کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
بلاگر، اویس حفیظ
ایکسپریس نیوز، جمعـہء 6 نومبر 2015
انٹرنیٹ کا دور آیا تو تو کبھی بینگن میں اللہ کا نام دیکھا تو کبھی آسمان پر بادل سے لکھا گیا اللہ کا نام دیکھا۔
اب یقین نہیں آتا کے قدرت کے کرشموں پر یقین کیا جائے یا جعلسازوں کی جعلسازی سے بچا جائے۔
اس موضوع پر قلم فرسائی کا خیال بارہا آیا مگر، ہر بار یا تو حساسیت کے پیشِ نظر خاموش ہو گیا یا کسی انجانی عقیدت کے تحت چُپ ہونا پڑا، مگر گذشتہ دنوں ایک خبر دماغ میں ایسی اٹکی کہ کوئی چارہ نہیں رہا۔ چونکہ موضوع کی حساسیت کا بھی خیال تھا اس لئے کسی مضبوط دلیل کا انتظار کرتا رہا، اب میری دانست میں اسے سپردِ قلم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
افتتاحیے میں الجھانے کے بجائے میں براہِ راست بات کرتا ہوں کہ آپ سبھی نے فیس بک اور دوسری سوشل میڈیا سائٹس پر اس طرح کی ہزار ہا پوسٹس دیکھی ہوں گی کہ
’’تربوز پر اللہ کا نام‘‘،
’’روٹی پر فلاں اسمِ شریف‘‘ یا پھر یہ
’’ شہد کی مکھیوں نے مل کر اللہ کا نام لکھ دیا‘‘۔
اس طرح کی پوسٹس ہر دوسرے پیج سے شیئر ہوتی ہیں اور کثرت سے ہوتی ہیں، میں یک جنبش قلم ایسی تمام چیزوں کو رد نہیں کرتا، اور نہ ہی کرسکتا ہوں مگر۔۔۔
آپ نے اگر ہندوانہ، احمدی یا گوہر شاہی پیجز بھی لائک کئے ہوں تو ایسی پوسٹس آپ کو وہاں پر بھی نظر آئیں گی جہاں وہ لوگ اپنے نظریات اور مخصوص عقائد کو اس طرح کی چیزوں کا سہارا لے کر لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرتے ہیں۔
یہاں مجھے قریب ڈیڑھ دہائی قبل کا وہ واقعہ یاد آ رہا ہے کہ جب اکیڈمی میں ایک لڑکے نے بتایا کہ فلاں جگہ پر ایک درخت پر اللہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم اور کچھ مبارک ہستیوں کا نام قدرتی طور لکھا ہوا ہے، جس جگہ کے بارے میں وہ بتا رہا تھا، وہاں میرا بچپن گذرا تھا اور اس درخت کو میں ایک عرصے سے دیکھ رہا تھا مگر یہ انہونی ابھی ہوئی تھی۔ اکیڈمی سے فارغ ہو کر ہم سب وہاں گئے، درخت پر طرح طرح کے دھاگے، رومال اور کپڑے باندھے جا چکے تھے، قریب ہی ایک دو اگر بتیاں سلگ رہی تھیں، درخت کے نیچے کچھ سکے اور روپے پڑے تھے، چند خواتین و حضرات وہاں پر دعا مانگ رہے تھے، میں نے سارا درخت چھان مارا مگر مجھے شرفِ زیارتِ اسم متبرک نہ ہوا، میں نے اُس لڑکے سے پوچھا تو اس نے مجھے ایک مخصوص کونے میں کھڑا کرکے کہا کہ اب دیکھو، وہاں سے درخت کی ٹہنیوں کا رخ کچھ ایسا تھا کہ جیسے’’للہ‘‘ لکھا ہو، میں نے پھر سوال کیا کہ اللہ کا الف کہاں ہے۔ تو وہ لڑکا چپ ہوگیا۔ پھر ایک دوسرے کونے سے اس نے مجھے’’محمدؐ‘‘ لکھا ہوا دکھایا جو مجھے آج تک نہیں سمجھ آسکا، پھر ایک اور ’’نام ‘‘ دکھایا، جس پر میں نے وہیں پر کہہ دیا کہ یہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے درخت پر کسی نے چاقو سے کھرچ کر بنایا ہو، وہ مجھے غصے سے گھورنے لگا، پھر ہم واپس آگئے۔ خیر وہ زمانہ بیت گیا، مگر یہ قصہ ذہن میں محفوظ ہو گیا۔
کچھ سال گذر گئے، انٹرنیٹ کا دور آیا تو ایسی بہت سے تصویریں سامنے آئیں، میں نے ایسی بہت سی تصویروں کو اکٹھا کر کے ایک کلیکشن بنائی،
ان میں ایک بینگن میں اللہ کا نام،
جرمنی میں درختوں سے قدرتی طور پر لکھا گیا کلمہ طیبہ،
آسمان پر بادل سے لکھا گیا اللہ کا نام،
شہد کے چھتے میں اللہ کا نام اور کیکر کی شاخوں پہ اللہ کا نام جیسے امیج قابلِ ذکر ہیں۔
ایک دن میں نے وہ تمام تصاویر الماس صاحب کو دکھائیں، الماس صاحب ایک پڑھے لکھے اور بزرگ آدمی تھے، کچھ امیج انہوں نے بہت عقیدت سے دیکھے اور کچھ پر انہوں نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا۔ جب سب دیکھ چکے تو کہتے کہ’’کرشن چندر‘‘ کا ایک افسانہ ہے ’’تھالی کا بینگن‘‘ مجھے یہ بینگن والی تصویر دیکھ کر وہ افسانہ یاد آ گیا ہے۔
انہوں نے چند سطروں میں افسانے کا خلاصہ بھی سنایا مگر میں اس وقت عقیدت کے آبگینے کی کرچیاں سمیٹنے میں مشغول تھا، اس وجہ سے وہ سن نہ سکا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ الماس صاحب نے اس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا۔ مزید چند سال بیت گئے پھر فیس بک کا دور آیا تو ایسے بیشمار امیج دیکھنے کا اتفاق ہوا، جنہیں ’’کھینچ تان‘‘ کر پورا کیا گیا تھا۔ کئی تو میرے نزدیک مضحکہ خیز تھے اور کئی فوٹو شاپ کا کمال۔ کچھ میں انسانی عقل کے اثرات نمایاں نظر آئے مگر جب چاند میں امام مہدی رضی اللہ کا عکس دیکھا تو ایسی چیزوں سے دل بالکل ہی اُچاٹ ہوگیا۔ حیرانی ہے کہ لوگ بڑی عقیدت سے ایسی چیزیں نہ صرف شیئر کرتے ہیں، بلکہ اوروں سے بھی یہی امید رکھتے ہیں اور اگر کوئی سوال کر دے تو اس کے عقیدے پر ہی تشکیک کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح کچھ چیزوں کو مقدس ہستیوں اور مقدس مقامات سے منسوب کر دیا جاتا ہے مگر بات وہی ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ’’روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا اندرونی منظر‘‘ کے کیپشن سے ایک تصویر جو بہت عرصہ انٹرنیٹ پر گردش کرتی رہی، برسوں بعد اس کی یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ مولانا جلال الدین رومی کے مزار کی تصویر تھی۔
فیس بک پر ایک ’’بال شریف‘‘ کی تصویر شیئر ہوئی دیکھی جس کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا موئے مبارک‘‘ مجھے تصویر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا کہ لوگ ایسی باتوں کو منسوب کرنے کیلئے کیسی کیسی متبرک ہستیوں کے نام لیتے ہیں،
اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے اپنے موئے مبارک خود صحابہ کرامؓ کو ہدیۃً دیئے اور اکثر کے پاس یہ تبرکاً موجود بھی تھے۔
حضرت خالدؓ بن ولید کے خود میں بھی آپؓ کے چند موئے مبارک تھے۔
شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی بھی ایک جگہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآل وسلم (یا بعض جگہ دو بھی آتا ہے) موئے مبارک تھے اور والد کے ورثے میں ملنے والی چیزوں میں ایک موئے مبارک ان کے حصے میں بھی آیا۔
بہر کیف سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ السلام کے استعمال کی اشیاء آج بھی موجود ہیں اور ان کے ساتھ ایک باقاعدہ نسب نامہ ہوتا ہے کہ یہ کس کس کے ذریعے کہاں کہاں پہنچیں، بالکل اُسی طرح جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی آل کے پاس اپنے نسب کی ساری کڑیاں محفوظ ہوتی ہیں۔
حضور بنی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے موئے مبارک کی نشانیاں یہ ہیں کہ
٭ وہ وقت کے ساتھ پرانے یا بوسیدہ نہیں ہوتے، ہمیشہ زندہ رہتے ہیں
٭ ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں
٭ ان کی مزید شاخیں نکلتی رہتی ہیں‘‘۔
اس لئے کسی بھی چیز کو سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے منسوب کرنے سے پہلے ان کی تحقیق کر لینی چاہئیے کیونکہ خود نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا قول ہے کہ،
’’جو مجھ سے ایسی بات منسوب کرے کہ جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ لے‘‘۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر چیزوں میں ہمیں مقدس ناموں یا جگہوں کی شبیہہ نظر آتی ہے، یہ بارہا نوٹ کیا گیا بلکہ کسی جگہ چائے یا پانی بھی گر جائے تو ہمیں لگتا ہے کہ جیسے کچھ لکھا ہوا ہے یا اس میں کوئی تصویر بنی ہوئی ہے، یہ صرف ہمیں ہی نہیں لگتا بلکہ پوری دنیا کے انسانوں میں یہ چیزعام ہے، اس طرح خاکوں کا نظر آنا دماغ کی سوچ اور ایک فکر ہے جسے نفسیات کی اصطلاح میں ’’پیری ڈولیا‘‘ کہا جاتا ہے، یہ ایک نفسیاتی ردِعمل ہے جس میں لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود شخصیات اور خاکوں کی شبیہہ انہیں چٹانوں، بادلوں اور دوسری چیزوں میں نظر آتی ہے۔ یورپ میں کسی دور میں ’’MAN IN MOON‘‘ کی اصطلاح بہت عام رہی ہے انہیں بھی ’’کوئی ہستی‘‘ چاند میں نظر آتی تھی۔
آپ آنکھیں بند کر لیں اور ایک کاغذ پر لائنیں مارنا شروع کر دیں، ایک منٹ بعد دیکھئے گا کہ آپ کو کئی چیزوں کا عکس، کئی نام ان بے ربط لائنوں میں نظر آئیں گے، اس ضمن میں ایک تازہ پیش رفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب مریخ سے آنے والی تصاویر کو دیکھ کر ایک چٹان کے حوالے سے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ’’یہ بدھا کی تصاویر ہیں اور اس سے وہاں ایلین کی موجودگی کا ایک اور ثبوت مل گیا ہے‘‘۔
برطانوی ڈیلی یو ایف او سائٹنگ کے اسکاٹ وارنگ نے تو یہاں تک کہا کہ بدھا کا خاکہ ملنا اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ یہ سیارہ کبھی کسی انتہائی ذہین مخلوق کی رہائش گاہ رہا ہے اور اسے ناسا کو تسلیم کرنا چاہئے، لیکن ناسا نہیں چاہتا کہ وہ ایسی سچائیوں کو عام لوگوں کے سامنے لے آئے کیوں کہ پھر اسے اس ٹیکنالوجی اور معلومات کو سب کے ساتھ شیئر کرنا پڑیں گی‘‘۔
کچھ لوگوں کو مریخ کی تصاویر میں خلائی کیکڑا نظر آچکا ہے اور کچھ کو تو امریکی صدر براک اوباما کا بھی دیدار نصیب ہوا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ 500 سائنسدان مریخ پر بھیجے گئے ہیں جو اس تحقیقاتی مشن کی ارسال کردہ تصاویر کی تحقیق کر رہے ہیں لیکن کسی نے ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ حالانکہ اس مشن کے پاس انتہائی تیز ایچ ڈی کیمرے ہیں جن کا اس سے قبل کسی بھی مشن میں استعمال نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف ناسا کے سائنسدان ’’ایشون واساواڈا‘‘ نے ان تصاویر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یہی کہا کہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں، اس طرح خاکوں کا نظر آنا پیری ڈولیا کے باعث ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر کینگ لی کا بھی یہی کہنا تھا کہ اکثر لوگ جو اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوتے ہیں تاہم اکثر لوگوں کے دماغ میں ایسی تصاویر بن جاتی ہیں جسے وہ ہر اس جگہ تلاش کرتے ہیں جہاں اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مریخ پر موجود چٹانوں کی مختلف شکلیں ان لوگوں کے ذہن پر ان کی سوچ کے مطابق تصویر بناتی ہیں لیکن ان کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہیں۔
ایسی اکثر و بیشتر چیزوں کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ پیٹ سے ہوتا ہے، اگر آپ کو اس بات سے اختلاف ہے تو پھر ’’کرشن چندر‘‘ کا افسانہ ’’تھالی کا بینگن‘‘ پڑھیں کہ جس میں
ایک ہندو ٹیکسی ڈرائیور کو بینگن میں ’’اللہ‘‘ نظر آتا ہے جسے وہ خوب کیش کراتا ہے۔
جب اس سے خوب کمائی ہوچکی ہوتی ہے تو وہ اللہ اچانک ’’اوم‘‘ کا نشان بن جاتا ہے
پھر جب ہندو عقیدت مند بھی ختم ہونے لگتے ہیں تو
بینگن ترچھا کرنے سے وہی نشان ’’صلیب‘‘ بن جاتا ہے،
پھر عیسائیوں کی جیبیں خالی ہوتی ہیں اسی اثناء میں تینوں مذاہب کے لوگوں میں دنگے فساد شروع ہوجاتے ہیں اور پولیس اس شخص کو گرفتار کرنے لگتی ہے مگر وہ شہر چھوڑ دیتا ہے اور اُس بینگن سے ہونی والی آمدنی سے ایک ٹیکسی خرید کر اپنے لئے باعزت روزگار کا انتظام کر لیتا ہے۔
خدا کو اپنے دین کی حقانیت ثابت کرنے کیلئے ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بادلوں، پھولوں، درختوں کی شاخوں، روٹیوں اور اس جیسی دوسری چیزوں میں اپنے اسم کا ظہور کرے۔ ہمیں ایسی چیزوں میں خدا کو تلاش کرنا ختم کرنا چاہئیے اور اگر واقعی اس کی تلاش ہے تو اسے ان مظاہر کائنات میں تلاش کرنا چاہئیے کہ جس کے بارے میں وہ خود سورۃ حج میں فرماتا ہے کہ،
’’پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں اور ہم نے انہیں تباہ کر دیا، تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور بہت سے کنویں بیکار اور بہت سے مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ تو کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھی کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں ہی ان کی باتیں سننے والے ہوتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں جو دل ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں‘‘
(سورۃ حج،22: 45-46)
نوٹ: اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایکسپریس نیوز، جمعـہء 6 نومبر 2015
انٹرنیٹ کا دور آیا تو تو کبھی بینگن میں اللہ کا نام دیکھا تو کبھی آسمان پر بادل سے لکھا گیا اللہ کا نام دیکھا۔
اب یقین نہیں آتا کے قدرت کے کرشموں پر یقین کیا جائے یا جعلسازوں کی جعلسازی سے بچا جائے۔
اس موضوع پر قلم فرسائی کا خیال بارہا آیا مگر، ہر بار یا تو حساسیت کے پیشِ نظر خاموش ہو گیا یا کسی انجانی عقیدت کے تحت چُپ ہونا پڑا، مگر گذشتہ دنوں ایک خبر دماغ میں ایسی اٹکی کہ کوئی چارہ نہیں رہا۔ چونکہ موضوع کی حساسیت کا بھی خیال تھا اس لئے کسی مضبوط دلیل کا انتظار کرتا رہا، اب میری دانست میں اسے سپردِ قلم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
افتتاحیے میں الجھانے کے بجائے میں براہِ راست بات کرتا ہوں کہ آپ سبھی نے فیس بک اور دوسری سوشل میڈیا سائٹس پر اس طرح کی ہزار ہا پوسٹس دیکھی ہوں گی کہ
’’تربوز پر اللہ کا نام‘‘،
’’روٹی پر فلاں اسمِ شریف‘‘ یا پھر یہ
’’ شہد کی مکھیوں نے مل کر اللہ کا نام لکھ دیا‘‘۔
اس طرح کی پوسٹس ہر دوسرے پیج سے شیئر ہوتی ہیں اور کثرت سے ہوتی ہیں، میں یک جنبش قلم ایسی تمام چیزوں کو رد نہیں کرتا، اور نہ ہی کرسکتا ہوں مگر۔۔۔
آپ نے اگر ہندوانہ، احمدی یا گوہر شاہی پیجز بھی لائک کئے ہوں تو ایسی پوسٹس آپ کو وہاں پر بھی نظر آئیں گی جہاں وہ لوگ اپنے نظریات اور مخصوص عقائد کو اس طرح کی چیزوں کا سہارا لے کر لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرتے ہیں۔
یہاں مجھے قریب ڈیڑھ دہائی قبل کا وہ واقعہ یاد آ رہا ہے کہ جب اکیڈمی میں ایک لڑکے نے بتایا کہ فلاں جگہ پر ایک درخت پر اللہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم اور کچھ مبارک ہستیوں کا نام قدرتی طور لکھا ہوا ہے، جس جگہ کے بارے میں وہ بتا رہا تھا، وہاں میرا بچپن گذرا تھا اور اس درخت کو میں ایک عرصے سے دیکھ رہا تھا مگر یہ انہونی ابھی ہوئی تھی۔ اکیڈمی سے فارغ ہو کر ہم سب وہاں گئے، درخت پر طرح طرح کے دھاگے، رومال اور کپڑے باندھے جا چکے تھے، قریب ہی ایک دو اگر بتیاں سلگ رہی تھیں، درخت کے نیچے کچھ سکے اور روپے پڑے تھے، چند خواتین و حضرات وہاں پر دعا مانگ رہے تھے، میں نے سارا درخت چھان مارا مگر مجھے شرفِ زیارتِ اسم متبرک نہ ہوا، میں نے اُس لڑکے سے پوچھا تو اس نے مجھے ایک مخصوص کونے میں کھڑا کرکے کہا کہ اب دیکھو، وہاں سے درخت کی ٹہنیوں کا رخ کچھ ایسا تھا کہ جیسے’’للہ‘‘ لکھا ہو، میں نے پھر سوال کیا کہ اللہ کا الف کہاں ہے۔ تو وہ لڑکا چپ ہوگیا۔ پھر ایک دوسرے کونے سے اس نے مجھے’’محمدؐ‘‘ لکھا ہوا دکھایا جو مجھے آج تک نہیں سمجھ آسکا، پھر ایک اور ’’نام ‘‘ دکھایا، جس پر میں نے وہیں پر کہہ دیا کہ یہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے درخت پر کسی نے چاقو سے کھرچ کر بنایا ہو، وہ مجھے غصے سے گھورنے لگا، پھر ہم واپس آگئے۔ خیر وہ زمانہ بیت گیا، مگر یہ قصہ ذہن میں محفوظ ہو گیا۔
کچھ سال گذر گئے، انٹرنیٹ کا دور آیا تو ایسی بہت سے تصویریں سامنے آئیں، میں نے ایسی بہت سی تصویروں کو اکٹھا کر کے ایک کلیکشن بنائی،
ان میں ایک بینگن میں اللہ کا نام،
جرمنی میں درختوں سے قدرتی طور پر لکھا گیا کلمہ طیبہ،
آسمان پر بادل سے لکھا گیا اللہ کا نام،
شہد کے چھتے میں اللہ کا نام اور کیکر کی شاخوں پہ اللہ کا نام جیسے امیج قابلِ ذکر ہیں۔
ایک دن میں نے وہ تمام تصاویر الماس صاحب کو دکھائیں، الماس صاحب ایک پڑھے لکھے اور بزرگ آدمی تھے، کچھ امیج انہوں نے بہت عقیدت سے دیکھے اور کچھ پر انہوں نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا۔ جب سب دیکھ چکے تو کہتے کہ’’کرشن چندر‘‘ کا ایک افسانہ ہے ’’تھالی کا بینگن‘‘ مجھے یہ بینگن والی تصویر دیکھ کر وہ افسانہ یاد آ گیا ہے۔
انہوں نے چند سطروں میں افسانے کا خلاصہ بھی سنایا مگر میں اس وقت عقیدت کے آبگینے کی کرچیاں سمیٹنے میں مشغول تھا، اس وجہ سے وہ سن نہ سکا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ الماس صاحب نے اس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا۔ مزید چند سال بیت گئے پھر فیس بک کا دور آیا تو ایسے بیشمار امیج دیکھنے کا اتفاق ہوا، جنہیں ’’کھینچ تان‘‘ کر پورا کیا گیا تھا۔ کئی تو میرے نزدیک مضحکہ خیز تھے اور کئی فوٹو شاپ کا کمال۔ کچھ میں انسانی عقل کے اثرات نمایاں نظر آئے مگر جب چاند میں امام مہدی رضی اللہ کا عکس دیکھا تو ایسی چیزوں سے دل بالکل ہی اُچاٹ ہوگیا۔ حیرانی ہے کہ لوگ بڑی عقیدت سے ایسی چیزیں نہ صرف شیئر کرتے ہیں، بلکہ اوروں سے بھی یہی امید رکھتے ہیں اور اگر کوئی سوال کر دے تو اس کے عقیدے پر ہی تشکیک کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح کچھ چیزوں کو مقدس ہستیوں اور مقدس مقامات سے منسوب کر دیا جاتا ہے مگر بات وہی ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ’’روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا اندرونی منظر‘‘ کے کیپشن سے ایک تصویر جو بہت عرصہ انٹرنیٹ پر گردش کرتی رہی، برسوں بعد اس کی یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ مولانا جلال الدین رومی کے مزار کی تصویر تھی۔
فیس بک پر ایک ’’بال شریف‘‘ کی تصویر شیئر ہوئی دیکھی جس کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا موئے مبارک‘‘ مجھے تصویر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا کہ لوگ ایسی باتوں کو منسوب کرنے کیلئے کیسی کیسی متبرک ہستیوں کے نام لیتے ہیں،
اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے اپنے موئے مبارک خود صحابہ کرامؓ کو ہدیۃً دیئے اور اکثر کے پاس یہ تبرکاً موجود بھی تھے۔
حضرت خالدؓ بن ولید کے خود میں بھی آپؓ کے چند موئے مبارک تھے۔
شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی بھی ایک جگہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآل وسلم (یا بعض جگہ دو بھی آتا ہے) موئے مبارک تھے اور والد کے ورثے میں ملنے والی چیزوں میں ایک موئے مبارک ان کے حصے میں بھی آیا۔
بہر کیف سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ السلام کے استعمال کی اشیاء آج بھی موجود ہیں اور ان کے ساتھ ایک باقاعدہ نسب نامہ ہوتا ہے کہ یہ کس کس کے ذریعے کہاں کہاں پہنچیں، بالکل اُسی طرح جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی آل کے پاس اپنے نسب کی ساری کڑیاں محفوظ ہوتی ہیں۔
حضور بنی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے موئے مبارک کی نشانیاں یہ ہیں کہ
٭ وہ وقت کے ساتھ پرانے یا بوسیدہ نہیں ہوتے، ہمیشہ زندہ رہتے ہیں
٭ ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں
٭ ان کی مزید شاخیں نکلتی رہتی ہیں‘‘۔
اس لئے کسی بھی چیز کو سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے منسوب کرنے سے پہلے ان کی تحقیق کر لینی چاہئیے کیونکہ خود نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا قول ہے کہ،
’’جو مجھ سے ایسی بات منسوب کرے کہ جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ لے‘‘۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر چیزوں میں ہمیں مقدس ناموں یا جگہوں کی شبیہہ نظر آتی ہے، یہ بارہا نوٹ کیا گیا بلکہ کسی جگہ چائے یا پانی بھی گر جائے تو ہمیں لگتا ہے کہ جیسے کچھ لکھا ہوا ہے یا اس میں کوئی تصویر بنی ہوئی ہے، یہ صرف ہمیں ہی نہیں لگتا بلکہ پوری دنیا کے انسانوں میں یہ چیزعام ہے، اس طرح خاکوں کا نظر آنا دماغ کی سوچ اور ایک فکر ہے جسے نفسیات کی اصطلاح میں ’’پیری ڈولیا‘‘ کہا جاتا ہے، یہ ایک نفسیاتی ردِعمل ہے جس میں لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود شخصیات اور خاکوں کی شبیہہ انہیں چٹانوں، بادلوں اور دوسری چیزوں میں نظر آتی ہے۔ یورپ میں کسی دور میں ’’MAN IN MOON‘‘ کی اصطلاح بہت عام رہی ہے انہیں بھی ’’کوئی ہستی‘‘ چاند میں نظر آتی تھی۔
آپ آنکھیں بند کر لیں اور ایک کاغذ پر لائنیں مارنا شروع کر دیں، ایک منٹ بعد دیکھئے گا کہ آپ کو کئی چیزوں کا عکس، کئی نام ان بے ربط لائنوں میں نظر آئیں گے، اس ضمن میں ایک تازہ پیش رفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب مریخ سے آنے والی تصاویر کو دیکھ کر ایک چٹان کے حوالے سے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ ’’یہ بدھا کی تصاویر ہیں اور اس سے وہاں ایلین کی موجودگی کا ایک اور ثبوت مل گیا ہے‘‘۔
برطانوی ڈیلی یو ایف او سائٹنگ کے اسکاٹ وارنگ نے تو یہاں تک کہا کہ بدھا کا خاکہ ملنا اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ یہ سیارہ کبھی کسی انتہائی ذہین مخلوق کی رہائش گاہ رہا ہے اور اسے ناسا کو تسلیم کرنا چاہئے، لیکن ناسا نہیں چاہتا کہ وہ ایسی سچائیوں کو عام لوگوں کے سامنے لے آئے کیوں کہ پھر اسے اس ٹیکنالوجی اور معلومات کو سب کے ساتھ شیئر کرنا پڑیں گی‘‘۔
کچھ لوگوں کو مریخ کی تصاویر میں خلائی کیکڑا نظر آچکا ہے اور کچھ کو تو امریکی صدر براک اوباما کا بھی دیدار نصیب ہوا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ 500 سائنسدان مریخ پر بھیجے گئے ہیں جو اس تحقیقاتی مشن کی ارسال کردہ تصاویر کی تحقیق کر رہے ہیں لیکن کسی نے ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ حالانکہ اس مشن کے پاس انتہائی تیز ایچ ڈی کیمرے ہیں جن کا اس سے قبل کسی بھی مشن میں استعمال نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف ناسا کے سائنسدان ’’ایشون واساواڈا‘‘ نے ان تصاویر کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یہی کہا کہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں، اس طرح خاکوں کا نظر آنا پیری ڈولیا کے باعث ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے پروفیسر کینگ لی کا بھی یہی کہنا تھا کہ اکثر لوگ جو اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوتے ہیں تاہم اکثر لوگوں کے دماغ میں ایسی تصاویر بن جاتی ہیں جسے وہ ہر اس جگہ تلاش کرتے ہیں جہاں اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے مریخ پر موجود چٹانوں کی مختلف شکلیں ان لوگوں کے ذہن پر ان کی سوچ کے مطابق تصویر بناتی ہیں لیکن ان کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہیں۔
ایسی اکثر و بیشتر چیزوں کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ پیٹ سے ہوتا ہے، اگر آپ کو اس بات سے اختلاف ہے تو پھر ’’کرشن چندر‘‘ کا افسانہ ’’تھالی کا بینگن‘‘ پڑھیں کہ جس میں
ایک ہندو ٹیکسی ڈرائیور کو بینگن میں ’’اللہ‘‘ نظر آتا ہے جسے وہ خوب کیش کراتا ہے۔
جب اس سے خوب کمائی ہوچکی ہوتی ہے تو وہ اللہ اچانک ’’اوم‘‘ کا نشان بن جاتا ہے
پھر جب ہندو عقیدت مند بھی ختم ہونے لگتے ہیں تو
بینگن ترچھا کرنے سے وہی نشان ’’صلیب‘‘ بن جاتا ہے،
پھر عیسائیوں کی جیبیں خالی ہوتی ہیں اسی اثناء میں تینوں مذاہب کے لوگوں میں دنگے فساد شروع ہوجاتے ہیں اور پولیس اس شخص کو گرفتار کرنے لگتی ہے مگر وہ شہر چھوڑ دیتا ہے اور اُس بینگن سے ہونی والی آمدنی سے ایک ٹیکسی خرید کر اپنے لئے باعزت روزگار کا انتظام کر لیتا ہے۔
خدا کو اپنے دین کی حقانیت ثابت کرنے کیلئے ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بادلوں، پھولوں، درختوں کی شاخوں، روٹیوں اور اس جیسی دوسری چیزوں میں اپنے اسم کا ظہور کرے۔ ہمیں ایسی چیزوں میں خدا کو تلاش کرنا ختم کرنا چاہئیے اور اگر واقعی اس کی تلاش ہے تو اسے ان مظاہر کائنات میں تلاش کرنا چاہئیے کہ جس کے بارے میں وہ خود سورۃ حج میں فرماتا ہے کہ،
’’پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں اور ہم نے انہیں تباہ کر دیا، تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور بہت سے کنویں بیکار اور بہت سے مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ تو کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھی کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں ہی ان کی باتیں سننے والے ہوتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں جو دل ہیں وہ اندھے ہوجاتے ہیں‘‘
(سورۃ حج،22: 45-46)
نوٹ: اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔