• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکفیریوں کے امام ابو قتادہ کا برطانیہ کی خالص طاغوتی عدالت سے فیصلوں کے لئے رجوع کا کارنامہ؟؟؟

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
تکفیریوں کے امام ابو قتادہ کا برطانیہ کی خالص طاغوتی عدالت سے فیصلوں کے لئے رجوع کا کارنامہ۔۔۔


کہاں ہیں وہ "اہل حق" جو دوسروں پر طاغوتی عدالت سے ہر حال میں فیصلہ کروانے کا کفر کفر کے فتوی لگاتے تھے؟؟؟
حافظ سعید حفظہ اللہ کے پاکستان کی عدالتوں سے رجوع پر تو فتوی جاری ہوئے ، اب زرا مفتیان کرام انٹر نیٹ و گلی محلہ سے درخواست ہے کہ ان حضرت پر بھی فتوی لگا کر ثواب دارین حاصل کریں۔

تکفیریوں کی گمراہی ،خود گمراہوں کو گھیر لائی۔۔۔۔۔
اردن سے تعلق رکھنے والے ایک سخت گیر عالم دین ابو قتادہ نے اپنی برطانیہ بدری کے خلاف اپیل جیت لی ہے۔ ایک برطانوی عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ انھیں ان کے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

برطانیہ کے خصوصی امیگریشن اپیلز کمیشن نے سوموار کو اپنے حکم میں قرار دیا ہے کہ وہ اس بات پر مطمئن نہیں کہ اردن ابو قتادہ کے منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دے گا۔ اس نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے جنوری کے فیصلے کی توثیق کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اردن میں تشدد عام ہے اور اس کا ثبوت اس کی عدالتوں میں پیش کیے گئے شواہد سے بھی ملا ہے

عدالت کے جج جان مٹنگ نے عالم دین کی ضمانت بھی منظور کر لی ہے اور ان کو منگل کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سرکاری وکیل کا یہ موقف مسترد کر دیا کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گا کیونکہ حکومت عدالت کے اس حکم سے بالکل بھی متفق نہیں ہے''۔ وزیر داخلہ تھریسامے اس معاملے پر دارالعوام میں آج ہی ایک بیان دینے والی تھیں۔

ابو قتادہ فلسطینی نژاد اردنی عالم دین ہیں۔ ان کا حقیقی نام عمر محمود محمد عثمان ہے۔ اردن میں 1999ء میں اور 2000ء میں ان کے خلاف دہشت گردی کی سازشوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت ان کی غیر موجودگی میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔

برطانوی حکومت کے وکلاء نے ماضی میں ان کا تعلق القاعدہ کے ایک جنگجو زکریا موسوی سے جوڑا تھا۔ زکریا پر امریکا میں نائن الیون حملوں کے الزام میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔ ان کے خطبات کی آڈیو ریکارڈنگز گیارہ ستمبر کو طیارے ہائی جیک کرنے والے بعض حملہ آوروں کے جرمنی کے شہر ہمبرگ میں واقع فلیٹ سے ملی تھیں اور انھی سے ان کا القاعدہ سے تعلق جوڑا گیا تھا۔

برطانوی حکام نے اکاون سالہ ابو قتادہ کو پہلی مرتبہ 2001ء میں اردن کے حوالے کرنے کی کوشش کی تھی اور پھر انھیں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 2002ء میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔ سن 2005ء میں اس قانون کے خاتمے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انھیں نگرانی میں رکھنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن انھیں برطانیہ بدری کے خلاف ان کی اپیل کا فیصلہ ہونے تک دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ برطانیہ اس عالم دین کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتا چلا آ رہا ہے اور انھیں ایک ہسپانوی جج نے ماضی میں القاعدہ کے مقتول سربراہ اسامہ بن لادن کا ایک سنئیر مشیر قرار دیا تھا۔

اسٹراسبرگ میں قائم یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے جنوری میں اپنے ایک حکم میں قرار دیا تھا کہ برطانیہ ابو قتادہ کو اردن کے حوالے نہیں کر سکتا کیونکہ وہاں ان کے خلاف کسی بھی ٹرائل میں استعمال کیے جانے والے شواہد تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں گے۔

اردن کی ایک عدالت نے ابو قتادہ کو ان کی ملک میں عدم موجودگی میں 1998ء میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں قصور وار قرار دیا تھا۔ اب اگر انھیں اردن کے حوالے کیا جاتا ہے تو ان کے خلاف وہاں یہ مقدمہ دوبارہ چلایا جائے گا۔ اردن کی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ابو قتادہ کے خلاف منصفانہ اور شفاف انداز میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

برطانیہ میں انھیں کچھ عرصہ قبل ضمانت کی سخت شرائط کے تحت رہا کر دیا گیا تھا اور عدالت میں ان کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی حراست غیر قانونی ہے لیکن بعد میں برطانیہ کے سرحدی حکام نے راسخ العقیدہ عالم دین کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ انھیں اب ان کے آبائی وطن اردن بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

وزیر داخلہ تھریسا مے نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اس سال کے اوائل میں اردن کا دورہ کیا تھا جس میں انھوں نے اردنی حکام سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کہ ان کے خلاف تشدد سے حاصل کیے گَئے شواہد کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے اس کیس کے سلسلہ میں حال ہی ملاقات کی تھی اور ان سے ابو قتادہ کے خلاف منصفانہ ٹرائل سے متعلق تبادلہ خیال کیا تھا۔
لنک::: ابو قتادہ کا برطانوی خالص طاغوتی عدالت سے فیصلہ کروانا
 

bilal madni

رکن
شمولیت
اپریل 25، 2013
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
46
جھاد غیر شرعی کی رٹ لگانے والے ملکہ برطانیہ کے وفا دار کو مجاھد بنا بیٹھے ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
السلام علیکم

صاحب تھریڈ اگر پسند کریں تو ایک موقعہ ہمیں عنایت فرمائیں مثبت اور مفید انداز میں آپکو جواب پیش کئے جائیں گے ہو سکتا ھے اس کا آپکو بھی علم نہ ہو۔
ایک بات کا خیال رکھیں کہ اگر اجازت نہ دینے کا پروگرام ہو تو پھر مراسلہ نہ لگائیں میں سمجھ جاؤں گا کہ داخلہ منع ھے۔

والسلام
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
تکفیریوں کے امام ابو قتادہ کا برطانیہ کی خالص طاغوتی عدالت سے فیصلوں کے لئے رجوع کا کارنامہ۔۔۔


کہاں ہیں وہ "اہل حق" جو دوسروں پر طاغوتی عدالت سے ہر حال میں فیصلہ کروانے کا کفر کفر کے فتوی لگاتے تھے؟؟؟
حافظ سعید حفظہ اللہ کے پاکستان کی عدالتوں سے رجوع پر تو فتوی جاری ہوئے ، اب زرا مفتیان کرام انٹر نیٹ و گلی محلہ سے درخواست ہے کہ ان حضرت پر بھی فتوی لگا کر ثواب دارین حاصل کریں۔

تکفیریوں کی گمراہی ،خود گمراہوں کو گھیر لائی۔۔۔۔۔


لنک::: ابو قتادہ کا برطانوی خالص طاغوتی عدالت سے فیصلہ کروانا
رسول ﷺاللہ کےپاس ایک دفعہ ایک بوڑھاشخص آیا اس نےآکر دریافت کیاکہ یارسولﷺکیاروزےکی حالت میں اپنی بیوی سے بوس وکنار کیاجاسکتاہے؟تو آنحضرتﷺ نےفرمایا:ہاں کیاجاسکتاہے۔بالکل یہی سوال اسی مجلس میں کچھ دیر بعد ایک نوجوان نےکیا توآپﷺنےفرمایا:نہیں کیاجاسکتا۔
مذکورہ حدیث کوسرسی نگاہ سےپڑھیں تو درج ذیل اشکالات پیداہوتےہیں۔
کیاشریعت میں جوانوں اوربوڑھوں کےلیےعلیحدہ علیحدہ احکام ہیں؟باالفاظ دیگر کیاشریعت اپنےاحکام میں افراد کےدرمیان فرق وامتیازروارکھتی ہے؟
مذکورہ دونوں صورتوں میں اصل مسلہ کیاہے؟اجازت یاممانعت؟اگریہ یااس طرح کےدیگراشکالات بےبنیادہیں تو علمانےاس مسلے کو کیسے حل کیاہے؟
درج بالا اعتراضات کا اصل جواب یہ ہےکہ اس مسلہ میں اجازت ہے۔لیکن جوان کوممانعت اس وجہ سے کی کیونکہ اس کےبارےمیں قوی خدشہ تھاکہ وہ حدکراس کرجائےگا۔
یہی ہم عرض کرتےہیں کہ اس طرح کی شرعی نصوص کوسامنے رکھتےہوےعلمانےفرمایاہےکہ ایک ہوتاہےشرعی مسلہ یانص اوردوسری چیز ہےوہ عملی صورت حال جس پہ آپ نےشرعی نص کو لاگوکرناہے۔یہ دونوں الگ الگ ہیں انہیں یکجانہیں کیاجاسکتا۔مفتی ،قاضی(جج)کی درحقیقت یہی ذمہ داری ہےکہ اس نےعملی صورت حال کو سامنےرکھ کر شرعی نص کو لاگوکرناہوتاہے۔اگرصرف شرعی نصوص پڑھ لینےکی بات ہوتی تو یہ سب ہی کرسکتےتھے۔لہذا ایک کو شریعت کا منسک(شرعی تعلیم)اوردوسرےکو منہج(شرعی تعلیم کولاگو گرنے طریقہ)کہتےہیں۔یہی بات ہم اپنےپیارےرفقاسے عرض کرتےہیں کہ آپ جب کفرکفرکی رٹ رلگاتےہیں یہ نہیں کہ آپ کےپاس کوئی شرعی نص نہیں ہوتی بلکہ اصل بات یہ ہےکہ اس شرعی نص کو لاگو کرنےمیں آپ سے خطا ہورہی ہوتی ہے۔لیکن آپ کاسارا زور صرف نص پر ہوتاہے۔اب اصل مسلہ تو یہی ہےکہ کفریہ نظام میں شمولیت اورطاغوتی عدالت سے فیصلہ کروانےسے گریزارہناچاہیے۔اگرعملی صورت حال یہ ہےکہ اس کے بغیرچارہ نہ ہوتوپھرمیراخیال ہےہمیں اپنی رائے پرنظرثانی کرنی چاہیے۔جیساکہ ابوقتادہ نےکیاہے۔
 
Top