والے کو بھی کوئی چیزروک سکتی ہے ؟ دیکھو اگر جنگ میں تم غالب رہے تو بھی مفید تو محض آدمی ہی اپنی تلوار اور نیزے سمیت ہوگا اور اگر شکست کھاگئے تو پھر تمہیں اپنے اہل اور مال کے سلسلے میں رسوا ہونا پڑے گا۔ پھر دُرید نے بعض قبائل اور سرداروں کے متعلق سوال کیا۔ اور اس کے بعد کہا: اے مالک! تم نے بنوہوازن کی عورتوں اور بچوں کو سواروں کے حلق میں لاکر کوئی صحیح کام نہیں کیا۔ انہیں ان کے علاقے کے محفوظ مقامات اور ا ن کی قوم کی بالا جگہوں میں بھیج دو۔ اس کے بعد گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر بددینوں سے ٹکر لو۔ اگر تم نے فتح حاصل کی تو پیچھے والے تم سے آن ملیں گے اور اگر تمہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا تو تمہارے اہل وعیال اور مال مویشی بہر حال محفوظ رہیں گے۔
لیکن جنرل کمانڈر ، مالک نے یہ مشورہ مسترد کردیا اور کہا : اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کرسکتا۔ تم بوڑھے ہو چکے ہو اور تمہاری عقل بھی بوڑھی ہوچکی ہے۔ واللہ! یا تو ہوازن میری اطاعت کریں گے یا میں اس تلوار پر ٹیک لگا دوں گا اوریہ میری پیٹھ کے آرپار نکل جائے گی۔ درحقیقت مالک کو یہ گوارا نہ ہواکہ اس جنگ میں درید کا بھی نام یا مشورہ شامل ہو۔ ہوازن نے کہا : ہم نے تمہاری اطاعت کی۔ اس پر درید نے کہا : یہ ایسی جنگ ہے جس میں میں نہ شریک ہوں اور نہ یہ مجھ سے فوت ہوئی ہے۔
یا لیـتـنـی فـیہــا جــذع أخب فیہــا وأضــع
أقــود وطفــاء الـدمــع کأنہــا شــاۃ صـدع
''کاش! میں اس میں جوان ہوتا۔ تگ وتازاور بھاگ دوڑ کرتا۔ ٹانگ کے لمبے بالوں والے اور میانہ قسم کی بکری جیسے گھوڑے کی قیادت کرتا۔ ''
دشمن کے جاسوس :
اس کے بعد مالک کے وہ جاسوس آئے جو مسلمانوں کے حالات کا پتہ لگانے پر مامور کیے گئے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ ان کا جوڑ جوڑ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ مالک نے کہا : تمہاری تباہی ہو تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم نے کچھ چتکبرے گھوڑوں پر سفید انسان دیکھے ، اور اتنے میں واللہ ہماری وہ حالت ہوگئی جسے تم دیکھ رہے ہو۔
رسول اللہﷺ کے جاسوس :
ادھر رسول اللہﷺ کو بھی دشمن کی روانگی کی خبریں مل چکی تھیں۔ چنانچہ آپ نے ابوحَدْرَدْ اسلمیؓ کو یہ حکم دے کر روانہ فرمایا کہ لوگوں کے درمیان گھس کر قیام کریں اور ان کے حالات کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگا کر واپس آئیں اور آپ کو اطلاع دیں تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔
رسول اللہﷺ مکہ سے حنین کی طرف :
سنیچر ۶ /شوال ۸ھ کو رسول اللہﷺ نے مکہ سے کوچ فرمایا۔ آج آپ کو مکہ میں آئے ہوئے انیسواں دن تھا۔ بارہ ہزار کی فوج آپ کے ہمرکاب تھی۔ دس ہزار وہ جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ہمراہ تشریف لائی تھی اور دوہزار باشندگان مکہ سے ، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی۔ نبیﷺ نے صفوان بن امیہ سے سو زِرہیںمع آلات واوزار ادھارلیں۔ اور عَتّاب بن اَسیدؓ کو مکہ کا گورنر مقرر فرمایا۔
دوپہر بعد ایک سوار نے آکر بتایا کہ میں نے فلاں اور فلاں پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بنو ہوازن چیٹ پیٹ سمیت آگے ہیں۔ ان کی عورتوں ، چوپائے اور بکریاں سب ساتھ ہیں۔ رسول اللہﷺ نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا: یہ سب ان شاء اللہ کل مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا۔ رات آئی تو حضرت انس بن ابی مرثدغنویؓ نے رضاکارانہ طور پر سنتری کے فرائض انجام دیے۔1
حنین جاتے ہو ئے لوگوں نے بیر کا ایک بڑا سا ہرادرخت دیکھا ، جس کو
''ذات اَنْوَاط'' کہا جاتا تھا - (مشرکین ) عرب اس پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ اس کے پاس جانور ذبح کرتے تھے اور وہاں درگاہ اور میلہ لگاتے تھے۔ بعض فوجیوں نے رسول اللہﷺ سے کہا : آپﷺ ہمارے لیے بھی ذات انواط بنا دیجیے۔ جیسے ان کے لیے ذات انواط ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ اکبر ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے تم نے ویسی ہی بات کہی جیسی موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ
قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ (۷: ۱۳۸)
''ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے جس طرح ان کے لیے معبود ہیں ''... یہ طور طریقے ہیں۔ تم لوگ بھی یقینا پہلوں کے طور طریقوں پر سوار ہوگئے۔2(اثناء راہ میں ) بعض لوگوں نے لشکر کی کثرت کے پیش نظر کہا تھا کہ ہم آج ہر گز مغلوب نہیں ہوسکتے اور یہ بات رسول اللہﷺ پر گراں گذری تھی۔