کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
تیل کی دولت اور بدلتا ہوا قطر
تیل اور گیس سے ہونے والی آمدن نے قطر کو دنیا کا امیر ترین ملک بنا دیا ہے اور اب تو یہ 2022 میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے دو سو ارب ڈالر خرچنے کو تیار ہے لیکن کیا یہ ان گنت دولت قطر کے عوام کی زندگی میں خوشحالی اور خوشی لا سکی ہے؟
قطر میں گرمی آج کل قابلِ برداشت ہے ، یہاں شام ہوتے ہی افراد اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ ملک کے دارالحکومت دوہا میں سمندر کے کنارے واقع 'کورنیش' نامی جگہ پہ چہل قدمی کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے میں گرمی کے موسم کی آمد کے بعد ایسا کرنا ممکن نہ ہوگاـ
سمندر کے اس کنارے پر جہاں پہلے صرف ریت کے پہاڑ تھے اب فولاد اور شیشے سے بنی عمارتوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔
تقریباً ایک صدی پہلے یہی قطر غربت کی آغوش میں مدہوش سو رہا تھا تاہم آج دنیا کے اس امیر ترین ملک میں فی کس آمدنی سالانہ ایک لاکھ ڈالر ہے لیکن تیل اور گیس کی وجہ سے ہونے والی اس برق رفتار ترقی نے قطری معاشرے کو بھی بدل دیا ہے۔
ملک کے دارلحکومت دوہا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں نئی عمارتوں پہ جاری کام نے ہر وقت ٹریفک کو الجھا کر رکھا ہوتا ہے۔ جارحانہ انداز میں جاری ان تعمیراتی کاموں کے وجہ سے مقامی طور پر رہائشی لوگوں پر ذہنی دباؤ نظر آتا ہے۔
قطر یونورسٹی کے شعبِہ معاشرتی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر قلطام الغانم کہتے ہیں کہ 'ہم اب شہری لوگ بن گئے ہیں، ہماری معاشرتی اور معاشی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ خاندان ایک دوسرے سے دور ہونا شروع ہوگئے ہیں۔خریداری اور چیزوں کی طرف توجہ اب ذیادہ بڑھ گئی ہے۔'
مقامی میڈیا کے مطابق 40 فیصد قطری شادیوں کا اختتام اب طلاق پہ ہوتا ہے اور ملک کی نصف سے زائد قطری آبادی جن میں بچے اور بڑے شامل ہیں، شدید موٹاپے کا شکار ہے۔ مقامی لوگوں کے لیے مفت تعلیم، بجلی، گیس، پانی اور روزگار کی ضمانت بھی ہے لیکن کثیر تعداد میں ملنے والی ان سہولتوں کے جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں۔
تیل اور گیس کی وجہ سے ہونے والی اس برق رفتار ترقی نے قطری معاشرے کو بھی بدل دیا ہے
دوہا میں واقعہ امریکن یونورسٹی کے ایک ماہرِ تعلیم کہتے ہیں کہ گریجویٹ ہونے والے طالبِ علموں کو بیس قسم کے اداروں سے ملازمت کی پیشکش ہوتی ہیں، ایسے میں طالبِ علموں کو صحیح فیصلہ کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔
قطر میں ہر ایک مقامی شہری کے مقابلے میں سات غیر ملکی پائے جاتے ہیں۔ یہاں قطری شہریوں کو اس بات کی شکایت ہے کہ اْنھیں وہ ملازمتیں دی جاتی ہیں جن میں تھوڑا یا نہ ہونے کے برابر کام ہوتا ہے جبکہ غیر ملکیوں کو تسلی بخش ملازمتیں حاصل ہوتی ہیں۔
یہاں لوگوں کے درمیان رشتے اب بکھر رہے ہیں، تقریبًا تمام قطری جوڑوں نے اب بچوں کی دیکھ بھال کے لیے انڈونیشی، فلیپینی اور نیپالی آیاؤں کو مقرر کیا ہے جس کی وجہ سے بچوں اور بڑوں کے درمیان سوچ میں واضح فرق پیدا ہو رہا ہے۔
ساٹھ سالہ مقامی خاتون اْمِ خلافہ کہتی ہیں کہ پہلے زندگی سادہ اور خوبصورت تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'کسی زمانے میں ہم وسائل خود فراہم کرتے تھے، اب رشتوں میں دوریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔'
شہر سے دور دوہا کے صحرا کے قریب اْم الفائی نامی ایک کسان نے مجھے گرم گرم جھاگ سے بھرا ہوا اونٹنی کا دودھ اور کھجوریں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے زمانے میں لوگ کام کریں یا نہ کریں وہ خوشحال ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
اْم الفائی کہتے ہیں کہ حکومت لوگوں کی مدد کر رہی ہے لیکن چیزیں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں۔
قطری معاشرہ طبقاتی تفریق کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، یہاں مقامی لوگوں کو یہی ڈر ہے کہ اگر تفریق کے اس عمل کو ختم کر دیا گیا تو معاشرہ میں طبقاتی توازن پیدا ہو جائے گا جو کہ قطری تہذیب کے لیے خطرہ ہوگا۔
لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طبقاتی توازن پیدا ہو رہا ہے اور تہذیب بدلاؤ کے دہانے پہ ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ بدلتے تعلقات اور آٹھ سال بعد ہونے والے فٹبال ورلڈکپ کے حوالے سے مقامی لوگوں میں تشویش اور تحفظات ابھی سے بڑھ رہے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ حکومت دوبارہ اصلاحاتی عمل کرنے پہ مجبور ہو جائے گی۔
میتھیو ٹیلر دوہا، قطر: منگل 29 اپريل 2014