بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام قسم کی تعریفات اللہ کے لائق ہیں ۔
نمبر 1 – ہمیں لازمی طور پر اس اصول کو جاننا چاہۓ کہ ( لا مشاحۃ فی الاصطلاح ) کہ اصطلاح میں کوئی جھگڑا ( قباحت ) نہیں اور یہ قاعدہ فقہاء اور اہل اصول کے ہاں معروف ہے – ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور اصطلاحات میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ وہ مفسدہ پر مبنی نہ ہوں ( مدارج السالکین 3 / 306)
اور لا مشاحۃ کا معنی ہے کہ کوئی تنازع نہیں ۔
نمبر 2 – قدیم زمانہ سے علماء نے احکام شرعیہ کی تقسیمات کی ہیں اور اس تقسیم کا مقصد شرعی احکام اور نصوص کے فہم میں سہولت اور آسانی پیدا کرنا ہے ۔
خصوصا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی معرفت میں کمزوری ، عربی ، اور عجمی اور اختلاط سے اس تقسیم کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔
پس علماء نے دیکھا کہ فہم میں سہولت اور آسانی پیدا کرنے کے لئے مسائل کی گروپ بندی اور اصول بنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ مستحسن کاموں میں سے ہے ۔ کیونکہ حصول علم کو مسلمانوں کے لئے آسان کرنے کے لۓ یہ لازمی ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اصول فقہ کے بانی ہیں اور ان کی تقسیمان کو بہت مقبولیت حاصل ہے انہیں کے ذکر کردہ اصول کو بنیاد بنا کر کمی بیشی کے ساتھ اہل اصول نے آگے قدم بڑھایا ہے ، اسی طرح دیگر تمام علوم شرعیہ پر کام ہوا ہے جیسا کہ علم تجوید ، اس کی تقسیم و ترتیب ، علوم قرآن اور علم توحید وغیرہ ۔
نمبر 3 – سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ شیخ الاسلام نے توحید کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے اور الشیخ محمد بن ابراہیم اور الشیخ فوزان نے چار قسموں میں تقسیم کیا ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ، آپ کی خدمت میں تفصیل بیان کرتا ہوں ۔
بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ توحید دو قسموں میں منقسم ہے ۔
1- توحید معرفۃ واثبات ۔
یہ عزوجل کے وجود ربوبیت اور اس کے اسماء و صفات پر ایمان لانے پر مشتمل ہے ۔
2- توحید قصد و طلب ۔
یہ اللہ ذوالجلال کی الوہیت پر ایمان لانے کو شامل ہے ۔
جس نے توحید کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے اس نے آسان فہمی کے لئے گذشتہ تقسیم کو کھول کر بیان کیا ہے اور کہا کہ
توحید تین اقسام میں منقسم ہے ۔
1- توحید ربوبیت : اللہ ذوالجلال پر ایمان اس میں داخل ہے ۔
2- توحید الوہیت یا عبادۃ : اور دونوں کا ایک معنی ہے ۔
3- توحید اسماء و صفات
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں اس تقسیم میں کوئی اشکال نہیں جب تک وہ کسی باطل چیز پر دلالت نہیں کرتی اور اصطلاح میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ تفصیل صرف اور صرف فہم میں آسانی پیدا کرنے کے لئے ہے جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا فہم میں کمی واقع ہوتی گئي اور علماء کرام شرح و تفصیل کی ضرورت محسوس کرنے لگے ۔
خلاصہ کلام
جس نے توحید کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے اس نے دو قسموں میں دوسروں کے اضافہ کردہ چیز کو جمع کر دیا ہے اور جس نے تین یا چار قسموں میں تقسیم کیا ہے تو اس نے ان کی تفصیل ذکر کر دی ہے ۔
تمام کے تمام ( علماء ) اس بات پر متفق ہیں کہ توحید اوپر ذکر کردہ چیزوں پر مشتمل ہے یہ اصطلاحی تقسیم ہے اس میں کوئی مانع نہیں بشرطیکہ اس سے کوئی فساد(ا)پیدا نہ ہوتا ہو جیسے توحید کے بعض معانی اس سے نکال دیۓ جائیں جو اس میں داخل تھے یا بعض معانی داخل کر دۓ جائیں جو اس میں داخل نہیں تھے اور ( شاید ) کبھی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہم اس سے زیادہ تفصیل کے محتاج ہوں گے پس علماء فہم میں آسانی پیدا کریں گے ۔
توحید کی تینوں اقسام کے معانی کا مختصر بیان ۔
ربوبیت پر ایمان : اللہ ذوالجلال کو اس کے افعال یعنی ( کائنات ، مخلوقات ) کو پیدا کرنے اور مارنے وغیرہ میں اکیلا جاننا ۔
الوہیت پر ایمان : اللہ ذوالجلال کو بندوں کے افعال ، قول و فعل ظاہر و باطن کے لۓ منفرد جاننا ہے اور اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا ۔
اسماء اور صفات پر ایمان : یعنی اللہ تعالی کے ان اسماء اور صفات پر ایمان رکھنا جو اللہ تعالی نے اپنی ذات مبارک کے لئے ثابت کئے ہیں اور ان کی نفی کرنا جن سے اللہ تعالی نے نفی کی ہے ۔
علماء کرام کا توحید کو اس طرح تقسیم کرنا بدعت نہیں ہے بلکہ یہ تیسیری اور چوتھی صدی سے معرفت ہے جیسا کہ شیخ بکر ابو زید ( رکن ہیئۃ کبار علماء ) نے اپنی کتاب ( الرد علی المخالف ) میں ذکر کیا ہے اور اس تقسیم کو ابن جریر طبری اور دوسرے علماء سے نقل کیا ہے ۔
تنبیہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بات صحیح نہیں کہ شیخ الاسلام نے توحید کو دو قسموں ربوبیہ اور اسماء و صفات میں تقسیم کہا ہے بلکہ انہوں نے توحید کی دو قسمیں توحید بالمعرفۃ والاثبات اور توحید القصد والطلب ذکر کی ہیں جب کہ توحید ربوبیت اور اسماء و صفات پہلی قسم میں داخل ہے ۔ دیکھئے مجموع فتاوی ( 15 / 164) والفتاوی الکبری (5/ 250)
(ا) جیسا کہ عصر حاضر میں بعض تحاریک نے توحید الوہیت کے ایک جزء توحید حاکمیت کو بیان و تشریح کے ارادے سے علیحدہ کیا مگر پھر توحید کے اس علیحدہ شدہ جز کو ہی توحید کی بنیاد اور اساس قرار دے کر باقی تمام اقسام اور جزئیات کو نظر انداز کر دیا ۔ اس جزء (توحید حاکمیت)کو موحد ہونے کا معیار قرار دیا گیا، اور اس کی بنیاد دوستی دشمنی کے معیار طے کیئے گئے ، جس کی بدولت مسلمانوں میں یہ غیر متنازعہ مسئلہ توحید فی الحکم اس نئی تقسیم کی وجہ سے بہت سے فتنوں اور انتشار کا سبب بنا۔ اور اسی کی بنیاد پر عصر حاضر میں فتنہ تکفیر نے بھی سر اٹھایا۔
اس مسئلہ کو دیکھتے ہوئے عصر حاضر کے بہت سے جید سلفی علماء نے اس توحید کی تقسیم کی پرزور مذمت کی اور بلکہ کچھ نے اس کی موجودہ شکل کو بدعت اور کچھ نے سیاسی ہتھکنڈوں سے تعبیر کیا۔
لہذا یہ بات واضح ہے کہ اگر محض بیان و تشریح کی حد تک بات ہوتی تو ہم ان مذمت کرنے والے علماء کو ہی دیکھتے ہیں کہ وہ خود حاکمیت الہی کے بیان میں خوب کردار ادا کرتے تھے، مگر جب یہ تقسیم ، بیان و تشریح سے بڑھ کر تفرقہ و فتنہ کے مذموم مقاصد کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئی تو سب نے اس غلو کی مذمت شروع کر دی۔ہمیں بھی اس تقسیم بارے محتاط رویے اپنانے کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم.
ماخوذ:: اسلام قیو اے ڈاٹ انفو