• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تیمم کے احکام

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
تیمم کے احکام
ابن بشیر الحسینوی
فاضل مرکز التربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد
مدرس جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ز
قرآن و حدیث کی روشنی میں تیمم کے احکام درج ذیل ہیں۔
تیمم کا لغوی معنی:
امام ابن اثیر لکھتے ہیں:واصلہ فی اللغۃ القصد۔لغت میں اس کی اصل ارادہ کرنا ہے ۔(النھایۃ:ج٥ص٢٥٩)
یہی معنی ابن قتیبہ(ادب الکتاب :ص١٤)زبیدی(تاج العروس:ج٣١ص٢٢٨)ابن منظور المصری(لسان العرب:ج١٢ص٢٢)جوہری(الصحاح:ج٥ص٢٠٦٤)اور مناوی (التعاریف:ص٢١٨)وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
تیمم کی اصطلاحی تعریف:


شرح میں تیمم سے مراد ہے کہ مٹی کی طرف ارادہ کرنا چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کرنے کے لئے نماز وغیرہ کو مباح کرنے کی غرض سے۔دیکھئے(فتح الباری:ج١ص٤٣١)
تیمم کس سے کفایت کرتا ہے؟

تیمم حدث اصغر اور حدث اکبر سے کفایت کرتا ہے۔اس کی دلیل ارشاد باری تعالی ہے (المائدہ:٦،النساء:٤٣) وحدیث (صحیح البخاری : 4608 ،صحیح مسلم:٣٦٧)
تیمم امت محمدیہ ؐ کی خصوصیت ہے جو کسی اور امت کے لئے جائز نہیں تھا ۔
اس کی دلیل یہ کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
اعطیت خمسا لم یعطہن احد قبلی ومنہا جعلت لی الارض مسجدا و طہورا
مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی بنایا گیا ہے۔(صحیح البخاری:٢٣٥صحیح مسلم:١١٩١)

امام نووی لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی خصوصیت اور فضیلت ہے کہ اس کے ساتھ اسی امت محمدیہ ؐ کو خاص کیا گیا ہے ،اللہ تعالی نے اس کو اس امت پر زیادہ کیا ہے دوسری امتوں پر شرف کے لحاظ سے اور اس میں کوئی اور امت شریک نہیں ہے جیسا کہ مشہور احادیث میں رسول اللہ ؐ سے اس کی صراحت ہے۔(المجموع:ج٢ ص٢٠٦)

اس بات کی وضاحت درج ذیل محدثین نے بھی کی ہے۔
مثلا امام ابن المنذر(الاوسط:ج٢ ص١١)ابن حجر (فتح الباری:ج١ ص٤٣٦)امام عراقی(طرح التثریب ج١ ص١١١)امام ابن الملقن(الاعلام:ج٢ص١١٢)و کتب تفسیر۔

تیمم کس مٹی سے کرنا ہے ؟

صحیح مسلم (٥٢٢ )،صحیح ابی عوانہ (ج ١ص٣٠٣)اور صحیح ابن خزیمہ( ج١ص١٢٣)میں یہ صراحت موجود ہے کہ وجعلت لنا تربتہا طہورا یعنی اس کی مٹی ہمارے لئے پاک کرنے والی بنائی گئی ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے
(وامسحوا بوجوہکم وایدیکم منہ)(المائدۃ:٦)
اس آیت میں( من )تبعیضیہ ہے(شیخ ابن عثیمین کا اس کو من ابتدائیہ قرار دینا درست نہیں ۔مجموع الفتاوی :ج٤ص٢٣٨،فتاوی الدین الخالص:ج٢ص٤٢٧) اس سے مراد یہ ہے کہ مٹی کا کچھ حصہ ہاتھ کے ساتھ لگا ہوا ہو ۔اگر کوئی پتھر پر ہاتھ مارے اور اس پر کوئی غبار بھی نہ ہو تو اس سے تیمم نہیں ہو سکتا ہاں اگر پتھر پر غبار ہو تو اس سے تیمم کرنا جائز ہے ۔اسی طرح ریت سے تیمم کرنا جائز نہیں لیکن اگر اس پر غبار ہو تو اس سے تیمم کرنا درست ہے ۔جب رسول اللہ ؐ نے سیدنا عمار کو تیمم کی تعلیم دی تھی تواس کے زمین پر ہاتھ مارنے کا حکم دیا تھ نہ کہ پتھر پر اور بعض احادیث میں یہ لفظ ہیں (نفظھما)آپ نے اپنی ہتھلیوں کو زمین پر مار کر ان کو جھٹکا(مسند احمد :١٨٨٢٣،سنن النسائی:٣١٨،صحیح ابن خزیمہ:٢٦٩)
اور بعض میں آتا ہے (نفث فیھما)آپ نے ان میں پھونک ماری۔(مسند احمد:١٩٣٩٥،سنن النسائی:٣٢١،صحیح ابن حبان:١٣٠٦)
ان کو مٹی کا غبار لگا ہوا تھا تو تب ہی آپ نے ہاتھوں کو جھٹکا اور ان میں پھونک ماری ،ورنہ پھونک مارنے کا کیا فائدہ ۔امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ اس شخص کا بیان جو نہ پانی پاتا ہے اور نہ (تراب)مٹی۔(صحیح البخاری قبل ح:٣٣٦)

امام بیہقی لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک صرف اس مٹی سے تیمم جائز ہے جس کا غبار ہاتھ کے ساتھ چمٹے۔(الخلافیات :ج٢ص٤٦٧)
امام ابن المنذر نے تیمم کے لئے مٹی کے غبار والی ہونے پر اجماع نقل کیا ہے (الاجماع)
جن احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اعطیت خمسا لم یعطہن احد قبلی ومنہا جعلت لی الارض مسجدا و طہورا
مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی بنایا گیا ہے۔(صحیح البخاری:٢٣٥صحیح مسلم:١١٩١)
اس میں زمین کے لفظ عام ہیں اور وہ احادیث جن میں (تراب)مٹی کے لفظ ہیں وہ زمین سے مٹی کو خاص کر رہے ہیں ۔یاد رہے کہ ہر وہ شئی جو زمین پر ہے اسے( صعیدا )زمین نہیں کہتے ورنہ لازم آئے گا کہ انسان ،جانور اور درخت وغیرہ بھی صعیدا میں آتے ہیں جبکہ ایسا کوئی بھی نہیں کہتا۔فافہم۔
عام کو خاص کرنے کی ایک اور مثال بھی ملاحظہ کریں رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو تمام زمین کی ا یک مٹھی سے پیدا فرمایا۔(حدیث صحیح عند المحدثین،سنن ابی داود:٤٦٩٣اس کوامام ترمذی(٢٩٥٥)نے حسن صحیح ،ابن حبان ( ٦١٦٠)نے صحیح اور امام حاکم (ج٢ص٢٨٨)نے صحیح الاسنادکہا ہے ۔)

اور ارشاد باری تعالی ہے
(فانما خلقناکم من تراب)(الحج:٥)
پس بے شک ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔

اب اس آیت کریمہ نے حدیث میں مذکور زمین کو مٹی کے ساتھ خاص کر دیاہے۔اور اس معلوم ہوا کہ زمین کے لفظ میں اصل مٹی ہے ۔مزید دیکھیں(مصنف ابن ابی شیبہ:ج١ص١٨٤،مصنف عبدالرزاق:ج١ص٢١١،مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:ج٢١ص٣٦٤تا٣٦٦)
اور جمہور محدثین کا یہی موقف ہے کہ تیمم مٹی سے ہی ہو گا اور یہی بات راجح ہے کیونکہ دلیل ان کے ساتھ ہے ۔
اسی کو ترجیح دی ہے نووی(شرح مسلم:ج٤ص٥٧) شیرازی (المھذب :ص٣٢)ابن رجب(فتح الباری لابن رجب:ج٢ص٣٣٥) خرقی ابن قدامہ(المغنی :ج١ص٢٤٨) اور ابن عبد البرنے(الاستذکار:ج٣ص١٥٩) وغیرہ

تیمم کرنے کی شرائط:

تیمم کرتے وقت ان شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔
(١)تیمم کرتے وقت پانی کا موجود نہ ہونا (المائدہ:٦صحیح البخاری:٣٣٤صحیح مسلم:٣٦٧،٥٢٢)
اگر پانی موجود ہے تو تیمم سے کوئی نماز پڑھنا درست نہیں خواہ وہ نماز فرضی ،نماز عید یا جنازہ ہو۔پانی کی موجودگی میں نمازکے فوت ہونے کے ڈر سے تیمم سے نماز پڑھنا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے لہذا بعض لوگوں کا نماز عید اور نماز جنازہ کے فوت ہونے کے ڈر کی وجہ سے پانی کی موجودگی میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کو جائز قرار دینا درست نہیں ۔دیکھئے(الاوسط لابن المنذر:ج٢ص٢٤٥)
(٢)کسی بیماری کی وجہ سے( جس میں پانی کے استعمال سے بیماری کے بڑھ جانے کا خطرہ ہو۔)(النساء:٤٣)
(٣)جس مٹی سے تیمم کرنا ہے وہ پاک ہو۔(النساء :٤٣)اس پر امام ابن المنذر(الاوسط:ج٢ص٤٠) نووی(المجموع:ج٢ص٢١٦) اور ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی:ج٢١ص٣٤٨)نے اجماع نقل کیا ہے۔

تیمم کے اعضاء کون سے ہیں ؟

قرآن وحدیث میں تیمم کے اعضاء دونوں ہاتھ اور چہرہ ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی اعضاء تیمم میں سے نہیں ہے ۔امام نووی لکھتے ہیں کہ واجمعت الامۃ علی ان التیمم لا یکون الا فی الوجہ والیدین سواء کان فی حدث اصغر او اکبر
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تیمم صرف چہرے اور ہاتھوں میں ہوتا ہے خواہ وہ حدث اصغر کی وجہ سے یا حدث اکبر کی وجہ سے ۔(شرح مسلم:ج٢ص٨١)

تیمم کرنے کا طریقہ:

نیت کرنا (صحیح البخاری:١صحیح مسلم:٥٠٣٦)
بسم اللہ پڑھنا( حدیث صحیح عند المحدثین ،سنن النسائی:٧٨اس ابن خزیمہ (١٤٤)اور ابن حبان (الاحسان:٦٥٤٤)نے صحیح کہا ہے )
دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو پاک مٹی پرایک بار مارنا۔(صحیح البخاری:٣٤٧صحیح مسلم:٦٨٢)
دونوں ہاتھوں کو جھٹکنا۔( مسند احمد :١٨٨٢٣،سنن النسائی:٣١٨،صحیح ابن خزیمہ:٢٦٩)
ان میں پھونک مارنا۔(مسند احمد:١٩٣٩٥،سنن النسائی:٣٢١،صحیح ابن حبان:١٣٠٦)
بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرنا پھر دائیں کو بائیں کی پشت پر پھیرنا ۔(صحیح البخاری:٣٣٨صحیح مسلم:٣٦٨)
پھر دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا۔(صحیح البخاری:٣٣٨صحیح مسلم:٣٦٨)

آخر میں اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ پڑھنا۔(صحیح مسلم:٢٣٤)

نواقض تیمم :

یاد رہے نواقض وضو ہی نواقض تیمم ہیں ،وہ چیزیں جن کے لاحق ہونے سے تیم ختم ہو جاتا ہے درج ذیل ہیں ۔
پیشاب اور پاخانہ (صحیح البخاری:١٣٧صحیح مسلم:٣٦١،٣٦٢)
بے ہوش ہونا(صحیح البخاری:١٨٤)
مذی(صحیح البخاری:٢٦٩)
اونٹ کا گوشت کھانا(صحیح مسلم:٣٦٠)
نیند(سنن ابی داود)
اسی طرح پانی مل جانا بھی ناقض تیمم ہے خواہ آدمی نماز میں ہی ہو،صحیح مسلم(٥٢٢) میں حدیث ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:زمیں ہمارے لئے مسجد اور پاکی کا ذریعہ بنائی گئی ہے جب تک ہم پانی نہ پائیں ۔یہ جمہور کا مذہب ہے اور جمہور کی بات دلیل کے ساتھ ہ و تب ہی مانی جائے گی ورنہ فقط جمہور کوئی دلیل نہیں ہیں یہاں تو جمہور کے ساتھ دلیل ہے اس یہی راجح ہے اور اس کو ابن حزم (المحلی:ج٢ص١١٢)خرقی ،ابن قدامہ (المغنی:ج١ص٢٦٨)ابن رشد(بدایۃ المجتہد:ج١ص١٨٤)اور شوکانی (نیل الاوطار :ج١ص٣١٢)نے راجح کہا ہے۔یا آدمی پانی استعمال کرنے پر قادر ہو جائے پھر بھی تیمم ٹوٹ جاتا ہے۔
اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔(صحیح البخاری:٢١٢)

تیمم، ہاتھوں کو ایک دفعہ مٹی پر مارنے سے کیا جائے گے یا دو دفعہ مارنے سے؟
راجح بات یہ ہے کہ تیمم ہاتھوں کو ایک دفعہ مارنے سے کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ ؐ نے سیدنا عمار کو جب تیمم کی تعلیم دی تھی تو اس کو ہاتھوں کو ایک بار مارنے کا حکم دیا تھا ۔(صحیح البخاری:٣٤٧صحیح مسلم:٦٨٢)اس حدیث پر امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ باب التیمم للوجہ والکفین،چہرے اور ہاتھوں کے لئے تیمم کرنے کا باب۔
وہ لو گ جو کہتے ہیں کہ تیمم ہاتھوں کو دو دفعہ مارنے سے کیا جائے گا اور ہاتھوں پر مسح کہنیوں سمیت کیا جائے گا ۔وہ سنن ابی داود(٣٢٨)وغیرہ کی روایت پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے عمار بن یاسر کو تیمم کی تعلیم دی تو کہنیوں سمیت ہاتھوں مسح کیا۔اس کی سند میں مبہم راوی ہے جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے ۔
اسی طرح وہ لوگ سنن الدارقطنی (ج١ص١٣٢)وغیرہ کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ تیمم میں دو بار ہاتھوں کومارنا ہے۔اس کی سند میں علی بن ظبیان راوی ہے جس کے بارے میں ابو حاتم نے کہا :متروک اورابن معین نے کہا :کذاب خبیث ،ابوذرعہ نے کہا :واہی الحدیث اور ابن حبان نے کہا :یسقط الاعتبار باخبارہ۔اس کی احادیث پر اعتبار نہیں رہا،امام بخاری نے کہا منکر الحدیث۔
اس روایت کا بھی حال آپ نے ملاحظہ فرما لیا ۔دو بار ہاتھوں کو مارنے کے متعلق اور کہنیوں سمیت ہاتھوں پر مسح کرنے کے متعلق کوئی روایت صحیح ثابت نہیں اس کی صراحت درج ذیل محدثین نے کی ہے ۔
ابن حزم(المحلی ج١ص١٤٨)
ابن حجر (فتح الباری ج١ص٤٤٤)
ابن عبد البر (الاستذکارج٣ص١٦٥)
خطابی (معالم السنن:ج١ص٢٠٢)
ابن قیم(زادالمعادج١ص١٩٩)
ابن دقیق العید(احکام العیدج١ص١١٢)
امام احمد نے کہا:من قال ان التیمم الی المرفقین فانما ھو شیئی زادہ من عندہ۔جس نے کہا کہ بے شک تیمم کہنیوں سمیت کرنا ہے بے شک یہ ایسی چیز ہے جو اس نے اپنی طرف سے زیادہ کی ہے۔(زادالمعاد:ج١ص١٩٩،حاشیہ روض المربع:ج١ص٣٣٥،شرح اخضر المختصرات ج٦٤ص١٠)
بعض لوگ وضو پر قیاس کرتے ہوئے تیمم میں بھی ہاتھوں کو کہنیوں سمیت مسح کرنے کے لئے دلیل بناتے ہیں۔ان کا یہ قیاس باطل ہے ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ ان دونو ں کے مسائل مختلف ہیں تیمم میں کلی کرنا اور ناک میں پانی دالنا نہیں ہے برخلا ف وضو کے ،تیمم میں اعضاء پر مسح دو بار یا تین بار کرنا جائز نہیں ہے بر خلاف وضو کے،تیمم وضو کے طریقے سے کئی وجوہ سے مختلف ہے ۔(مجموع الفتاوی:ج٢١ص٣٥٤)

تیمم میں نیت کرنا۔

تیمم کے صحیح ہونے کے لئے نیت کرنا شرط ہے
امام ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ نیت کے بغیر تیمم صحیح نہیں ہوتا۔(المغنی:ج١ص٢٥١)
امام نووی لکھتے ہیں کہ نیت تیمم میں کرنا واجب ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔(المجموع:ج٢ص٢٢٠)
فائدہ:ایک تیمم تمام نمازوں کے لئے کافی ہے جب تک کوئی ناقض تیمم نہ پایا جائے ۔ہرنماز کے لئے الگ الگ تیمم کرنے کی رسول اللہ ؐ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ۔
جس کے پاس پانی اور مٹی کچھ بھی نہ ہو تو وہ نماز پڑھے گا۔
اس کی دلیل یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کو نماز نے پالیا ان کے پاس پانی نہیں تھا تو انھوں نے ویسے ہی
بغیر وضو کے نماز پڑھ لی انھوں نے اس کی شکایت رسول اللہ ؐ کو کی تو اللہ تعالی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔(صحیح البخاری:٣٣٦صحیح مسلم:٣٦٧)اس حدیث پر امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ اس شخص کا بیان جس نے پانی اور مٹی میں سے کچھ بھی نہ پایا۔نیز امام ابن حبان اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کسی کے پاس نہ پانمی ہے نہ مٹی تو وہ سیسے ہی نما ز پڑھے گا ۔(صحیح ابن حبان:ج٤ص٦٩٨)
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس میں دلیل ہے اس شخص کے بارے میں جس کے پاس پانی اور مٹی نہیں کہ اس پر نماز پڑھنی واجب ہے اگر ایسا کرنا درست نہ ہوتا تو نبی کریم ؐ اس کا انکار کر دیتے۔شافعی ،احمد جمہور محدثین اور اکثر اصحاب مالک کا یہی موقف ہے ۔(فتح الباری:ج١ص٤٤٠)
یہ اشکال ذہن میں آسکتا ہے کہ جب ان صحابہ نے پانی کی عدم موجودگی میں بغیر وضو کے نماز پڑھی تھی حدیث میں یہ ذکر نہیں آتا کہ ان کے پاس مٹی بھی نہیں تھی۔اس کا جواب نووی(شرح مسلم:ج٢ص٢٧٨) ابن رجب (فتح الباری:ج٢ص٩٢)اور ابن حجر(فتح الباری:ج١ص٤٤٠) وغیرہ نے یہ دیا ہے کہ صحابہ کے پاس پانی کا نہ ہونے والا واقعہ تیمم کی آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا،انھیں آیت تیمم کے نازل ہونے سے پہلے مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کی اجازت نہیں تھی تو انھوں نے بغیر طہارت کے نماز پڑھی اس کے معنی یہ ہوئے کہ جس شخص کے پاس پانی اور مٹی نہ تو وہ وضو اور تیمم کے بغیر ہی نماز پڑھے گانبی کریم ؐ کے ان پر انکار نہ کرنے کی وجہ سے ۔

نماز کے وقت سے پہلے تیمم کرنا بھی درست ہے ۔
اس مسئلے میں دلائل اس رسالہ کے شروع میں گزر چکے ہیں نیز ابن حزم(مسئلہ :٢٣٧) اور ابن تیمیہ نے (مجموع الفتاوی: ج٢١ص٤٣٦ و٣٧٧)بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔

تیمم کرنے سے پہلے پانی کو تلاش کرنا چاہئے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز عصر کا وقت قریب ہو گیا لوگوں نے پانی تلاش کیا ......الخ(صحیح البخاری:١٦٩،صحیح مسلم:٢٢٧٩)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تیمم کرنے سے پہلے پانی تلاش کرنا چاہئے اب تلاش کرنے کوئی حد نہیں ۔بعض شوکانی کہتے ہیں کہ نماز کے آخری وقت تک پانی تلاش کرنے کو واجب کہنے کی قرآن و حدیث ،اجماع اور قیاس صحیح میں کوئی دلیل نہیں ہے۔(السیل الجرار:ج١ص١٢٨)
بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی ساتھی کے پاس پانی ہے وہ اس کو بیچتا ہے اور آدمی کے پاس پانی خریدنے کی طاقت نہیں ہیں تو اس صورت میں بھی وہ تیمم کرے گا۔

جس کے پاس پانی نہیں ہے کیا وہ اپنی بیوی سے صحبت کر سکتا ہے ؟

اس میں کو ئی حرج نہیں ہے کیونکہ پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کرے گا ،اور مسافر بھی اگر اس کے پاس پانی نہیں ہے تو وہ اپنی بیوی سے صحبت کرسکتا ہے اس کا اشارہ تو قرآن حکیم کی آیت میں موجود ہے ۔دیکھئے(مجموع الفتاوی:ج٢١ص٤٠٢،المجموع للنووی:ج١ص٢٤١)

تیمم کرنے والا امام وضو کرنے والے مقتدیوں کو جماعت کروا سکتا ہے۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ غزوہ ذات السلاسل میں سردی سے ڈرے انھوں نے تیمم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تو انھوں نے اس پر انکار کیا اور انھوں نے اس کی خبر رسول اللہ ؐ کو دی تو آپ نے پوچھا اے عمرو تو نے اپنے ساتھیوں کو جنابت کی حالت میں نماز پڑھائی ہے ؟انھوں نے کہا ؟اے اللہ کے رسول مجھے اللہ تعالی کا فرمان یا دآیا کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔(النساء:٢٩)رسول اللہ ؐ یہ سن کر ہنس پڑے۔(حدیث صحیح عند المحدثین ،مسند احمد:ج٤ص٢٠٣ح١٨٢٨٧،سنن ابی داود:٣٣٤،صحیح البخاری:قبل ح ٣٤٥تعلیقا بالجزم اس کو ابن حبان(٢٠٢)حاکم اور ذھبی(ج١ص١٧٧)اور ابن الملقن (البدر المنیرج٢ص٦٣٣)نے صحیح کہا ہے۔

اعضائے تیمم میں ترتیب ۔

تیمم کرتے وقت اعضائے تیمم میں ترتیب کا خیال رکھنا ضروری نہیں (ا حکام الاحکام لابن دقیق العید:ج١ص١١٣، فتح الباری لابن حجر:تحت ح ٣٤٧)پہلے چہرے پر مسح کر لیا اور پھر ہاتھوں پر (المائدہ:٦ا؛النسائ:٤٣،صحیح البخاری:٣٣٩،صحیح مسلم :٣٦٨)یا پہلے ہاتھوں اور پھر چہرے پر (صحیح البخاری :٣٤٧)دونوں صورتیں درست ہیں ۔
بیوی حائض کی حالت میں تھی حیض ختم ہونے پر پانی نہیں ملا یا اگر پانی ہے تو وہ مریضہ ہے پانی استعمال کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تو اس کا خاوند اپنی بیوی کو مٹی سے تیمم کراکر اس سے ہم بستری کرسکتا ہے ۔
تیمم کر کے موزے یا جورابیں پہنے والے کے بھی تمام مسائل وضو کے بعد موزے یا جورابیں پہننے والے کے ہیں ۔

نماز عید یا جنازہ کے فوت ہونے کے ڈر کی وجہ سے تیمم کرنا درست نہیں ۔
نماز کے لئے پانی کی موجودگی میں وضو شرط ہے خواہ وہ کوئی بھی نماز ہو اس کا تعلق فرضی نماز سے ہو سی نفلی سے ۔اس کے دلا ئل قرآن و حدیث میں بہت زیادہ ہیں باقی رہا پانی کی موجودگی میں تیمم کرنا صرف نماز عید یا جنازہ کے لئے تو یہ بات کئی وجوہ سے درست نہیں ہے۔
(١)فرضی نمازوں سے ان دو نما زوں کو مستثنی کرنا بالکل ثابت نہیں ،جو حکم فرضی نمازوں کا ہے وہی نفلی کا ہے کہ پانی کی موجودگی میں تیمم کرنا غلط ہے ۔فرق کرنے والے پر قرآن وحدیث سے دلیل لاز م ہے،اور اس فرق پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔
(٢)رسول اللہ ؐ نے فرمایا:جعلت لی تربتہا طہورا اذا لم نجد المائ۔زمین کی مٹی میرے لئے پاک کرنے والی بنا ئی پانی کے نہ ہونے کی حالت میں ہے ۔(صحیح مسلم:١١٩٣)یہ عام ہے ۔
(٣)رسول اللہ ؐ سے پانی کی موجودگی میں تیمم کر کے نماز پڑھنا قطعا ثابت نہیں ہے ۔
(٤)جو لوگ نفلی نماز کے لئے نماز کے فوت ہو جانے کے ڈر سے پانی کی موجودگی تیمم کرنے کی رخصت نکالتے ہیں ان سے سوال ہے کہ وہ کبھی کبھار پیش آنے والی نفلی نماز کے لئے جب پانی کی موجودگی میں تیمم کی رخصت نکالتے ہیں توفرضی نما ز جو ایک دن رات میں پانچ مرتبہ پڑھنی ہوتی ہے اس کے لئے پانی کی موجودگی میں تیمم کرنے کی رخصت نماز کء فوت ہو جانے کے ڈر سے کیوں نہیں دیتے حالانکہ ادھر تو ہر لحاظ سے زیادہ ضرورت ہے ۔فافہم
نوٹ ٌیہ مضمون حسینوی بلوگ پر بھی پڑھ سکتے ہیں رابطہ حسینوی بلوگ
 

SheebaKamran

رکن
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
60
کیا گھر کی دیوار پہ تیمم ہو سکتا ہے ؟


Sent from my iPhone using Tapatalk
 
Top