• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توہین رسالت کی سزا پر اُٹھائے جانیوالے اعتراضات

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
فقہ واجتہاد
حافظ ابتسام الہی ظہیر​
توہین رسالت کی سزا پر اُٹھائے جانیوالے اعتراضات​

توہین رسالت کا مسئلہ قرآن وسنت میں بڑی شرح وبسط سے بیان ہوچکاہے ، اور اجماع امت سے اس کی توثیق ہوچکی ہے ۔ توہین رسالت کے حوالے سے جو اعتراضات بالعموم اُٹھائے جاتے ہیں، ان کا حقیقت میں نہ علم سے تعلق ہے اور نہ ہی قرآن کے متون سے ان کا کوئی دور کا واسطہ ہے ۔ اسی طرح تفسیر وحدیث اور نہ ہی اجماعِ اُمت اس کی تائید کرتے ہیں ۔ یہ محض ضد، انانیت اور جناب رسو ل ﷺ کے بارے میں عقیدت ومحبت کی کمی ہے جس بنیاد پر اس طرح کی بے ہودہ باتیں سربازار عام کی جاتی ہیں ۔
قانون توہین رسالت295-C))کے حوالے سے اور شاتم رسول ﷺ کی سزا اور اس کے نفاذ کے حوالے سے جوبھی اعتراض اٹھائے گئے ہیں، اُن کی بنیاد نہ قرآن ہے، نہ حدیث، نہ تاریخ ہے،نہ سیر ت۔یہ اعتراضات محض مغرب زدہ اور علم سے بے بہرہ لوگوں کے پیدا کردہ ہیں ۔قانونِ توہین رسالت 295C)) متن یوں ہے :
’’جو بھی حضرت رسول اللہ ﷺ کی شان کے اندر کوئی توہین آمیز الفاظ یا کوئی (Derogatory)کہے گا تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کردیا جائے ۔‘‘
لہذا توہین رسالت کے قانون اور شرعی سزا پر اٹھائے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
پہلااعتراض :نیت کا معاملہ
جہاں (Derogatory) الفاظ کی بات ہوئی عام طور پر وہاں نیت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ضروری نہیں کہ جس شخص نے رسولِ اکرم ﷺ کی شان میں معاذ اللہ تنقیص کی ہے، اس کی نیت میں بھی وہ بات موجود ہو ۔
جواب :شریعت ِاسلامیہ کی رو سے جو اعمال احسن ہوتے ہیں ، ان میں اللہ تعالیٰ کو نیت

کی اصلاح مطلوب ہوتی ہے۔ حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ کا تعلق بھی ان اعمال سے ہے جو بظاہر خوشنمااور اچھے ہوتے ہیں مگر انسان کی نیت وہاں ریاکاری کی ہوتی ہے، اس لئے اللہ اسے قبول نہیں کرتے ۔اس کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک غازی،ایک حافظ قرآن ،اور ایک سخی آدمی کو جہنم میں ڈال دیں گے کیونکہ اُنہوں نے یہ اعمال اللہ کی رضا کےعلاوہ دکھلاوے کیلئے کئے ہوں گے۔
لیکن جب ہم پوری شریعت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کہیں یہ رہنمائی نہیں ملتی کہ زانی ، چور اورگالی بکنے والے سے ان کی نیتوں کے بارے میں پوچھا جائے ۔ نیت والی بات کو مغرب زدہ لوگ محض بطورِ ڈھال استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اقلیتی رہنما بشپ الیگزینڈر نے بھی ایک پروگرام میں میرے سامنے یہ اعتراض اُٹھایا کہ اس قانون میں نیت کی قید کا اضافہ ضروری ہے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ جناب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص محمد عربی ﷺ کو گالی دے آپ کی توہین کرے اور پھر ہم اس سے اس کی نیت معلوم کریں ، ایسا تو اُمت کے عام فرد کی توہین کے متعلق نہیں کیا جاتا کہ اس کو گالی دینے والے کی نیت معلوم کی جائے یہاں سرورِکائنات ﷺکے متعلق نیت کی بحث کیوں چھیڑی جاتی ہے ؟
2) قرآن میں توہین رسالت کی سزا کہاں ہے؟
یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ قرآن میں توہین رسالت کی سزا کہاں ہے؟ لہذا قرآن سے یہ ثابت نہیں۔
جواب :اس اعتراض کے دو جواب ہیں :
اوّل: یہ کہ قرآن ابھی نازل نہیں ہوا بلکہ رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوا ہے اور پروردگار نے واضح فرمایا:
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ(النحل:44)
یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ، شاید کہ وہ غور وفکر کریں ۔قرآن اس لئے نازل نہیں ہوا کہ اس کی تشریح کوئی فلسفی اپنے فلسفے سے، کوئی شاعر اپنی شاعری اور کوئی خطیب اپنی خطابت کی
روشنی میں کرے۔ یہ وہی بات ہوگی جو غلام احمد پرویز نے کہی کہ
’’جب قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہو تو مرکزِ ملت سے رجوع کیا جائے ۔‘‘ ایک شخص نے اسے مراسلہ بھیجا کہ حضرت! صاحب قرآن کے جن معنوں میں ہمیں ابہام نظر آتاہے، ان معانی کو کیسے سمجھیں ؟ اس پر اُس نے کہا کہ میں نے ۹ جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی ہے آپ اس کو پڑھیں آپ کو سمجھ آجائے گی کہ حدیث کے بغیر قرآن کو کیسے سمجھا جاتا ہے ۔ اس شخص کا عقیدہ سلامت تھا ۔کہنے لگا: حضرت ! آپ کی لکھی ہوئی ۹ جلدیں پڑھنے کے بجائے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی یہ چھ کتابیں کیوں نہ پڑھ لوں جس کے بعد مجھ پر بات واضح ہوجائے کہ قرآن کو کیسے سمجھنا ہے ۔
اللہ نے جس ذکر کو جس نبی پر نازل کیا، وہی نبی اس ذکر کی شرح کرنے کا سب سے زیادہ اہل ہوتا ہے ۔ لہذا یہ بات بالکل غلط ہے کہ اگر سنت میں کوئی سزا موجود ہے اور قرآن کے متن سے ہم براہِ راست اس کو اخذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو اس کا سرے سے اس بنیاد پر انکار کردیا جائے کہ وہ قرآن میں موجود نہیں ،اس لئے ہم اسے نہیں مانیں گے ! فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْكَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا(الاحزاب۲۱)
’’تم کو رسول اللہ کی پیروی (کرنا) بہتر ہے۔(یعنی) اس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روز قیامت کی اُمید ہو اور وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔ ‘‘
نیز فرمایا:
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ١ۚ وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا
’’جو شخص رسول کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جو نافرمانی کرے تو (اے پیغمبرﷺ)تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے۔‘‘(النساء:80) مزید فرمایا:
اور فرمایا: فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ
عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۶۳
(النور:63)
’’جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو ‏۔ ‘‘
کیونکہ آپ ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا ہے :
وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (النجم:3، 4)
آپ ﷺ کا فرمان اسی طرح قطعی الدلیل ہے جیسا کہ ربّ تعالیٰ کا فرمان :
دوم :قرآنِ کریم میں متعددایسے شواہد اور نصوص موجود ہیں جن میں توہین رسالت کے مرتکب کی سزا کا تذکرہ ہے ۔
ان میں سے چند ایک کا تذکرہ یہاں کیا جاتاہے ۔قال تعالیٰ :
1) اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ يَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْۤا اَوْ يُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (المائدۃ:۳۳)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سُولی چڑہا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔ ‏‘‘
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فسادی کس کو کہا جاتاہے ؟ جو دو بندوں کے بارے میں بکواس اور بے ہودہ کلمات کہے اور جو کسی چوہدری کے بارے میں بات کرے، عرف عام کی زبان اسے فسادی گردانتی ہے ۔ تو جو کائنات کے امام کے بارے میں بیہودہ بکواس کرے ، طعن وتشنیع کرے اس سے بڑا فسادی کون ہوگا ؟
2) وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ (التوبہ: ۱2)
’’اگر یہ لوگ عہد وپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سردارانِ کفر سے بھڑ جاؤ ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ، ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔ ‘‘
ہمارا اس سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ ہمارے نبی کے بارے میں زبان کو بند رکھیں ہمارے دین پر طعن وتشنیع نہ کریں ۔اگر ایسا کریں گے تو یہ حکم ہے کہ ان کو قتل کیا جائے ۔ان کا کوئی عہد وپیمان نہیں ہے ۔
تیسرا اعتراض : اسلام میں جبر نہیں!
یہ کہا جاتا ہے کہ اس سزا سے دین کی بنیادی روح پر حرف آتاہے ، کیونکہ دین میں جبر نہیں اور آپ جبر کرنا چاہتے ہیں ۔
جواب:دین میں جبر کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی کو بندوق کی نوک پر مومن نہیں بناسکتے۔ اگر وہ مطلب ہے جو معترضین سمجھتے ہیں تو پھر جب کسی حکمران ،یا کسی کے ماں باپ کو گالی دی جاتی ہے تو اس کو سزا کیوں دی جاتی ہے ؟! دین میں جبر کا مطلب یہ ہے کہ: زبردستی کسی کو اپنے دین میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کوئی جبر والی بات نہیں کہ حضور ﷺ کو گالی دی جائے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں ۔
چوتھا اعتراض : شاتم رسول کی توبہ
شاتم رسول اگر توبہ کرلے تو اس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔
جواب :توبہ کب قبول کی جاتی ہے اس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے : فرمان باری تعالیٰ ہے :
اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ١ فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
’’ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم وکرم والا ہے ۔ ‘‘(المائدۃ:34)
توبہ تب قبول ہوتی ہے جب تک کوئی قانون کے شکنجے میں نہیں آتا،جب زانی قانون کے شکنجے میں آگیا تو اس پر زنا کی حد لگے گی۔ قاتل ، شرابی جب قانون کی دسترس میں آگئے ان پر حدود اللہ کا نفاذ ہوگا اور توبہ اُنہیں حد کے ساقط ہونے میں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ اسی طرح شاتم رسول ﷺ بھی جب قانون کی گرفت میں آگیا اور شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ فلاں شخص نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے تو اسے قتل کرنےکے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا ۔ آپ ﷺ کے دور میں زنا کے کیس میں گناہ کے مرتکب دو صحابہ: ماعز بن مالک اور غامدیہ پر حد رجم نافذ کی گئی حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے غامدیہ سے متعلق فرمایا تھا :
لقد تابت توبة لو قسمت بین سبعین بين أهل المدينة لوسعتهم
لہذا جب ستر افراد کی توبہ کے برابر توبہ ان پر سے حد ختم نہ کرسکی تو شاتمین رسول کی توبہ کس طرح ان سے یہ اس مکروہ جرم کی سزا ختم کراسکتی ہے ؟[1]
پانچواں اعتراض :بڑے شاتمین کو سزا
آپ ﷺ نے بڑے شاتمین رسول کو سزا دی تھی اور جو کبھی کبھار شتم کرتا ہے تو کیا اس کو بھی قتل کی سزا دی جائے گی؟
جواب :شاتم رسول کو آپ ﷺ کے عہد میں قتل کرنے کے متعدد واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں ۔جن میں کعب بن اشرف کا قتل کیا جانا، اسے آپ ﷺ کے حکم کے مطابق قتل کیا گیا اور جب محمد بن مسلمہ اسے قتل کر کے لوٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
قد أفلحت الوجوہ[2]
’’ وہ چہرے کامیاب ہوئے جنہوں نے شاتم رسول کو قتل کیا ۔ ‘‘
دوسرا واقعہ عبد اللہ بن عتیق کے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کا ہے۔ انہوں نے بھی آپ ﷺ کے حکم پر اسے قتل کیا تھا ۔
یہ دونوں واقعات بڑے شاتمین سے متعلق تھے جو آپ ﷺ کو مسلسل ایذ ا پہنچایا کرتے تھے ۔ لیکن کتب حدیث وتاریخ میں ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن میں ایسے افراد کو بھی قتل کیا گیا جوصرف ایک یا دو مرتبہ آپ ﷺ کی توہین کے مرتکب ہوئے تھے ۔
ان واقعات میں ایک نابینا صحابی نے اپنی لونڈی کو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کے سبب قتل کردیا ۔یہ واقعہ سنن ابوداؤد اورنسائی میں موجود ہے ۔ اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس عورت نے گھر کی چار دیواری میں حضور ﷺ کو گالی دی تھی، پھر بھی اسے قتل کیا گیا اور اس کے خون کو ہدر یعنی رائیگاں قرار دیا گیا ۔ اس سے معلوم ہواکہ کسی چھوٹی مجلس میں بھی آپ ﷺ کو گالی دینا موجب ِقتل ہے ۔ اس میں اس کیلئے کوئی
معافی کی گنجائش نہیں ۔
جہاں تک آپ ﷺ کا اپنی زندگی میں چند گستاخانِ رسول کو معاف کردینے کا تعلق ہے تو اس سےمتعلق یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ آپ ﷺ کا حق تھا اور آپ جسے چاہتے معاف کرسکتے تھے ہم اس کا اختیار نہیں رکھتے ۔ جیسا کہ میری بہن اور بھائی میرے والد کی وراثت میں میری طرح برابرکے حقدار ہیں، اب اگر وہ اپنی زندگی میں اس حق کو معاف کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں یہ ان کا حق ہے ۔ مگر جب وہ دنیا سے رخصت ہوجائیں تو پھر میں دنیا میں ان کے حصے پر قبضہ جمانے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اس حق کو اب کوئی معاف نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جس کا حق ہوتاہے، وہ اسے معاف کردے یا حاصل کرلے یہ اس کے لئے جائز اور روا ہے لیکن کوئی دوسرا اس کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا ۔ اس لئے شانِ رسالت کی توہین کرنے والے کی سزا ہر حال میں قتل ہوگی ۔
چھٹا اعتراض :سزا میں نرمی
مطالبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سزا بہت سخت ہے، اس میں کچھ نرمی ہونی چاہئے ۔
جواب : یہ سزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہے اور وہ ربّ اپنے بندوں پر سب سے زیادہ رحیم ہے ۔ یہاں تو عدالت کی معمولی توہین اور مخالفت کی وجہ سے سالہا سال کال کوٹھڑی میں گذارنے پڑتے ہیں ۔ جاوید ہاشمی کوپرویز مشرف کی مخالفت کی وجہ سے ۶ سال جیل کاٹنا پڑی ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو محض حملے کی تیاری کا ارادہ کرنے کی پاداش میں ۸۶ سال کی سزا ہوسکتی ہے تو توہین رسالت کی سزا موت کیوں نہیں ہوسکتی ۔ دنیا کی ساری عدالتیں اور شخصیات مل کر بھی ہمارے نبی ﷺ کی شان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔
اورجاوید احمد غامدی کی جانب سے عموماً یہ دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ذمی شاتم رسول کی قتل کی سزا مقرر نہیں کی گئی ۔ تو اس بارے میں وضاحت یہ ہے احناف کے تمام علما اس مسئلے پر متفق ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب میں ذمی کے وجوبِ قتل کا جو فتویٰ جاری کیا ہے ۔ وہ بالکل صحیح فتویٰ ہے اور تمام احناف کے نزدیک شاتم رسول چاہےذمی ہو یا معاہد واجب القتل ہے ۔

[HR][/HR][1] سنن النسائی:1957

[2] البیہقی:3/222

نوٹ: یہ مضمون PDF فارمیٹ میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
 
Top