمان، من كان الله ورسوله أحبَّ إليه مما سواهما، وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله، وأن يكره أن يعود في الكفر بعد أن أنقذه الله منه، كما يكره أن يقذف في النار"(صحيح البخاري-16-،وصحيح مسلم-43-).
• *كمال عاجزی بھی تین امور سے حاصل ہوتا ہے* :
1- تمام مسائل میں اللہ و رسول -صلی اللہ علیہ وسلم- کو حکم تسلیم کرنا.
2- اللہ و رسول -صلی اللہ علیہ وسلم- کے فیصولوں کے لئے دل میں کوئی حرج وتنگی نہ ہو.
3- اللہ و رسول -صلی اللہ علیہ وسلم- کے فیصولوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا.
ان تنیوں امور پر رب کریم کا یہ قول دلالت کرتا ہے:{ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}[ سورة النساء:65].
¤ عبادت کے ان دونوں ارکان کی تحقیق سے انسان عبادت کا اعلی مرتبہ《 *الإحسان* 》تک پہونچ جاتا ہے، اور پھر..............
.
¤ کمال محبت وکمال عاجزی عبات کے دو بنیادی ارکان ہیں، ان ارکان کو بروئے کار لا کر انسان عبات کے اعلی درجہ" *احسان* " تک پہونچ جاتا ہے، جس کے بارے میں نبی کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا:أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك "(صحيح البخاري-50-، وصحيح مسلم-9-).
•" *أن تعبد الله كأنك تراه* " یہ محبت و امید پر دلالت کررہا ہے.
• جبکہ" *فإن لم تكن تراه فإنه يراك* " یہ خوف پر دلالت کر رہا ہے.
لہذا عبادت کے اس عظیم مرتبہ(احسان) کے تین ارکان ہیں:
1- *محبت* ؛ یہی عبادت کی اصل روح ہے، یہ واجبی محبت صرف اللہ کے لئے خاص ہے، جس میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا ہے:{وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ}[سورة البقرة:165].
2- *امید* ؛ جنت، رحمت، نعمت، انعام و اکرام، اور اللہ کے وعدوں کو سن کر مؤمنون کے دلوں میں امیدیں بڑھ جاتی ہیں، خاص طور پر جب انسان مصیبتوں سے دو چار ہو تو ایسے میں اللہ سے لولگانا، اور اسی سے امیدیں وابستہ کرنا ضروری ہے:{ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا}[سورة الكهف:110].
3- *خوف* ؛ جہنم، عذاب، عقاب وسزا، اور اللہ کی وعیدوں کو سن کر مؤمنون کے دلوں میں خوف وڈر قائم ہوجاتا ہے، بالخصوص جب انسان خوش حالی کی زندگی گزار رہا ہے، تو یہ خوف لاحق رہے کہ کہیں اس سے نا شکری نہ ہو جائے، اس سے یہ نعمت چھن نہ جائے، یا پھر کہیں اس کے اعمال اللہ کے دربار میں مقبول نہ ہوں:{فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ}[سورة آل عمران:175].
• یقینا دل میں ایک ساتھ اللہ تعالی کی محبت، امید اور خوف کاپایا جانا مؤمنون کی ایک بڑی خوبی ہے، اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا:{وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا}[سورة الإسراء:57].
لہذا عبادت کے ان تینوں ارکان کا بیک وقت پاجانا ضروری ہے، اگر ان میں سے ایک بھی نہ پایا جائے تو پھر کوئی عبادت عبادت نہ کہلائے گی، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ-رحمة الله علیہ- فرماتے ہیں کہ:" جس نے صرف محبت کے ذریعہ اللہ کی عبادت کی وہ زندیق ہے، اور جس نے صرف امید کے ذریعہ اس کی عبادت کی وہ مرجئ ہے، اور جس نے صرف خوف کے ذریعہ اس کی عبادت کی وہ حروری ہے، اور جس نے محبت، خوف، اور امید کے ذریعہ اس کی عبادت کی وہ موحد ہے"(العبودية لابن تيمية،ص:161-162).
اور امام ابن القیم-رحمة الله عليه-نے ان تینوں ارکان عبادت کی بڑی عمدہ مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ:" اللہ عزوجل کے تک پہنچنے میں دل کی مثال کسی پرندے جیسی ہے، اس کا سر محبت ہے، اور خوف و امید اس کے دونوں پنکھ ہیں، لہذا جب تک پرندے کا سر سالم رہے، وہ بہتر اڑ سکتا ہے، اور جب اس کا سر کاٹ دیا جائے تو وہ مر جاتا ہے، اور جب اس کے دونوں پنکھ مفقود ہوں تو پھر وہ ہر شکاری کا شکار بن سکتا ہے....."(مدارج السالكين لابن القيم:1/554).

¤ عبادت کے اس عظیم درجہ(احسان) تک پہونچ کر انسان کو ایسا لگتا ہے وہ اپنے رب کو دیکھ رہا ہے، مگر دنیاوی زندگی میں یہ ممکن نہیں ہے، ہاں مگر ایسے لوگوں کو - ان شاء الله- بروز قیامت اپنے مالک کا دیدار نصیب ہوگا:{وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ}[سورة القيامة:22-23].
جہاں تک مالک کائنات کی بات ہے تو بصیر، خبیر، اور شہید ہے، جس کی نگاہ سے کوئی شئ اوجھل نہیں ہو سکتی ہے، لہذا اپنے ایسے خاص بندے کا زندگی کے ہر موڑ پر تعاون کرتا ہے:{إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ}[سورة النحل:128].

¤ یقینا اہل توحید؛ جنہوں نے مقاصد توحید کو بروئے کار لایا، نواقض و قوادح توحید سے اپنے ایمان و توحید کو بچا کر رکھا، یہی لوگ محسنین ہیں، اور انہیں کامیابی کی بشارت سنائی گئی ہے:{أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون}[سورة البقرة:5].

¤ عبادت کے اس اعلی مرتبہ کا مشکل سفر طئے کرنے میں منجملہ تین طرح کے لوگ ہیں:
1- *الظالمون لأنفسهم* : اہل توحید؛ جنہوں نے وجبات کی ادائیگی کی مگر ان کا ایمان قوادح توحید ( *شرک اصغر، بدعت غیر شرکیہ، معاصی* ) کے ارتکاب سے متاثر ہوا .
2- *المقتصدون* : جنہوں نے واجبات کی ادائیگی کی، اور اپنے ایمان وتوحيد کو قوادح توحید سے محفوظ رکھا.
3- *السابقون إلى الخيرات* : جنہوں نے واجبات کو ادا کیا، اپنے ایمان و توحید کو قوادح توحید سے محفوظ رکھا، اور ساتھ ہی نوافل کا بھی اہتمام کیا؛ یہی لوگ محسنین ہیں.
اس پر اللہ تعالٰی کا یہ قول دلالت کرتا ہے:{ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ}[سورة فاطر:32].
• لہذا طاعات و اعمال صالحہ کی بنیاد پر اہل توحید کے درجات متفاوت ہوں گے:{وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ}[سورة الأحقاف:19]. اور فرمایا:{وَمَن يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ، جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَن تَزَكَّىٰ}[سورة طه:75-76].
اللہ تعالٰی ہم سب کو اہل الفردوس میں شامل فرمائے، آمین یا رب العالمین.
 
Last edited by a moderator:
Top