اگرچہ کہ میں اس کالم سے یا استاد خاتون کی جملہ باتوں سے متفق نہیں۔ لیکن ذیل کی ان باتوں میں تو صداقت جھلکتی ہے، الا یہ کہ انہوں نے نبی، سینٹ اور لیڈرز کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے
1۔کوئی بھی مسلمان آپﷺ کے اسوۃ حسنۃ پر عمل اسی نیت سے کرتا ہے کہ وہ آپﷺ کی پیروی کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔یہ سوچ کسی کی بھی نہیں ہوتی کہ ایسا کر کے میں نعوذ باللہ آپﷺ جیسا بن جاؤں گا ( یعنی نبی)
2۔کسی اور لیڈر کا تو پتہ نہیں لیکن آپﷺ کے خصائص کے علاوہ آپﷺ کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔۔۔پھر وہی بات دہراؤں گی عقیدہ ہمارا یہی ہونا چاہیے عملی کوتاہی سے اللہ کی رحمت سے درگذر کی امید ہے۔۔
3۔ آپﷺ کی ہم اتباع ہی کرتے ہیں نعوذ باللہ آپﷺ جیسا بننے کی کوشش نہیں کرتے
یہ فلسفہ ایک کافر کا تو ہو سکتا ہے جس کے پاس آپﷺ جیسا نمونہ کامل نہیں ۔۔۔کسی مسلمان کو اس سے متاثر نہیں ہونا چاہیے
اس کالم میں ہمارے لیے عملی نکتہ صرف اور صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ آپﷺ کی پیردی کرنی چاہیے ۔۔۔اس کے علاوہ اس کالم میں رطب و یابس کے سوا کچھ اور نہیں